’’بریل کا عالمی دن‘ ‘پاکستان میں ایک غیر معروف دن ہے ،بہت
سے لوگ بریل کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں ۔اس لیے پہلے بریل کی مختصر بات
کرتے ہیں ۔بریل (Braille ) ابھرے ہوئے حروف کو پڑھنے کا ایک طریقہ ہے ،جو
نابیناؤں کی تعلیم کے لیے ایجاد ہوا۔ یہ حروف چھو کر پڑھے جاتے ہیں۔ دراصل
یہ حروف نہیں ہوتے بلکہ چھ لفظوں کی مدد سے حروف کی اور ہندوسوں کی علامتیں
بنائی جاتی ہیں۔ حرف شناسی کا یہ طریقہ پیرس کے ایک مدرس (school master)
میں ایک نابینا لوئی بریل نے 1834ء میں ایجاد کیا۔یہ ایک لینگوئج ہے ۔ لوئس
بریل وہ شخص تھا ،جس نے نابینا افراد کی تعلیم کے لئے ایک خاص اور آسان
زبان ’’ بریل لینگوئج‘‘ ایجاد کی۔بریل (لینگوئج) کا عالمی دن ہر سال4 جنوری
کو پوری دنیا میں لوئس بریل کی سالگرہ کے موقع پر منایا جاتا ہے ۔
لوئس بریل 4 جنوری 1809ء کو فرانس میں پیدا ہوا ۔ ابھی اس کی عمر صرف3 سال
کی تھی کہ ایک حادثے میں آنکھوں کی روشنی جاتی رہی ۔ لوئس بریل کی تعلیم
حاصل کرنے کی شدید خواہش تھی ۔دیکھا گیا ہے کہ شدید خواہش اور غور و فکر کے
ساتھ جدوجہد کی جائے تو اﷲ راستے نکال دیتا ہے ۔راستے کھول دیتا ہے ۔بریل
پڑھنا چاہتا تھا، اس لیے فرانس میں ایک ادارے جو کہ نابینا بچوں کو تعلیم
دینے کے لیے بنایا گیا تھا ’ ’ رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ‘‘ میں
داخلہ لے لیا ۔
اس ادارے کا روح رواں کا نام ویلنٹائن ہووے تھا، وہ خود تو نابینا نہیں تھا
،لیکن اس نے اپنی زندگی نابینا افراد و بچوں کے لیے وقف کی ہوئی تھی ۔ہووے
نے نابینا افراد کو تعلیم دینے کے لیے ایک سسٹم بنایا ہوا تھا، جو کہ کافی
مشکل تھا ۔وہاں لوئس بریل نے تعلیم حاصل کی اور اس سوچ میں رہا کہ کوئی اور
ایسا آسان نظام ہونا چاہیے، جس کے تحت نابینا افراد پڑھنے کے ساتھ ساتھ
آسانی سے لکھ بھی سکیں۔لوئس بریل اپنا فارغ وقت اس کام پر خرچ کیا کرتا تھا،
ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اندھے افراد کو کو آسان طریقے سے علم کے
زیور سے آ راستہ کرانے کے لیے آسان ترین طریقہ کیا ہو ایجاد کرنا تھا ۔
وہ تجربے کرتا رہا ،جہدوجہد کرتا رہا ۔لوئس بریل نے ایک کاغذ پر ابھر ے
ہوئے نقظوں کی شکل میں ایک علامتی سیٹ تیار کیا، ان ابھرے ہوئے نقطوں کو
انگلیوں کی پوٹوں کی مدد سے آسانی سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔اس نے حروف
تہجی، اوقاف کے خطوط اور ریاضی علامات کے علاوہ میں 63 علامات ایجاد کیں ۔یوں
اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطوں سے ایک مکمل زبان تیار کردی۔خاص نقطوں کی
مدد سے تیار ہونے والی یہ زبان مکمل ابلاغ کی حیثیت رکھتی تھی۔
آج بریل لینگوئج نابینا طالب علموں کی تعلیم کا طریقہ آفاقی ہے۔ 1949 ء کے
بعد سے یہ طریقہ دنیا کے تمام حصوں میں یونیسکو کی طرف سے رائج ہے اور ترقی
کر رہا ہے ۔لوئس بریل ۔1852ء کو فوت ہو گیا وہ ایک اندھا تھا، غریب تھا، اس
کی موت پر بہت کم لکھا گیا ۔
دنیا میں اس دن نابینا طالب علموں کے لیے تعلیمی و تفریحی
ورکشاپس،واک،مقابلہ جات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ بریل زبان کے
بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔ان ممالک میں نابینا افراد کی تعلیم و
تربیت کے لئے اداروں کا خاص انتظام موجود ہے ۔تاکہ اندھے افراد کو بھی
معاشرے کا کار آمد شہری بنایا جا سکے ۔اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے، جب ہمارے
ہاں اندھے افراد کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ان کو مفید شہری
بنانے ،ان کی تعلیم و تربیت کے اداروں کا قیام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی
جاتی ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے افراد کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر
ہی عائد ہوتی ہے ۔
حکومت کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں جہاں تک ممکن ہو، انہیں سہولیات فراہم کرے
تاکہ نابینا افراد اپنے اندھے پن کی معذوری کی با وجود بھی معاشرے کے
کارآمد شہری بن سکیں ۔ہماری حکومت کی یہ اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نابینا
بچوں کے لئے تعلیم کا حصول آسان بنائے اور تعلیم یافتہ نابینا افرادکے لئے
روزگار کے بہترین مواقع بھی پیدا کرے ۔
پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے ۔ان
میں سے اکثریت ایسے نابینا افراد کی ہے، جو غربت کے باعث اپنا علاج نہیں
کرواسکتے ۔کیونکہ ہمارے ہاں موتیا اور ذیابیطس اندھے پن کی بڑی وجہ ہے ۔جو
کہ قابل علاج ہے ۔اور بہت کم ایسے نابینا ہیں جو پیدائشی ہوتے ہیں ۔حکومت
کو دیگر ذمہ دارر افراد کو چاہیے کہ اس پر خصوصی توجہ دیں وہ نابینا افراد
جو حافظ قرآن ہیں، ان کو بریل لینگوئج سیکھائی جائے ۔تاکہ ہر مدرسہ میں
ایسے علما ء کا تقرر ہو سکے ،جو جدید تعلیم سے آراستہ ہوں ۔اسی طرح گورنمنٹ
سکولز و کالجز میں بھی نابینا بچوں کی تعلیم کا ایک مخصوص کوٹہ ہو ۔حکومت
کو خصوصی افراد کا کوٹہ بھی بڑھانا چاہیے ۔
آنکھیں اﷲ کی کتنی بڑی نعمت ہیں، ان کی قدر نابینا افراد سے پوچھیں، لیکن
ہم انسان اس کی قدر نہیں کرتے اﷲ شکر نہیں کرتے ۔اﷲ کے شکر کرنے کا طریقہ
صرف یہ نہیں کہ ہم زبان سے ہی شکر کرتے رہیں ،بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو
نابینا ہیں، ان کے کیے کچھ کریں ۔ان کے کام آئیں ۔ان کوآسانیاں دیں خدمت
کریں ۔ ایک نابینا کی پیدائش آنکھوں والوں کے لیے عبرت کا مقام ہوتی ہے ۔ہم
کو ایسے افراد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ان کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے
۔انہیں دھتکارنا نہیں چاہیے ۔یاد رکھنا چاہیے کہ کل اﷲ تعالیٰ آنکھوں والوں
سے پوچھے گا اور کہے گا کہ تم کو آنکھیں دی گئی تھی کیا تم نے اس کا شکر
ادا کیا۔ہمارے معاشرے میں اندھے افراد کیسے ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کیسے
زندگی گزار رہے ہیں ،کس کرب و مایوسی ،بے بسی سے ہم آنکھوں والوں کی بے حسی
پر ماتم کرتے ہوئے جیتے ہیں۔
ایک شاعر نے ان کے احساسات کا نقشہ یوں کھینچا ہے ۔
میری آنکھوں ہی میں لکھا ہے نصیب میرا
دَرد ہے پیاس میری، اشک ہے دریا میرا
ہم کو بطورایک انسان اور شہری کوشش کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یا ہمارے کسی
جاننے والے کا بچہ نابینا ہو یا کسی کے علم میں کوئی نابینا ہو تو اس کے
ساتھ تعاون کریں اور اسے گھر میں محصور نہ رکھیں ۔اسے بریل لینگوئج کورس
کروانے میں مدد دیں ۔ نابینا بچے بھی عام لوگوں کی طرح تعلیم حاصل کرسکتے
ہیں ۔ ان کو بھی عام لوگوں کی طرح آگے بڑھنے کا پورا حق ہے ۔ ایک عاجزانہ
درخواست ہے کہ ان بچوں کی حوصلہ افزائی کریں ان کو گھر میں محصور نہ رکھیں،
ان کو باہر نکالیں اور دین و دنیا کا علم سکھائیں۔انہیں خود اعتمادی دیں ۔تاکہ
وہ اپنا پیٹ خود پال سکیں اور ان کو بھیک نہ مانگنی پڑے ۔عزت سے زندگی گزار
سکیں ۔ |