نیشنل ایکشن پلان کے تحت سانحہ آرمی سکول کے بعد سے ملک
بھر میں سرکاری اداروں کی کاروائیاں جارہی ہیں ہزاروں افراد کو گرفتار
کرلیا گیاہے ایکشن پلان کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی
ہوئی ایک عرصہ کے بعد مردان میں خود کش حملہ ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ خطرہ
ابھی برقرار ہے اور ایکشن پلان ابھی اپنی منزل نہیں پا سکا ابھی اس ایکشن
کی مزید ضرورت ہے،ایکشن پلان کی زد میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں پہلے
وہ لوگ ہیں جو واقعتا ً ملک دشمن کاروائیوں میں ملوث تھے انھیں کیفرکردار
تک پہنچایا جارہا ہے ان میں مذہب کانام استعمال کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں
مذہب کانام استعمال کرنے والوں کا کوئی حمایتی نظر نہیں آرہا کیونکہ سب اہل
دین نے اسلام اور پاکستان کے تحفظ کا عزم صمیم کر رکھا ہے آئے روز اس پر
کھل کر بات بھی کی جاتی ہے کنونشنز،سیمینارز،کالمز قوم کی نظر سے گزر رہے
ہیں ۔ جبکہ سیاست کے نام پرملک دشمنی کرنے والے لوگوں کی پشت پناہی ابھی
بھی چند بڑ ی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری وساری ہے کریمینل عناصر کو
بچانے کیلئے ملک دشمن عناصر کی حمایتی جماعتیں ابھی تک ان ملک دشمن عناصر
کی حمایت میں کھڑی ہیں وہ وفاق کے احکامات تک کو نظر انداز کئے جارہی ہیں
سینکڑوں دہشت گردوں کے علاج،زندہ انسانوں کو جلائے جانے کے واقعات سمیت
متعدد جرائم ان کے سر پر ہیں ثابت بھی ہوگئے پھر بھی ہٹ دہرمی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے لاقانونیت کا راستہ اپنایا جارہا ہے تاکہ شہر قائد پھر سے بھتہ
خوروں ،کریمینل عناصر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجائے اسی لئے تو ان بااثر
سیاسی بازی گروں کو رینجرز وہاں برداشت نہیں مختلف حیلے بہانے تراشے جا رہے
ہیں ،اگر وفاقی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے تو جمہوری سیاست کے نام پر ملک
دشمن عناصر ان سیاست دانوں کی گود میں بیٹھ کر مستقبل میں بھی دہشت گرد
پیدا کریں گے اس لئے ایسے گروپوں،جماعتوں اور عناصر کی سرکوبی ابھی سے ہو
جانی چاہیے ۔خواہ وہ جماعت کسی صوبہ کی حکمران ہی کیوں نہ ہو؟ بے رحم
احتساب قوم کا مطالبہ ہے۔ ملک سے وفاداری کے نام نہاد دعویداروں کا چہرہ
قوم کے سامنا آگیا ہے جو ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی سرعام کررہے ہیں
حکومت کو ان کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے بلکہ جرأت وبہادری سے ان کا
سامنا کرنا چاہیے ۔
وہ لوگ بھی ہیں جو شک کی بنیاد پر گرفتار ہورہے ہیں یا کئے گئے اور انھیں
چھ سات ماہ ،سال تک حراست میں رکھ کر کسی نہ کسی طریقے سے رہا کردیا
گیا۔ایسے محب وطن پاکستانی لوگوں کے لئے معاشرے میں اپنی عزت ووقار قائم
رکھنا مشکل ہوجاتا ہے لوگ حتیٰ کہ رشتہ دار تک میل جول ختم کردیتے ہیں اس
وجہ سے کہ ناجانے کیا جرم سرزد ہوگیا گرفتار ہونے والے سے ؟کہیں ہم بھی اس
کی گرفت میں نہ آجائیں ، ایسے افراد کی تعداد کسی صورت کم نہیں ہے رہائی کے
بعد ایسے لوگ معاشرے میں اپنا مقام بحال کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔اس
صورت حال میں ہماری حکومت کو تجویز یہ ہے کہ جو لوگ بے گناہ شک کی بنیاد پر
گرفتار ہوں بعد از تحقیق انھیں رہا کرتے وقت حکومت میڈیا کے ذریعے اعلان
کرے کہ یہ افراد غلط فہمی کی بناء پر گرفتار ہوئے ان کے نام تصاویر
الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کو دی جائیں تاکہ معاشرے میں انھیں سیٹ ہونے میں
کوئی پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔ ایسے متاثرا افراد کو حکومتی سطح پر مالی
معاونت بھی فراہم کی جائے ان کو ماہانہ کم از کم 20000 روپے کے حساب سے
معاوضہ دیا جائے مزید ان کے قانونی پراسیس کے اخراجات کی ادائیگی بھی یقینی
بنائی جائے ۔کیونکہ گرفتاری کے دوران ان کا کاروباری ،معاشی نقصان ہوا جو
اس طرح پورا ہوجائے گا۔
نیشنل ایکشن پلان کے دوران سرکاری ادارے اور حکومت اس بات کا خاص خیال رکھے
کہ جوزیر حراست افرادمیں سے پرامن زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں انھیں ایک
موقعہ ضرور دیا جائے اور حراست کے دوران ان کی تربیت اس انداز میں کی جائے
کہ ان کے دل ملک وملت کی محبت سے سرشار ہوجائیں ۔صرف طاقت کا استعمال ہی سب
کچھ نہیں ہو کرتا ۔اس لئے تعمیری،تربیتی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا جائے،اس
طرح باصلاحیت افراد معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو
جائیں گے۔
ملک کے اہم لوگوں کاکہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ بنایا جارہا ہے
ان کی یہ بات کہاں تک سچ ہے ؟ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایکشن پلان میں ایسی
خامیاں ضرور نظر آرہی ہیں جن کی اصلاح از حد لازم ہے ۔اگر ہمارے ارباب
اقتدار جمہوریت کی چھتری تانے سیاستدانوں،ان کے چیلوں کو بچانے کیلئے سرنڈر
کرتے ہیں تو یقینا ً ایکشن پلان متنازعہ ہوجائے گا اور ہرکوئی اس پر انگلی
اٹھائے گا ۔مزید کہ اگر حکومت نے شک کی بنیاد پر پکڑے جانے والے افراد کی
معاشرے میں باوقار بحالی کا طریقہ کار طے کرکے اس پر عمل نہ کیا تو تب بھی
ایکشن پلان اپنے اصل ہدف سے ہٹ جائے گا ملک میں ایک خوف کی کیفیت پرقرار
رہے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام پسند پرامن لوگ اسلام کا نام لینا بھی
مناسب نہیں سمجھیں گے ایک معروف دینی رہنماء نے ہمار ی بات کی تائید میں
کہا ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نام لینا جرم بنایا جارہا ہے۔ایسے بیانات
اہم دینی شخصیات کی طرف سے آنا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایکشن پلان سے ایک
پرامن دینی طبقہ بھی اداروں کی غلط فہمی کے باعث بری طرح متاثر ہوا
رہاہے۔ہم یہاں واضح طورپر انتہائی اخلاص سے دردمندانہ اپیل کرنا چاہتے ہیں
حکومت تمام پر امن دینی جماعتوں کو دینی سرگرمیاں کرنے کی مکمل اجازت دے
،علم ودلیل کی روشنی میں بات کرنے سے سمجھنے ،قریب آنے میں معاونت ملتی ہے
اگر حکومت نے کسی پرامن دینی جماعت کو پرامن سرگرمیوں کے باوجود دیوار سے
لگانے کی کوشش کی تو ایکشن پلان کی کلیدی حیثیت مجروح ہو گی اور جس مقصد
کیلئے ایکشن پلان ترتیب دیا تھا وہ مقصد فوت ہوجائے گا تو پھر اس پر ہر
کوئی اعتراض کرے گا اور یہ متنازعہ ہو جائیگا ۔نیشنل ایکشن پلان اسلام اور
پاکستان کے دشمنوں کے خلاف ہر قیمت پر جا ری رہنا چاہیے مگر دین اور پرامن
دینی قوتوں کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ |