وائی فائی یا وائف آئی ۔؟

اوسط درجہ کے گھروں میں جہاں وائی فائی کا کنکشن نہیں ہوتا۔وہاں وائف آئی کو ہی وائی فائی سمجھا جاتا ہے۔سگنل کے بغیر ہماری حالت فیس بک پر لڑکی کا جعلی اکاونٹ چلانے والےاس لڑکے جیسی ہو چکی ہے جو لڑکی تو بن گیا ہے لیکن ساری عمر ماں نہیں بن سکتا۔بالکل ویسے ہی ہم پنجابی تو ہیں لیکن ساری عمر لاہورئیے نہیں بن سکتے ۔۔ کہتے ہیں انسان کا کردارچیک کرنا ہوتو اس کےموبائل کا میموری کا رڈ چیک کر لو۔صد شُکر کہ ہم باکردار ہیں روزانہ کارڈ واش کرکے گھرجاتے ہیں۔

وائی فائی کا لوگو

میٹرنٹی اسپتال کے آپریشن تھیڑ یا پھر سرکاری اسپتالوں کے لیبر روم کے باہر چکر کاٹتے مرد اورکوہلو کے بیل میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مرد کے پاوں میں موٹر اس لئے لگی ہوتی ہےتا کہ لیبر روم کے اندراُس کی منکوحہ کودرکارایمرجنسی ادویات کی بروقت فراہمی ممکن ہو سکے۔زچگی کے علاوہ جب بھی ہم اسپتالوں میں جا تے ہیں ڈاکٹر سے زیادہ نرس کا انتظارکرتے ہیں۔نرس اگرموٹی تازی ہو تو ہانپتی ہوئی اور اگر نرم و نازک ہو تو کانپتی ہوئی تھیٹر سے باہر آکر مطلع کرتی ہےکہ مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا یا بیٹی پیدا ہوا ہے۔’’شریک جرم ‘‘ہونے کے باوجود ہم ایسی اطلاعات پراچانک۔اطلاع والا ردعمل دیتے ہیں۔ ان مُخبرنرسوں کا منہ اکثر کھلا ہی ہوتا ہے لیکن جب کبھی نرس آکر بتاتی ہیں کہ سوری مس کیرج ہو گیا ہےتو ہمارا منہ بھی کھلا رہ جاتا ہے۔

میں بھی بنیادی طور پر وسطی پنجابی ہوں اورپیدائشی طور پر مس کیرج ۔والےپنجاب میں زندہ ہوں۔لاہور میرا دو گھنٹے دور ہمسایہ ہے۔جہاں حکومت سارا سال لیبر روم میں رہتی ہے اور ہم باہر چکر کاٹتے ہیں۔حکومت کو لیبرروم سے نکالنے کے لئے ادویات ڈھوتے ڈھوتےمقروض ہو گئے ہیں لیکن مخبر نرس صرف مالی سال شروع ہونے پرجولائی میں تھیٹرسے باہر آتی ہے اور پیغام ہر بار کی طرح ایک ہی ہوتا ہے۔’’مبارک ہو۔ لاہور پیدا ہو ا ہے‘‘۔باقی پنجاب کا ہر بارمس کیرج ہو جاتا ہے۔ہم ٹیکس، کمیشن اور فیس دے دے کر لاہور کو پال رہے ہیں۔ لیبر روم کا دروازہ جب بھی کھلتا ہےہمارااحساس محرومی بڑھ جاتا ہے ۔ لاہور کے علاوہ سارے شہر وینٹی لیٹر پر ہیں۔مردوں کا کوہلو ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ رات گئے ایک آدمی نے اسپتال میں چادر بچھائی نماز پڑھی اور دعا مانگی ’’اے اللہ دیکھ میں تیری عباد ت کر رہا ہوں ۔کچھ لوگ آرام سے بیٹھے ہیں اور باقی سب سو رہے ہیں ‘‘
دوسرا آدمی:’’اوبھائی ۔او میاں۔اپنی دعا مانگ ۔اللہ کو ہماری شکاتیں نہ لگا ۔‘‘

ہم شکایتی معاشرہ ہیں۔چُغل خور نما معاشرہ۔رشتہ داروں، دوستوں، ماتحتوں اور افسروں کی شکاتیں۔لیکن ریلیف نہیں مل رہا۔ ہماری حالت فیس بک پر لڑکی کا جعلی اکاونٹ چلانے والےاس لڑکے جیسی ہو چکی ہے جو لڑکی تو بن گیا لیکن ساری عمر ماں نہیں بن سکتا۔بالکل ویسے ہی ہم پنجابی تو ہیں لیکن ساری عمر لاہورئیے نہیں بن سکتے ۔۔ خبریہ ہےکہ پنجاب حکومت نے لاہور میں پبلک مقامات پرفری انٹر نیٹ ۔ وائی فائی ہاٹ سپاٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔پارکس ، ریلوے اسٹیشن، تاریخی مقامات، اسپتال ، سرکاری و تعلیمی ادارے اور میٹرو بس روٹ پریہ سروس مفت ملے گی۔ بیوی شاپنگ کرکے گھر آئی۔
شوہر:سوٹ خرید لیا۔؟
بیوی :بازار میں اتنے اچھے اچھےسوٹ آئے ہیں ۔ مجھے تو جُوتے بہت ہی پیارے لگے لیکن میں نے ہینڈ بیگ خرید لیا۔

شاپنگ پرتنہاجانے والی بیوی شوہر کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے وہی سرکار ہمارے ساتھ کرتی ہے۔حکومت آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ عوام کی ترجیحات کیا ہیں ۔ انہیں ہاٹ سپاٹ ۔وائی فائی چاہیے یا پھر سستی روٹی ۔ مفت ادویات اور معیاری تعلیم۔۔مشاہدہ یہ ہےکہ مہمان گھروں میں آکر اب چائے، پانی اور شربت مانگنے کے بجائے ۔باریک پن والا چارجر اور وائی فائی کا پاس ورڈ مانگتے ہیں۔انکار کرنے والے میزبان ہمیں بُرے اور انٹر نیٹ کا بل جمع نہ کروانے والے ہمسائے ہمیں غیر ذمہ دار لگتے ہیں لیکن کچھ لوگ حقیقت میں غیر ذمہ دارہوتے ہیں۔
پٹھان۔ہمسائے سے:یارا۔! میرا بیوی میرےدوست کے ساتھ بھاگ گیا ہے۔
ہمسایہ :تم تو کافی پریشان ہو گا۔؟
پٹھان: ہاں۔ یارا ۔ میں اپنے دوست کےبغیر نہیں رہ سکتا ۔

ہماری ترجیحات کی طرح اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔سستے انٹر نیٹ نے جنازے کو کندھا دے رکھا ہے۔رہی سہی کسر مفت وائی فائی اور ہاٹ سپاٹ سے نکال جائے گی۔ کہتے ہیں کہ انسان کا کردارچیک کرنا ہوتو اس کےموبائل کا میموری کا رڈ چیک کر لو۔صد شُکر کہ ہم باکردار ہیں روزانہ کارڈ واش کرکے گھرجاتے ہیں۔ اوسط درجہ کے گھروں میں جہاں وائی فائی کا کنکشن نہیں ہوتا۔وہاں وائف آئی کو ہی وائی فائی سمجھا جاتا ہے۔سالوں پہلےاوسط گھروں کے ریڈیو، ٹی وی اور وی سی آر۔جوتا کلب کے ممبر ہوا کرتے تھے۔جب سگنل چھوٹتا ٹکا کر جوتے مارتے ۔کبھی تصویرمزید خراب ہوجاتی اورکبھی ایچ ڈی رزلٹ نکل آتا۔وائی فائی کا غیر شرعی استعمال اسے جوتا کلب میں شامل کرسکتا ہے۔مفت وائی فائی کااعلان نئےسیاسی کلچر کی بنیاد ہے۔مسلم لیگی حکومت کے نزدیک ترقی کاسیاسی استعارہ ہے۔یہ ترقی ہے تو پھر سیاست کے رجحان بھی بدل سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کےانتخابی وانقلابی نعرے ایسےہوسکتے ہیں۔گووائی فائی گو۔روٹی، کپڑا اور وائی فائی۔ دیکھو دیکھو وائی فائی آیا۔ وائی فائی آ نہیں رہی ، آگئی ہے۔وائی فائی دے نعرے وجن گے۔ جمہوریت بہترین وائی فائی ہے۔سب سے پہلے وائی فائی۔آج تے ہو گئی۔ وائی فائی ۔قدم بڑھاؤ۔ وائی فائی۔زندہ ہے وائی فائی زندہ ہے۔ایک وائی فائی سب سے بھاری۔وائی فائی کُتا ہائے ہائے ۔ چلو چلو وائی فائی کےساتھ۔ چہرے نہیں وائی فائی بدلو۔کیونکہ یہ وفا کا نہیں وائی فائی کامعاملہ ہے۔

آج کل جس کالونی کاوائی فائی اوپن ہو۔وہاں چوریاں کم ہوتی ہیں نوجوان ساری رات ویڈیو کالنگ سے چوکیدارا کرتے ہیں۔ ان کھلنڈروں کو اگلی ٹیکنالوجی لائی فائی کا انتظار ہے۔ وہاں نیند آنکھیں بند کرنے سے نہیں بلکہ وائی فائی بندکرنے سے آتی ہے۔ ممکن ہے اب ہائی فائی پارٹیوں کے نام وائی فائی سے منسوب ہو جائیں ۔جیسے مینگو پارٹی کے بجائے وائی فائی پارٹی۔ وائی فائی افطاری۔وائی فائی نائٹ رکھے جانے لگیں۔نوجوان بغیر سگنل مقامات پر جانے سے ڈر نے لگیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کی معروف سیاسی شخصیت نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد میری قبر کے سرہانے درخت کے بجائے وائی فائی کا ٹاور لگا دیا جائے تاکہ لوگوں کا قبرپر آنا جانا جاری رہے۔قبروں پر رش کا اب ایک ہی آپشن باقی ہے لیکن امکانِ غالب ہے کہ لاہور کےسارے مقبرے، پارک اورتاریخی مقامات ویران ہو جائیں گےسگنل پورے ہوں تو گھر سے کون کافر باہر نکلے گا۔پھر لیبر روم کے اندر سے ہی اسٹیٹس اپ ڈیٹ ہوگا۔لاہورکی مخبر نرسوں کی کمائی خطرے میں پڑ جائےگی۔مجھے توخدشہ ہے ایسا فتوی ہی نہ جاری ہو جائے’’ بھوکے کو روٹی اور سمارٹ فون والےکو وائی فائی پاسورڈ دینا کار ثواب ہے۔لیکن استعمال شرعی کریں‘‘۔!آپ لاہور میں مفت وائی فائی کا ایک فرضی واقعہ پڑھیں۔کلاس روم میں لڑکے نے اپنا فیس بک اکاونٹ کھولاتو ۔ اسٹیٹس آن لائن شو ہوا۔پہلا کمنٹ آیا۔
پروفیسر:کلاس سے نکل جاؤ۔
دوست:اوئے کیفے آجا۔ وکی بھی ادھر ہی ہے۔
ماں:نالائق ۔پڑھنا نہیں تو سبزی لے کر گھر آ جا
باپ:دیکھ لو ۔اس گدھے کی حرکتیں۔
گرل فرینڈ:دھوکے باز تم نے تو کہا تھا۔اسپتا ل میں ہوں دادی آخری اسٹیج پر ہے
دادی:لکھ دی لعنت تیرے تے۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 104538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.