ٹھہرئِیے! ایک منٹ - کیا آپ کو معلوم ہے رابرٹ سنڈیمن کون تھا؟

بزرگی بہ عقل است -- نہ بہ سال (بڑائی کا تعلق عقل سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے) فارسی کا یہ محاورہ برطانوی کپتان رابرٹ سنڈیمن کو بہت پسند تھا لیکن ٹھہرئِیے ! ایک منٹ - کیا آپ کو پتہ ہے یہ رابرٹ سنڈیمن کون تھا؟ ہو سکتا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا -صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ والوں کو علم نہ ہو لیکن صوبہ بلوچستان کے لوگ تو بخوبی جانتے ہیں-

جب سے میں نے ہوش سنبھالا جہاں گیا اس کا نام پایا - بلوچستان میں تو رابرٹ سنڈیمن کی یادگاریں بکھری ہوئی ہیں-

صحت کا مسئلہ ہو گیا؟
اللہ ہی شفا دے گا - لیکن تدارک تو ضروری ہے -سنڈیمن سول ہسپتال سے جا کر دوائیں لے آئیں -
 

image


بچے کو کس اسکول میں داخل کرایا جائے؟
پریشانی کی کیا بات ہے گھر کے قریب ہی تو ہائی اسکول ہے جا کر داخلہ دلادو - اسکول کا نام ہے گورئمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول-

بچے نے ایف ایس سی کا امتحاں دے دیا ہے میں چاہتا ہوں اس کا کچھ نالج بڑھے؟
کوئی مسئلہ نہیں ہے جناح روڈ پر ہی تو بڑی لائبریری ہے بچے کو کہیں وہاں کتابوں کا مطالعہ کرے - ایک سے بڑھ کر ایک رسالے آتے ہیں- پشتو بلوچی کی کتب بھی دستیاب ہیں-لائبریری کا نام ہے سنڈیمن لائبریری-

زیارت جا رہا ہوں ؟
جائیں جی جائیں - جھوم جھوم کے جائیں - اچھا صحت افزا مقام ہے - زیارت میں خرواری بابا کے مزار پر جاکر چائے کے کپ سے ضرور لطف اندوز ہوں اور ہاں سنڈیمن تنگی بھی ضرور جانا بڑا ہی خوبصورت مقام ہے - ایسے لگتا ہے کہ کائنات بھی یہاں آکر دم بخود ہوجاتی ہے-

بلوچستان کی سرحدوں پر کون کون سے مقام ہیں ؟
رٹے رٹائے جوابات تیار -- حب - چمن - تفتان - جھٹ پٹ اور فورٹ سنڈیمن

یہ تھا کوئٹہ میں میرا بچپن اور یہ تھے سنڈیمن کے تذکرے-

کراچی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع لسبیلہ شہر میں میں کھیتوں کے کنارے ایک ہوا چکی کے نیچے کھڑا تھا -شام کا وقت تھا - ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے - یہ جھونکے دھیرے دھیرے آتے ، جسم اور چہرے سے ٹکرا کر ایک فرحت کا احساس دلاتے اور پھر آگے کھیتوں کے پتوں سے اٹھکلیاں کرتے ہوئے جانے کہاں جارہے تھے - بلا شبہ نہایت ہی اچھی شام تھی - قریب ہی ایک ہواسے چلنے والے پمپ کا بڑا سا پنکھا ایک آہنی ٹاور پر اوپر آہستہ آہستہ حرکت کر رہا تھا - اتنا آہستہ کہ بچے اس کے پروں کی تعداد گن سکتے تھے- -شاید وہ بھی اس ہوا کے مزے لے رہا تھا - پمپ چھوٹی چھوٹی نالیوں کو پانی مہیا کر رہا تھا - اور یوں کھیت سیراب ہو رہے تھے - ایک لاسی بولی بولنے والا طالب علم ہاتھ میں کتابیں لئے نکل آیا - باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ سنڈیمن کی قبر یہاں پر ہے اور میں حیران رہ گیا - سنڈیمن نے یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا - اس لڑکے نے کہا کہ سنڈیمن میں ایک بات اچھی تھی کہ جو عہد کرتا اسے پورا کرتا جبکہ پاکستان بننے کے بعد ہم سے جھوٹے وعدے ہی کئے گئے -

یہ سنڈیمن ہے کون؟
بلوچستان کا علاقہ پاک و ھند کی آزادی سے قبل انگریزوں کے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا کہ یہیں سے گزر کر وہ افغانستان تک پہنچ سکتے تھے جہاں سے روس ان کی مملکت پر حملہ آور ہو سکتا تھا - لیکن بلوچستان کا قبائلی نظام کچھ اس قسم کا تھا کہ انگریزوں کو ان سے نبٹنے میں دشواری آرہی تھی - انگریزوں کے اعلیٰ دماغ یہاں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو رہے تھے-
 

image


کیپٹن رابرٹ سنڈیمن ایک جونیئر افسر تھا- جس کی تعیناتی انگریزوں نے پنجاب کے علاقہ ڈیرہ غازی خان میں کی تھی- رابرٹ سنڈیمن نے اپنی ڈیرہ غازی خان تعیناتی کے دوران اپنی سرحد سے پار بلوچوں کے رہن سہن - ثقافت - رسم و رواج کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد اپنی تجاویز پیش کیں - لیکن سینئر افسران نے اس کی تجاویز کو ناقابل عمل قرار دیا- سنڈیمن کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو ایک ریاست کا شہری بنانے کا ارادہ ترک کردیں - ان کے سماجی و باہمی تعلقات جیسے بھی ہیں قبول کر لیں اور انکی صدیوں سے بنی ہوئی روایات نہ چھیڑیں - خود سنڈیمن نے معلومات حاصل کیں - بلوچ کون ہیں؟ بروہی کون ہیں؟

ان کی زبان الگ ہے تو کیا رہن سہن بھی الگ ہے؟ کیا دونوں زبان والے ایک دوسرے میں شادیاں کرتے ہیں؟ امن و امان کی کیا صورتحال ہے- اس صورت حال میں قبائلی رنجشوں کا کتنا دخل ہے؟ ڈھاڈر میں لا قانونیت کا یہ عالم تھا کہ دکاندار رات کو دکان بند کرنے کے لئے، دکان خالی کرتے اور دکان خالی کرنے کے بعد اپنا سامان ایک عمر رسیدہ نیک سیرت بزرگ کے گھر رکھوا دیتے تھے اور اپنے گھر بھی نہیں لے جاتے تھے کہ ڈاکہ نہ پڑ جائے -

ولیم سنڈیمن نے تین ہزار سال پیشتر ہندو دانشور کی لکھی ہوئی کتاب “ ارتھ شاستر “ کا مطالعہ نہیں کیا تھا لیکن غور و فکر کے بعد اس کے ذہن میں یہی نکتہ سمجھ میں آیا کہ جنگ ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے- کوشش کی جائے کہ ایسے اقدامت کئے جائیں کہ ان بلوچوں کی انا کو ٹھیس لگائے بغیر ہی اپنے مقاصد حاصل ہو جائیں - اس نے گہری نگاہ سے سارا جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا کہ بلوچ قبائل کو ان کی ثقافت اور رواج کے مطابق اپنے اپنے قبائلی سرداروں کے زیر نگیں علاقے میں رہنے کی خود مختاری دے دی جائے -اس سے انگریزوں کو کوئی مسئلہ نہیں اٹھے گا-

انگریز افسران بالا ان تجاویز سے بالکل اتفاق نہیں کرتے تھے- وہ یہاں کے معاملات بھی ایسا ہی حل کرنا چاہتے تھے جیسا باقی ماندہ ہندوستان میں کئے - یہ افسران اس کی تجاویز سے کس قدر نالاں تھے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ جیکب آباد میں اس سلسلے میں ایک میٹنگ بلائی گئی اور اس میں سنڈیمن کو بھی بلایا گیا لیکن میٹنگ کے باہر ہی کچھ نکات پر ایسا اختلاف ہوا کہ اسے میٹنگ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اس سے کہا گیا کہ ایک دن اور رات کے اندر اندر جیکب آباد کے علاقے سے باہر نکل جاؤ - یہی وہ مقام تھا جہان اس نے انگریزی میں فارسی کہاوت پڑھی
بزرگی بہ عقل است-- نہ بہ سال
(بڑائی کا تعلق عقل سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے)
 

image

لیکن ان حالات میں بھی ولیم سنڈیمن دل برداشتہ نہیں ہوا - بعد میں اس نے سارے احوال ہائی کمانڈ کو لکھ کر بھیج دئے- ہائی کمانڈ نے بالآخر اسے اپنے طریقے اختیار کرنے کی اجازت دے دی-

یہ ایک شادمانی کا موقع تھا- سنڈیمن بھی اس سے شادماں تو ہوا لیکن ایک گہرے تفکر میں بھی ڈوب گیا -ایک چھوٹے درجے کے افسر کے حوالے ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی- اس نے انا کو ٹھیس لگائے بغیر امن کی تلاش کا سفر نہایت باریک بینی اور مہارت سے طے کرنا شروع کیا- اس کی یہ پالیسی اسے مقبولیت کی سیڑھیوں پر چڑھاتی چلی گئی-

مری قبیلے سے کسی تنازعہ پر مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا- لیکن بلوچوں کا اصرار تھا کہ سنڈیمن خود ان کے در پر آکر بات کرے وہ نہیں جائیں گے- سنڈیمن نے اس کا قطعآ برا نہیں مانا اور ایک صبح بغیر کسی حفاظتی دستے کے ان سے ملاقات کے لئے روانہ ہو گیا- اتنا ضرور کہا کہ ایک مہمان تم سے ملنے آرہا ہے- سنڈیمن کو ان کے مہمان کے بارے میں بلند اور عظیم روایات کا علم تھا- بلند و بالا سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان- پر خطر راہوں اور نا ہموار راستوں پر سفر کرتے ہوئے- بے آب و گیاہ وادیوں کو پار کرنے کے بعد اپنی منزل مقصود جا پہنچا- ان ساری صعوبتوں کو اس نے اپنے عزم راسخ کے بیچ میں حائل نہیں ہونے دیا -

ایک مرتبہ کوئی قبیلہ خان قلات کے اعزاز میں جیکب آباد میں اس کے شان شایان دعوت کرنا چاہتا تھا- لیکن کچھ مسائل درمیان میں حائل ہو رہے تھے- سنڈیمن نے اس قبیلے کی خاموشی سے مدد کی اور یوں یہ تقریب ایک نہایت ہی عظیم الشان یادگار طریقے سے منعقد ہوئی اور بلوچوں کے دل میں اس کی محبت کے پھول کھلا گئی - اس کے یہی اطوار تھے جو اسے مسلسل ہر دلعزیز بنارہے تھے -اس نے بلوچوں کے ساتھ بلوچوں کی ثقافت اور رہن سہن کے مطابق معاملات طے کئے- عام بلوچ افراد اس بات پر مسرت محسوس کرتے تھے کہ اتنی بڑی قوت کے حامل ہونے کے باوجود انگریز ان پر دھونس نہیں جما رہے- اسی جذبے کے تحت وہ ولیم سنڈیمن کے ذاتی حفاظتی دستے میں شامل ہونے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کرتے تھے-

(نوٹ - بلوچستان کے علاقے فورٹ سنڈیمن کا نام اب “ژوب“ رکھ دیا گیا ہے- جہاں گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہدری کے مغربی راستے کا سنگ بنیاد رکھا) -
YOU MAY ALSO LIKE:

Sir Robert Groves Sandeman, KCSI (1835–1892), Colonial British Indian officer and administrator, was the son of General Robert Turnbull Sandeman, and was born on 25 February 1835. He was educated at Perth and University of St Andrews, and joined the 33rd Bengal Infantry in 1856.