اعمال صالحہ

اللہ تبارک و تعالیٰ اور حضور نبی کریم ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جہاں گناہوں سے اجتناب کرنا بہت ضروری ہے وہاں اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی تو وہاں اس دنیا کا مال و دولت کچھ کام نہ آئے گا بلکہ وہاں کا سکہ تو یہی نیکیاں ہوں گی۔ جب حساب کتاب ہوگا، اعمال کا وزن ہوگا تب ایک ایک نیکی کی قدر و قیمت معلوم ہوگی اور وہاں ماں باپ، رشتہ دار، دوست احباب غرض کوئی بھی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم آخرت کے لئے توشہ اکٹھا کر لیں تاکہ میدانِ محشر میں شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "مومنو! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ"﴿حج۷۷﴾۔ "اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو ﴿کتاب﴾ محمد ﷺ پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اللہ نے اِن سے اِن کے گناہ دور کر دیئے اور ان کی حالت سنوار دی"﴿محمد ۲﴾۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام(رض) نیک کاموں میں حریص تھے جہاں کسی عمل کے بارے میں علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتے ہیں فوراً اس پر عمل کرنا شروع کر دیا اور اگر کوئی عمل دیر سے معلوم ہوا تو اس پر افسوس کرتے کہ یہ ہمیں پہلے کیوں معلوم نہ ہوا ورنہ ہم پہلے ہی اس کو معمول بنا لیتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر(رض) نے جب یہ حدیث سنی کہ "جو شخص کسی جنازے کی نماز پڑھے اُسے ایک قیراط ﴿سونا چاندی تولنے کا ایک پیمانہ﴾ ثواب ملتا ہے اور جو میت کے دفن ہونے تک جنازے کے پیچھے جائے اسے دو قیراط ملتے ہیں جن میں سے ایک اُحد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے"تو آپ(رض) نے بے ساختہ فرمایا کہ ہم نے بہت سے قیراط بلاوجہ ضائع کردیئے۔ لہٰذا شیطان کے اس دھوکے سے اپنے آپ کو بچائیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہمیں کیا فائدہ دیں گی بلکہ نیکی کا کوئی عمل چھوٹا نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا "نیکی کی کسی بات کو حقیر نہ سمجھو"ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا "جہنم کی آگ سے بچو خواہ ایک کھجور کے آدھے حصے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو"۔

اعمالِ صالحہ کے بے شمار فضائل اور ان پر اجروثواب کا ذکر قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے اور بہت سے اعمالِ صالحہ سے تو تقریباً تمام مسلمان واقف ہیں۔ یہاں تک کہ نیک کاموں کے فوائد کو تو غیر مسلم اور کفار بھی تسلیم کرتے ہیں اور وہ اس دنیا میں بہت سے نیک کام کرتے بھی ہیں لیکن ایک کافر اور مسلمان کے عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کافر کے سارے اعمال کفر کے باعث ضائع ہو جاتے ہیں اور ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں جبکہ مسلمان کا ہر نیک عمل جو وہ خلوصِ نیت سے کرتا ہے، اُس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے جس کا اجر اُسے آخرت میں اتنا ملے گا کہ وہ حسرت کرے گا کہ میں نے دنیا میں بہت سا وقت ضائع کر دیا۔ یہ تو ہم ہی غفلت کا شکار ہو گئے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں قدم قدم پر نیکیاں اکٹھا کرنے کے بیشمار مواقع فراہم کئے ہیں جن کی طرف ہم نے کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ مسلمان جو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے اُس کو کبھی کسی قیمت پر نقصان ہو ہی نہیں سکتا ۔ وہ چاہے کسی بھی حالت میں ہو اُس کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ خوشی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر اجر و ثواب، غم یا بیماری میں صبر کرنے پر اجر و ثواب یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی چُبھے تو اس کا بھی ثواب ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی زندگی کا کوئی مباح کام ایسا نہیں جس کو اچھی نیت کر کے موجبِ ثواب نہ بنایا جا سکتا ہو۔ بس ذرا سا زاویہ نگاہ بدلنے سے مسلمان اپنے وقت کو بہت قیمتی بنا سکتا ہے مثلاً روزی اس نیت سے کمائے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمے جو میرے اور گھر والوں کے حقوق رکھے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے کما رہا ہوں تو یہ روزی کمانا بھی باعثِ ثواب بن جائے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ "تمام اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے"۔ لیکن بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اچھی نیّت سے غلط کام بھی ٹھیک ہو جاتا ہے اور گناہ بھی ثواب بن جاتا ہے۔ یہ بات قطعی غلط ہے۔ گناہ ہر حالت میں گناہ ہے، کتنی ہی اچھی نیّت سے کیا جائے وہ جائز نہیں ہو سکتا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی نیک کام پر اس وقت تک ثواب نہیں ملتا جب تک وہ صحیح نیّت سے نہ کیا جائے۔ مثلاً نماز کا ثواب اسی وقت ملے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھی جائے، اگر دکھاوے کے لئے پڑھی تو ثواب کے بجائے اُلٹا گناہ ہوگا۔ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ صرف نیّت کو ہی کافی سمجھا اور عمل کو سِرے سے کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تو یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس حدیثِ مبارک میں عمل کی نفی ہرگز نہیں بلکہ خلوصِ نیت اور خاص اللہ کے لئے اعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ویسے بھی نیّت کا ٹھیک ہونا بھی اُسی وقت ثابت ہوگا جب عمل کو بھی بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر عمل کرنے یا بہتر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ نیّت ہی ٹھیک نہیں بلکہ درحقیقت ایسی نیّت بھی نفس و شیطان کا دھوکہ ہے۔

بہت سے نیک اعمال ایسے ہیں جن کے کرنے میں نہ کوئی خاص محنت خرچ ہوتی ہے نہ کوئی خاص وقت لگتا ہے۔ بس ذرا سی توجہ سے انسان کے نامہ اعمال میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان میں سے چندیہ ہیں: حضور ﷺ کی سنّتوں پر عمل، اپنے لئے اور دوسروں کے لئے دعا کرنا، استغفار، ذکراللہ، درود شریف، شکر، صبر، بسم اللہ سے ہر کام کی ابتدا، سلام میں پہل، بیمار پُرسی، نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت، تعزیت اور مصیبت زدہ کی تسلّی، اللہ کے لئے محبت کرنا، کسی مسلمان کی مدد کرنا، جائز سفارش کرنا، کسی کے عیب کی پردہ پوشی، نیکی کی ہدایت کرنا، صدقہ و خیرات، معاف کرنا، نرم خوئی، صلح کرانا، یتیموں اور بیوائوں کی مدد، اہلِ و عیال پر خرچ کرنا، والدین اور ان کے دوستوں عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک، میاں بیوی کا آپس میں حسنِ سلوک، صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک، خوش اخلاقی، ہم سفر سے حسنِ سلوک، اللہ کے لئے ملاقات ، مہمان کا اکرام، راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا، جھگڑے سے بچنا، دین کی بات سیکھنا اور سکھانا، بڑوں کی عزت، شعائر ِاسلام کی تعظیم، بچوں پر شفقت، اذان دینا، اذان کا جواب دینا، تلاوتِ قرآنِ کریم، سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص کی تلاوت، اچھی طرح وضو کرنا، مسواک کرنا، تحیتہ الوضو، تحیتہ المسجد، اعتکاف کی نیّت، پہلی صف میں نماز پڑھنا، صف کے خلا کو پُر کرنا، نمازِ اشراق، جمعہ کے دن غسل اور خوشبو لگانا، سحری کھانا، افطار جلدی کرنا، افطار کرانا، حاجی یا مجاہد کے گھر کی خبر گیری، شہادت کی دعا کرنا، صبح سویرے کام شروع کرنا، بازار میں ذکراللہ، بیچی چیز کا واپس لینا، ضرورت مند کو قرض دینا، تنگدست مقروض کو مہلت دینا، سچ بولنا، درخت لگانا، جانوروں سے حسنِ سلوک، موذی جانوروں کو ہلاک کرنا، زبان کو قابو میں رکھنا، فضول باتوں اور کاموں سے بچنا، دائیں طرف سے شروع کرنا، گرے ہوئے لقمے کو صاف کرکے کھا لینا، چھینک آنے پر حمد اور اس کا جواب، اللہ تعالیٰ کا خوف و خشیت، اللہ تعالیٰ سے امید اور حسنِ ظن وغیرہ۔ ہم سب کو چاہیے کہ ان کو اپنی زندگی کے معمولات میں شامل کرلیں ۔ کیا بعید ہے کہ یہی بظاہر چھوٹے چھوٹے اعمال اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہماری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنا دیں اور ہمارا بیڑا پار ہو جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین صرف ان چند اعمال پر منحصر ہے بلکہ دین کے احکام زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہیں، اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تمام ارکان، فرائض اور واجبات کو بجا لائے۔

اعمالِ صالحہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا "نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو ﴿قبلہ سمجھ کر ان﴾ کی طرف منہ کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روزِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور ﴿خدا کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں ﴿کے چھڑانے﴾ میں ﴿خرچ کریں﴾ اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں، اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں، اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ ہیں جو ﴿ایمان میں﴾ سچے ہیں اور یہی ہیں جو ﴿خدا سے﴾ ڈرنے والے ہیں"﴿البقرہ۷۷۱﴾۔ "جو آسودگی اور تنگی میں ﴿خدا کی راہ میں﴾خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے"﴿آلِ عمران ۴۳۱﴾۔ "خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو ﴿خرچ سے مدد﴾دینے کاحکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے ﴿اور﴾ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔ اور جب خدا سے عہدِ واثق کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو جانتا ہے" ﴿نحل ۰۹-۱۹﴾۔

اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت اور اعمالِ صالحہ پر نا صرف آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے بلکہ دنیا میں بھی اس سے بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں چند کا ذکر قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو ﴿دنیا میں﴾ پاک ﴿اور آرام کی﴾ زندگی سے زندہ رکھیں گے اور ﴿آخرت میں﴾ اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے" ﴿نحل۷۹﴾، "اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ﴿خدا﴾ان کی ﴿دعا﴾ قبول فرماتا ہے اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے" ﴿شوریٰ۶۲﴾، "اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے خدا ان کی محبت ﴿مخلوقات کے دل میں﴾ پیدا کر دے گا" ﴿مریم۶۹﴾، "تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت ﴿کے باغ﴾ میں داخل کرے گا۔ یہی صریح کامیابی ہے " ﴿جاثیہ ۰۳﴾، "جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے۔ صبر کرنے والوں کو بے شمار اجر ملے گا" ﴿زمر۰۱﴾، "جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے" ﴿نور۵۵﴾، "اگران بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہو جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کھول دیتے" ﴿اعراف ۶۹﴾، "اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کے لئے ﴿رنج وحزن سے﴾ نکلنے ﴿کی راہ﴾ پیدا کردے گا۔ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا﴿طلاق ۲-۳﴾۔ اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کر دے گا"﴿طلاق ۴﴾، "سن رکھو جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے"﴿یونس ۲۶﴾۔ اس کے علاوہ نیک اعمال اور طاعات سے رزق بڑھتا ہے ، بارش ہوتی ہے، مال و اولاد میں برکت ہوتی ہے، ہر قسم کی بلا ٹل جاتی ہے، قلب میں راحت و اطمینان پیدا ہوتا ہے، فرشتے مرتے وقت خوشخبری سناتے ہیں، تمام کاموں کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ فرما لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا غصہ بجھ جاتا ہے، عمر بڑھتی ہے، فکر زائل ہو جاتی ہے، قرض ادا ہو جاتا ہے، سحر سے حفاظت ہو تی ہے، نیک اعمال صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں۔ غرض جو لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے فرمانبردار ہیں ان کی زندگی بہت حلاوت اور لطف سے بسر ہوتی ہے اور اُن کے دلوں میں نورانیت ہوتی ہے ۔

ایسی اطاعت والی زندگی کے لئے ایک تو ضروری ہے کہ دین کا علم حاصل کیا جائے خواہ کتابوں سے حاصل کیا جائے لیکن کتابوں کے ساتھ ساتھ ایسے علما اور بزرگوں کی صحبت بھی جس قدر میسر ہو غنیمت ہے جو شریعت کے پابند ہوں اور اتباع ِ سنت کے عاشق ہوں، توسط پسند اور شفیق ہوں۔ دوسرا نماز کی پابندی کرنا۔ تیسرا کم بولنا اور کم ملنا اور جو کچھ بولنا سوچ کر بولنا یہ ہزاروں آفتوں سے محفوظ رہنے کا اعلیٰ طریقہ ہے۔ چوتھا اکثر اپنا محاسبہ و مراقبہ کرنا یعنی اپنے اعمال پر نظر کرنا اور اپنے حساب کتاب کو یاد رکھنا۔ اور پانچواں کثرت سے توبہ و استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے رونا ورنہ رونے کی صورت ہی بنانا۔ان پانچ چیزوں پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق مانگتے رہنے سے انشائ اللہ بہت جلد تمام طاعات کا دروازہ کھل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ﴿عیش کر رہے﴾ ہوں گے۔ جو جو ﴿نعمتیں﴾ ان کا پروردگار انہیں دیتا ہوگا ان کو لے رہے ہوں گے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرتے تھے۔ رات کو تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔ اور اوقاتِ سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے۔ اور ان کے مال میں مانگنے اور نہ مانگنے والے ﴿دونوں﴾ کا حق ہوتا تھا۔ اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم دیکھتے نہیں؟"﴿ذاریات۵۱-۱۲﴾۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور حضور ﷺ کی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضامندی و قرب نصیب فرمائے۔ ﴿آمین﴾
سوچ لے تیرا نہ پل کام آئے گا
ور نہ قول و عمل کام آئے گا
کچھ نہیں نامی اجل کام آئے گا
ہاں مگر اچھا عمل کام آئے گا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210723 views A Simple Person, Nothing Special.. View More