ہر بار یہ سب وشتم کیوں؟؟؟

کچھ لوگ میرے قلم کو جذباتی بتاتے ہیں، لیکن کیاکیجیے؟ آج پوری دنیا میں جس عدم رواداری اور مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی کی فضا قائم ہے، اگر اس میں میری حقیقت بیانی کو کوئی جذبات کا نام دے، تو اس میں میرا کیا قصور؟ اگر کوئی میری ماں کو گالی دے اور میں خاموش رہ جاؤں؟کوئی میرے باپ پر لاٹھیاں برسائے اور میں صرف تماشائی بن کر اس کانظارہ دیکھتا رہوں؟ کوئی میرے مذبب وملت کے خلاف دشنام طرازی کرے اور میں کانوں روئی کاپھایا ڈال لوں؟ اور تو اور اگر کوئی انسانیت کے اس روشن آفتاب کو کجلانے کی شیطانی کوشش کرے جس کا ظاہروباطن خورشیدِ جہاں سے بھی زیادہ تابناک ہو اور میں مصلحت کی چادر تان کر سوجاؤں؟افسوس !اگر کوئی انسان اس حد تک جذبات سے عاری اور مصلحت پسند ہوجائے، تویقیناًوہ انسان بھی نہیں ہے، اگرکچھ لمحہ کے لیے اس کو انسان تسلیم بھی کرلیا جائے، تو خدا کی قسم وہ حکیم ودانا ہوہی نہیں سکتا،اس لیے کہ حکمت ودانائی جن پانچ معتدل صفات کے مجموعے کانام ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کو غصہ دلایا جائے تو وہ غصہ بھی ہو، ورنہ تو وہ دھوبی کا وہ گدھا ہے جو لاٹھی مارنے پر اور تیز بھاگتا ہے ،نیز حکمت ومصلحت کا مطلب بزدلی بھی تو نہیں ہے، کیونکہ اپنے حق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا ، مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کی مانگ کرنا،امن پسند ہونے کے بالکل بھی منافی نہیں ہے اور پھر ہمیں کب تک یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ہم امن پسند ہیں؟ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا سورج کو بھی اپنا وجود پیش کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہوسکتی؟آج تو ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی حالت اس قوم کی سی ہوکر رہ گئی ہے، جس کا رہبر مر چکا ہو اور وہ اپنے بچے کچھے جذبات کے ساتھ مدافعات کرتے ہوئے پسپا ہو رہی ہو، ہماری یہ حالت ایسی اس لیے ہوئی کہ ہمارے رہنما آج مصلحت پسند ہوچکے ہیں،ظالموں کے ظلم کے خلاف اپنی عقلوں پر صبرکی چادر ڈال چکے ہیں،مگر افسوس! انہی مصلحت پسندی اور صبروترحم کے جذبے نے ہمارے ہزاروں خانماں ا جاڑ دیے، لاکھوں بنت حرم کی چادرِ عزت وعصمت چاک کردیے، کروڑوں معصوموں کی زندگی کا چراغ روشن ہونے سے پہلے ہی غل کردیے اوروہ اپنے گھروں میں صبرکی تسبیح پڑھتے رہ گئے اور دل میںیہ تمنابسائے رہے کہ کاش کوئی غیبی طاقت ان کے دشمن کو نیست ونابود کردے !کبھی بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایسا ہی مشورہ دیا تھا کہ آپ اور آپ کے خدا جائیں اور اس قوم سے لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے تماشہ دیکھیں گے، مگر اس قوم کا کیا ہوا ؟ چالیس سال تک معتوب رہے۔ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور خدائی قانون بھی یہی ہے کہ جب دنیا انسان نما غلاظتوں سے پُرہوجائے، تو اللہ ہم ہی میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے اس دنیا کو دوبارہ چراغاں کرتے ہیں، اسی کا ایک اعلیٰ درجہ جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے، جہاد کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ بلا وجہ کسی بے گناہ کو قتل کردیا جائے، کسی کا گھراجاڑ دیا جائے اورکسی کے مال واسباب لوٹ لیے جائیں، ہر گز نہیں، بلکہ جہاد کا مفہوم اس کرۂ ارضی پر پڑی ہوئی کفروالحاد اور ان غلاظتوں کی پرت کو دور کرنا ہے،جو ہماری بداعمالیوں کی بنیاد پر افق عالم کی سطح پر پڑجاتی ہیں ؛ جب تک یہ سلسلہ دراز رہا، اللہ کی یہ سرزمین اس گندی پرت سے پاک رہی، جس کی بدبو اس خوش گوار ماحول کو متعفن کرسکتی تھی، مگر جب ہم نے خود ہی اس کو فراموش کردیا ،تو لامحالہ ایسی گندگیوں کا وجود میں آنا یقینی بات ہے،جب زمین بنجر ہو اور اس پر گندے پانی گریں ،تو اس پر پرت پڑتی ہی ہے اور جب دھوپ کی اس پر شدت ہوگی، تواس سے ماحول متعفن ہی ہوگا ۔

گذشتہ کل کا سانحہ عالم انسانیت اور نبوت کی تاریخ کا کوئی نایاب سانحہ نہیں تھا، اس ملعون سے پہلے بھی اس ذاتِ کریمی کی شان میں گستاخانہ کلمات کہ کر اپنی عاقبت خراب کرنے والے بیشمار لوگ آئے اور خدا کے عتاب وغضب کے شکار ہوئے ، ہمارے اس دور میں اگر کوئی اس کی جرأت کرتا ہے، تو فی الحقیقت اس کے ذمہ دار ہم مسلمان ہیں، اس کے گنہ گارہمارے وہ قائدین ہیں، جن کو اپنی مصلحت پسندی کا ثبوت دینے کے لیے پیرس حملہ مخالف ریلیاں نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہیں، اس کا وبال ان علما پربھی پڑتا ہے ، جو عوام کو صرف صبروترحم کا وظیفہ دیتے ہیں اور وہ مسلم سیاسی رہنما بھی مجرم ہیں جنہیں اپنی روٹی سیکنے کے لیے مذہب وملت اور ناموس رسالت تک کا سوداکرنا بھی ان کی طبیعت پر گراں نہیں گذرتا،نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اب جس کے منھ میں جو آتا ہے، بک دیتا ہے، البتہ کچھ لوگ جنہیں شاید ہم سر پھرا ہی کہتے ہیں کی وجہ سے وقتی طور پر حکومت اسے گرفتار کرلیتی ہے اوروہ گرفتاری بھی کیا؟ بلکہ اس کو چھپا دیتی ہے اور اس کو وہ تمام سہولیات فراہم کرتی ہے، جن کاایک انسان اپنے گھر پر کبھی تصور نہیں کرسکتا، اس سانحہ کے بعد اکھلیش حکومت نے بھی یقیناًتیواری کے ساتھ وہی کچھ کیا ہوگا!اگر اکھلیش حکومت واقعی مسلمانوں کے تعلق سے خیرخواہ ہوتی ، تو وہاں نہ کبھی اخلاق کا قتل ہوتا، نہ کسی مسلمان کو برہمن کالونی میں گھر خریدنے پر مار پڑتی اور نہ مظفر نگر کا وہ داستانِ خونچکاں دہرایا جاتا اور نہ آج کسی کو اس عالمی شخصیت کے خلاف دشنام طرازی کی جرأت ہوتی جو بلامبالغہ پوری انسانیت ہی نہیں، بلکہ پوری کائنات کی طرف نبی اور رسول بنا کر مبعوث کی گئی، اس حکومت نے ہمیں ہربار دکھ ہی دیا ہے، ہم سے صرف چھینا ہے، دیا کچھ بھی نہیں ہے، کبھی اس نے ہماری مسجد پر ناجائز قبضہ کیا، کبھی ہمارے قبرستانوں کو شمشان گھاٹ بنادیا ، کبھی ہمارے گھروں کو ملبہ میں تبدیل کردیا، تو کبھی ہماری عزتوں کو برسرے عام اچھالا۔بارہا اس صوبہ میں اسی حکومت میں کسی نہ کسی بدبخت نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی اور اس نے اس کی حفاظت کی، جب اس نے ہماری بزدلی کا مزید اندازہ لگالیا، تواپنے اس آخری حربہ کو بھی آز مایا، جو ایک مسلمان کے لیے کسی برقِ بے اماں سے بھی فزوں تر ہے ، کہ ایک سچا مسلمان اپنی عزت وناموس کوتو قربان کرسکتا ہے، مگر اپنے پیارے نبی ﷺ کے پاؤں مبارک میں ایک تنکا بھی گوارہ نہیں کرسکتا، مگرہندو مہا سبھا نامی ’’ننگ وطن‘‘ تنظیم کا ننگا اور سرپھرا کارگزار صدر کملیش تیواری نے گذشتہ دنوں اس ذات کے خلاف زبان گندی کرکے یقیناًاپنی عاقبت تک پہنچنے میں جلدی کردی ہے، اس بدبخت نے کیا سوچ کر اس ذات کے خلاف زبان دراز کرنے کی جرأت کی جو بلا تفریق مذہب وملت ہر ایک کی نظر میں خورشید جہاں تاب کی مانند روشن اور واضح ہے ، کیا اس ذات کی شان میں گستاخی کسی انسان کا عمل ہوسکتا ہے جو سب کے لیے رحمت بن کر آیا ہو؟ کیا اس ہستی کے ناموس پر انگشت نمائی کا جواز کسی کو کبھی مل سکتا ہے، جس نے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی ، بلکہ ضرر رساں کے لیے بھی دل کھول کر دعائیں دیں؟ اب اگر کوئی اسی شخصیت کے بارے میں اپنی زبان گندی کردے، تو یقیناًاس کا انجام وہی ہونا چاہیے جو کعب بن اشرف کا ہوا تھااور ایک مسلمان بلکہ اپنے نبی ﷺ کے ناموس پر قربان ہونے والے کے طور پراگر کوئی اس ذات کے بارے میں اپنی زبان بھی کھولے گا، تو ہم سب کچھ گواراہ کرسکتے ہیں مگر اپنے نبی کو دشنام کرنے والے کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے ہم حکومت سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ، اس خبیث کو جلد از جلد تختۂ دار پر لٹکائے ،ورنہ ہم وہ جذباتی ہیں،جن کے جذبات کے سامنے بڑے بڑے گھوٹنے ٹیک دیے۔۔
جوجان مانگو تو جان حاضر، جو مال مانگو تو مال دیں گے
مگر یہ ہم سے نہ ہوسکے گا کہ نبی کا جاہ وجلال دیں گے

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66059 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.