عالمی میڈیا پر یہودیوں کی اجارہ داری افسوسناک !!!

آج پوری دنیا میں مسلم قوم کے جتنے مسائل ہیں، اس قدر کسی قوم اور مذہب کے نہیں ، ہر چہار طرف مسلمانوں کو جن نِت نئے فتنوں اور ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے، شایدکسی قوم کے لیے اس کو برداشت کرنا تو دور کی بات ،اس کو سننا بھی مشکل ہو۔ پورے عالم میں ہر چہار طرف سے مسلمانوں کے ایمان،جان ،مال،عزت اور آبرو پر یکساںیلغار ہے، دنیا کا کوئی بھی خطہ خواہ وہ مسلم ملک ہی کیوں نہ ہو ، مسلمانوں کے تیئیں پُرامن نہیں دکھتا ، پوری دنیا میں موجودہ خودمختار مسلم ممالک کی تعداد تقریبا ساٹھ ہے اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداددو ارب آٹھ کروڑہے،اس طرح آبادی کے اعتبارسے عیسائیت کے بعد یہ دنیاکا دوسراعظیم ترین مذہب ہے۔ ہندوستان،امریکہ، جاپان، انگلینڈ ،آسٹریلیااور دیگر ان ممالک کو چھوڑکر کر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ،ہم ان ممالک کی بات کرتے ہیں جہاں صرف مسلماں ہی ہیں ، یا اکثریت میں ہیں،وہاں بھی مسلمانوں کی حالت اس شیر کی طرح ہے جس کو قفس میں بند کردیا گیا ہو، نہ انہیں اظہارِرائے کی آزادی حاصل ہے اور نہ وہ کوئی کام، خواہ دین ہی کام کیوں نہ ہو، بذاتِ خود انجام نہیں دے سکتے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جمعہ کا خطبہ تک بھی خود سے نہیں دے سکتے ۔ میں ان ممالک کی بات کررہاں ہوں جو اپنے ملک کے قدرتی سرمایہ کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر پورے عالمِ اسلام کو فروخت کررہے ہیں، خواہ وہ سعودی عربیہ، کویت، مصر وشام ہوں، یا دوسرے عرب اور خلیجی ممالک ۔ اللہ تعالیٰ نے ان ممالک میں ایسے خزینے دفن کررکھے ہیں کہ اگر یہ انصاف اور دیانت داری سے کام لیں تو صدیوں تک پورے عالم کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے۔ لیکن ان کو اس کا خوف ہے کہ اگر یہ انصاف اور دیانت داری سے کام لیں گے تو پھر ان کی بادشاہیت اور ڈکٹیٹر شپ کو کون سنبھالے گا، زندگی کو عیش وعشرت کی جو لت لگ گئی ہے وہ کیسے ختم ہوگی،حد تو یہ ہے کہ اپنی اور اپنے عوام کی بات رکھنے کے لیے ان کے پاس اپنی زبان یعنی کوئی بھی خود کا میڈیاچینل نہیں ہے، خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الکٹرونک میڈیا ،ان کے پاس نہ ہی تو خود کا کوئی اشاعتی ادارہ ہے جس کے تحت وہ اپنے من کی خبریں شائع کرسکیں، اگر کچھ چینلس مسلمان ملک اور شخص کے نام سے رجسٹرڈ بھی ہیں، تو وہ بھی اسرائیلی اور یہودی زبان کے محتاج ہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ،سنتے اور پڑھتے ہیں، اس میں بھی ہم کسی نہ کسی طرح یہودی اور عیسائی دنیا کے محتاج ہیں، ہمارا اپنا کوئی چینل نہیں ہے جس پر ہم اپنے مذہب اور اپنے پرسنل مسائل کو پیش کرسکیں۔اگر اس طرح کے کچھ عربی،انگلش اور اردو رسالے ہیں بھی تو وہ بھی صرف مذہب ہی کی حد تک محدود ہیں ، عالمِ اسلام اور دنیا کی صحیح خبروں کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس کوئی میگزین بھی نہیں ہے۔ اورمیڈیا کے تعلق سے یہ بات تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آج یہ جس چیز کی ترجمانی کرتی ہے اور کررہی ہے ،اس میں تقریبا نوے فیصد مسلمانوں کے تئیں جھوٹ اور فریب شامل ہوتے ہیں۔
میڈیا کا تعلق چار شعبوں، ٹی وی، نیوز،ریڈیو اور فلم سے ہے، ان چار چیزوں کے مشترکہ پروگرامس کو ہم میڈیا کہتے ہیں۔ ۱۹۸۳ء میں امریکہ کے نوے فیصد میڈیا پر پچاس کمپنیوں کی اجارہ داری تھی، جبکہ حالیہ تحقیق کے مطابق پچانوے فیصد میڈیا پر صرف چھہ کمپنیوں کی اجارہ داری ہے، یعنی جو کچھ ہم پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہیں ان وسائل پر صرف چھہ کمپنیوں کی ہولڈ ہے۔اور طرفہ کی بات بھی یہ ہے کہ یہ چھیؤں کمپنیاں صرف یہودیوں کی ہیں۔ یہ چھہ کمپنیاں: والٹ ڈژنی(Walt Disney), ٹائم وارنر(Time Warner) وائی کام(Viacom) نیوز کارپریشن(News Corporation)جی ای(GE) اور سی بی ایس(CBS) ہیں۔ ان کمپنیوں کی دھماکہ خیز ملکیت کی فہرست پر ذرا ہم سرسری نظر ڈالتے ہیں ،تو دنیا کی سب سے بڑی کمپنی والٹ ڈِژنی کی امریکہ میں سب سے زیادہ پروڈکشن ہاؤس ہیں،اس کمپنی کے پاس سات بڑے نیوزپیپرس،تین میگزن اورکئی نیوز کیبل نیٹ ورکس ہیں، جس کے چودہ ملین یعنی ایک کروڑچالیس لاکھ صارفین ہیں،اس کے علاوہ اے بی سی نیوز، ای ایس پی این پکشر اور مارویل اسٹوڈیو بھی اس کی ملکیت ہے۔دوسری بڑی کمپنی ٹائم وارنر ہے، ’ایچ بی او‘ امریکہ کا سب سے بڑا ٹی وی کیبل نیٹ ورک اس کی ملکیت ہے، نیز امریکہ کی مشہور میگزنوں میں سے ٹائم میگزن بھی اسی کی ملکیت ہے، یہ میگزن امریکہ میں شائع ہونے والی تمام میگزنوں میں سب سے زیادہ شائع ہونے والی میگزن ہے۔نیز سی این این اور ٹائم وارنر بروس بھی اس کی ملکیت ہے۔ تیسری کمپنی ’وائی کام‘ پیراماؤنٹ پکچرس ، ایم ٹی وی ، سی ایم ٹی، بی ای ٹی اور این آئی سی کے جے آر ایس اس کی ملکیت ہے۔چوتھی کمپنی ’نیوز کارپوریشن‘فاکس ٹی وی چینل ، وال اسٹریٹ جرنل اور نیو یورک پوسٹ میگزن اس کی ملکیت ہے۔پانچویں کمپنی’ جی ای‘ہے، کوم کاسٹ اور این سی بی ٹی وی چینل اس کی ملکیت ہے ، اس کے علاوہ یونیورسل پکچرس اورفوکَس فیچرس بھی اس کی ملکیت ہے۔ چھٹی کمپنی ’سی بی ایس‘شو ٹائم، اسمتھ سونین چینل،این ایف ڈاٹ کام اور 60 منٹس اس کی ملکیت ہے۔یہ ایک نمونہ تھا ، حالانکہ ان سب بڑی کمپنیوں کے تحت بے شمار چھوٹی چھوٹی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ اور یہ ساری کمپنیاں یہودی چلارہے ہیں۔ ان کمپنیوں کی کل آمدنی $275.9 billion ہے،یعنی دوسوپچہتر ارب نوے کروڑڈالراس کی کل آمدنی ہے، اگر اس کی ملکیت کا اندازہ لگائیں تو ان کی پوری آمدنی فنلیڈ جو ایک ملک ہے ،اس کے جی ڈی پی گروتھ سے چھتس ارب گنہ زیادہ ہے۔اتنی خطیر رقم این ایف ایل فٹ بال ٹیم جو بہت زیادہ مہنگی قیمت پر فروخت ہوتی ہے اس کو بھی بارہ مرتبہ سے زیادہ بار خریدنے کے لیے کافی ہوگی۔کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم وہ کہاں صرف کرتے ہیں؟ آج پورا عالمِ اسلام سویا ہو ہے مگر یہ یہودی بیدار ہیں اور اپنی پوری کمائی صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں صرف کررہے ہیں۔نام کے اعتبار سے گو یہ کمپنیاں الگ الگ ہیں، مگر ان تمام کمپنیوں کا مشن ایک ہے اور ان کمپنیوں کی مکمل پاور آف آٹرنی یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے ،ساری کمپنیاں انہیں کے اشاروں کے اردگرد گردش کرتی ہیں، ان کمپنیوں کے لیے الگ الگ کام مختص ہیں، کسی کا کام یہودیوں کے تیئیں انسانوں کی ذہن سازی ہے، جس کے لیے وہ نت نئے پروگرامس پیش کرتے ہیں اور بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لیے کارٹونوں کی شکل میں ہر گھر میں داخل ہوچکے ہیں، کسی کمپنی کا کام پورے عالم میں یہودیوں کی بالادستی کو دکھانا ہے،تو کوئی ہالی ووڈ فلموں کے ذریعہ یہودیت اور عسائیت کے حق کی طرف داری کرتی ہے، تو کوئی پوری دنیا میں یہودیت کے مشن کو ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کاعلم بردار ٹھہراتی ہے، تو کوئی کمپنی اپنے ٹی وی چینل میں اس کو پورے عالم میں امن وانصاف پھیلانے کاپیامبر گردانتی ہے۔ پرنٹ میڈیا کا بھی یہی حال ہے کہ اس کے نوے فیصد اشاعتی ادار وں پر بھی یہودیوں کا کنٹرول ہے، امریکہ میں روزانہ چھہ کروڑ اخبارات فروخت ہوتے ہیں، جن میں پچہتر فیصد یہودیوں کی شراکت ہے، تحقیق کے مطابق امریکہ کے تین بڑے اخبار؛ نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشٹنگٹن پوسٹ، نیز ٹائمز میگزین اور نیوز ویک پر بھی یہودیوں کی ملکیت ہے۔ انہیں ساری الکٹرونک، پرنٹ میڈیا اور اشاعتی ادروں پردنیا کی ساری میڈیا اور اخبارورسائل کا بالواسطہ یا بلاواسطہ انحصار ہے، یا یوں کہ لیں کہ دنیا کی ساری میڈیا اور نیوز چینلس کا لگام انہیں یہودی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے، وہ جس کو چاہے ظالم کہ دیں جس کو چاہے مظلوم بتلادیں ، پورے عالم کی میڈیا اور ٹی وی چینلس انہیں فرضی قصوں کی ری پلے کرتی ہیں۔ آج پوری دنیا کے نیوز اور ٹی وی چینلس پر مسلمانوں کی بدنماں شبیہ جو عیاں کی جاتی ہیں،امریکہ اور یہودیوں کو پورے عالم کے امن وانصاف کا علم بردارٹھہرایاجاتا ہے، اس کے پیچھے بھی انہیں اداروں کی کوششیں کار فرماں ہیں۔گذشتہ مہینوں ایک امریکی فلم ساز میل گہسن نے پیشن آف دی کرائسٹ نامی ایک فلم بنائی تھی جس میں اس نے یہودیوں کی اسی مخفی دراندازیوں کو وا کیا تھا ، یہودیوں نے اس فلم کے خلاف موڑچے کھول دیئے ، بالآخر فلم ساز کو اپنی فلم کو پردۂ سیمں سے ہٹانا پڑی۔ ان کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ یہ جب چاہیں ایک دوسرے کو آپس میں لڑادیں اور خود منصف بن کر ظالم کی سرزنش بھی کردیں ،اس طرح یہ دو طاقتوں کو خراب کردیتے ہیں۔ یہ حالت ایک چھوٹے سے ملک کی شمار میں آنے والے افراد کی ہے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں کے ساٹھ خودمختار ممالک ہیں، جو سب مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کرسکے، ان اسلامی ممالک میں سے ہر ملک کے پاس اللہ تعالیٰ نے اتنی استطاعت دی ہے کہ وہ خود کا یہودیوں سے کئی گنا بڑا چینل کھول دیں، لیکن ان کی زندگی میں اگر ریس ہے تو صرف شان وشوکت اور اونچی اونچی عمارتوں اورٹاوروں کی تعمیرکرانے میں ہے ، چنانچہ دنیا کا سب سے اونچا کلاک ٹاور اور مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا ہوٹل سعودی عرب میں ہے، دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ دوبئی میں ہے اور یہیں پر عالمی ریکارڈ کا سات کلو میٹر لمبا شاپنگ مال زیرتعمیر ہے، غرضیکہ یہ اپنی شان و شوکت ہی دکھانے میں مصروف ہیں، جبکہ باطل اپنی قلت کے باوجود ان کے خلاف طرح طرح کے حربے کھول رہا ہے۔سوال تو یہ ہے کہ مخالفین تو عملی اقدامات کرنے میں اپنی توانائی صرف کررہے ہیں اور ہم اس طرف توجہ کیئے بغیر صرف یہودی سازش کی رٹ لگائے جارہے ہیں، آخر ہم ہوش میں کب آئیں گے ، مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صرف چلانے سے تومسائل کا حل ناممکن ہے،اس کے لیے عملی اقدامات بھی ضروی ہیں، اس لیے ہم ارباب حل وعقد اور صاحب زرووسائل حضرات سے استدعاء کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو بے جا فضول خرچی میں ضائع کرتے ہوئے اس حساس پہلو پر غور کریں ۔

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66069 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.