رواداری:سیرتِ رسول ﷺکے آئینے میں

نبی کریم ﷺ خلقِ حسنہ کی معراج پر فائزتھے، برداشت ورواداری،حلم وبردباری اور اغیار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا آپﷺ کا نمایاں وطیرۂ حیات تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں جب انسانیت دم توڑ چکی تھی، شرم وحیا کا جنازہ نکل چکا تھا، بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں، عورتوں کا وجود معاشرے میں باعثِ ننگ وعار تصور کیا جارہا تھا، قبائلی اور ملکی سطح پر جنگیں زوروں پر تھیں، قتل وغارت گری روزمرہ کے معمولات میں شامل ہوچکے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر رحم کھایا اور انسانی اقدار کی حرمت وعظمت کی بحالی کے لیے محمد بن عبداللہ کورسول بنا کراس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپﷺ نے اپنی نبوت کے صرف ۲۳ سالہ قلیل عرصہ ہی میں احسان کی جن صفات پر معاشرے کی بنیاد رکھی ، انہوں نے ظلم وستم اور تشدد کے تمام نظامِ سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔سن ۶۲۲ء میں آپ ﷺ نے قبائلی معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ سے تعبیر ہے اور بلا شبہ یہ تاریخِ انسانی کا پہلا تحریری دستور اور قرارداد تھا۔سات سو تیس الفاظ پر مشتمل اس معاہدے میں آپسی جنگ بندی، حرمت انسانی کی پاسداری اور بھی ۵۳ دفعات پر معاہدین نے دستخط کیے۔ جن سے ہر فراور ہر جماعت کو اپنے اپنے طور طریقے اور مسلک ومشرب کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل آزادی کا حق حاصل ہوا، انسانی کرامت وشرافت کا بول بالا ہوا، اموال کو تحفظ ملا اور شہر امن وسکون کا گہوارہ بن گیا۔

چھٹی صدی عیسوی کی ابتدا میں جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا، تو مکہ والوں نے آپﷺ پرہر قسم کے ظلم وستم کو آزمایا، جن کے باوصف کچھ لوگوں نے تو آپ ﷺکوچھٹی صدی کا مظلوم ترین انسان بھی کہاہے، مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کو، آپﷺ کے خاندان والے اور صحابۂ کرام کو جو اذیتیں دیں، وہ ظلم وبربریت اور سفاکیت کاایک ناقابل برداشت تصور تھا، آپﷺ کو جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑا، ابو جہل کے ناخلف بیٹوں عتبہ اور عتیبہ نے آپﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے کر آپ کا دل دکھایا، عقبہ بن ابی معیط نے بحالت سجدہ گردنِ مبارک پر اونٹنی کی ناپاک اوجھڑی رکھ کر آپ کوزک پہنچائی، توطائف والوں نے جسم مبارک کو لہو لہان کردیا،یہیں پر ان کے ظلم وستم کا سلسہ ختم نہیں ہوتا،ان سنگ دل انسانوں نے آپﷺ کا اور خاندان والوں کا معاشرتی مقاطعہ کردیا، مگرجب زمانہ نے انگڑائی لی اور مظلوم فاتح بن گیا ، تو آپﷺ نے عدل وانصاف، رواداری ، انسان دوستی اور انسان نوازی کی بے نظیر مثالیں قائم کیں اور ظالموں کے ظلم کا بدلہ حلم وشرافت اور عفودرگذر سے دیا، مکہ والے کے ظلم وستم کو آپﷺ نے جس فراخ دلی سے معاف فرماکر اعلیٰ رواداری کا بہترین عملی مظاہرہ کیا،اسے تاریخ بھی رشک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ ایک یورپی مصنف ’’ارتھر گلیمن‘‘فتح مکہ کے حوالہ سے لکھتاہے کہ’’ محمد (ﷺ)کے اس حسنِ سلوک کو دوسرے فاتحین کے مقابلہ میں انتہائی درجہ کی شرافت اور وسعتِ ظرفی سے تعبیر کیا جائیگا،محمد(ﷺ) کی فتح انسانیت کی فتح تھی،انہوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو مٹاکرظالمانہ نظام سلطنت کوبالکل باطل کردیا‘‘۔اس موقع پر آپ ﷺ نے انتہائی درجے کے سفاکوں اور ظالموں کو معاف فرماکر جس انسانی ہمدردی، عفودرگذر اور حلم وبردباری کا مظاہرہ کیا پوری تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔بنو حنیفہ کاسرکش سردارثمامہ مسلسل اپنی ضد پر اڑا رہا، مگر جب گرفتار ہو کر آستانۂ رحمت میں باندھ د یا گیا، تووہ بھی آپ کے حسنِ سلوک کو دیکھ کر ایمان لے آیااورپکاڑ اٹھاکہ ایمان لانے سے قبل پوری دنیا میں آپ میری نظروں میں سب سے مبغوض ترین انسان تھے اورایمان لانے کے بعد میرے نزدیک دنیا میں سب سے محبوب ترین انسان آپ ہیں ۔ ہندہ جس نے آپ کے رضاعی بھائی اور چچا سید الشہداحضرت حمزہؓ کا کچا کلیجہ چباکر آپ کو رلایا تھا، جب ایمان لاکر اپنی غلطی پر پشیماں ہوئیں ،تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا، وحشی جس نے اپنے نیزہ سے حضرت حمزہ کو نشایا بنایا تھا، انہوں نے جب معافی مانگی ،تو آپ نے ان کو بھی معاف کردیا۔ القصہ آپﷺ نے وسعتِ قلبی اور رواداری کا جو اعلیٰ مظاہرہ کیا عالمِ انسانیت کی بادشاہت و ملوکیت کی پوری تاریخ اس سے خالی ہے۔

اگر آج کے معاشرے پر نظر ڈالیں اور پھرتمام گوشہ ہائے سیرت رسول ﷺ کا تجزیہ کریں، توہر متعصب انسان بھی انسانی شرافت ، برداشت ورواداری کی مثال میںآپ ﷺکو عظیم ترین انسانوں کی فہرست میں پہلا مقام دینے پر مجبور ہوگا ۔دوست ودشمن ہر ایک کے ساتھ آپ ﷺ نے جو حسنِ سلوک کا برتاؤ کیا، وہ رواداری میں انمول ضرب المثل کی حیثیت کا حامل ہے، مذہب وملت اورزبان ونسلیت سے پرے آپ ﷺ نے ہمیشہ انسانی کرامت وشرافت کو پیش نظر رکھا، مدنی اور معاشرتی زندگی میں ہر دم اخوت وبھائی چارگی ،رواداری اور حسنِ سلوک کا حکم دیا، چنانچہ ڈاکٹر حافظ محمد ثانی اپنی کتاب’’ رسول اکرم ﷺ اور رواداری‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ۶۲۷ء میں رسول اکرمﷺ نے کوہِ سینا کے متصل سینت کیتھرائن کے راہبوں اور عیسائیوں کو پوری آزادی اور وسیع حقوق عطا کیے اور ان کے تعلق سے مسلمانوں کو مذکورہ احکامات پر عمل درآمدکرنے کا حکم دیا :’’(۱)عیسائی گرجوں، راہبوں کے مکانات اوران کی زیارت گاہوں کو ان کے دشمنوں سے بچاؤ،(۲)ہر طرح کی تکلیف دہ چیزوں سے ان کی پوری طرح حفاظت کرو، (۳)ان پر بے جا ٹیکس مت عائد کرو(۴)کسی کو ان کی حدود سے خارج مت کرو،(۵)کسی عیسائی کو مذہب چھوڑنے پر مجبور مت کرو(۶)کسی راہب کو ان کی خانقاہ سے مت نکالو(۷) کسی زائر کو زیارت سے مت روکو(۸) مسلمانوں کے مکانات اور مساجد کی تعمیر کی غرض سے گرجے مت مسمار کرو‘‘۔
پوری تاریخِ انسانی میں کیا کسی بادشاہ اور قائد نے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ اس سے بہتر رواداری کی مثال پیش کی ہوگی؟اس آفتابِ ہدایت کو تم ہزار کجلانے کی سعی کرو، مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازیاں کرو، مگرجن واقعات کو تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے ،اس کو تمہاری عصبیت کی آگ نہیں جلاسکتی۔حیاتِ طیبہ میں مذہبی رواداری کایہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، بلکہ تاریخ کے بے شمار اوراق اغیار کے ساتھ آپ ﷺ کے سلوک اور رواداری کے کارناموں سے سیاہ ہیں، نجران کے عیسائیوں کاایک وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ ﷺمسجدِ نبوی تشریف فرما تھے، اس وقت ان کی نماز کا وقت ہوا ،تو انہوں نے وہیں نماز شروع کردی، بعض صحابہ نے ان کو روکنا چاہے ،مگر آپﷺ نے ان کو منع کیا کہ ان کو نماز پڑھ لینے دو۔کفارمکہ نے جب حضرت ثمامہؓ کی آستانۂ رحمت میں شکایت کی کہ انہوں نے مکہ میں غلہ بھیجنا بند کردیا ہے، جس سے وہاں قحط کا سماں بندھ گیا ہے،لہذا آپ ان سے سفارش کردیں کہ وہ ترسیلِ غلہ بحال کردیں،یہ وہی ظالم اور سفاک تھے جنہوں نے مکہ میں آپﷺ پر عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا، مگر قربان جائیے اس رحمتِ عالم ﷺپرجنہوں نے ان ظالم اوراپنے دشمنوں کو بھی اپنی رحمت سے محروم نہیں کیا اور اہلِ مکہ قحط سے محفوظ ہوگئے۔ ایک یہودی کا جنازہ آپﷺ کے سامنے سے گذرا تو آپ انسانیت کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسجدِ نبوی میں ایک دیہاتی آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اس کو پیشاب کی حاجت ہوئی ،وہ وہیں مسجد ہی میں چالو ہوگیا، صحابہ روکنے کے لیے دوڑے ،مگر آپﷺ نے صحابہ کو روکا اور جب وہ اپنی حاجت پوری کرکے فارغ ہوگیا، تو آپ ﷺ نے اس کو کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی، ا لبتہ یہ کہا کہ مسجد ذکروتلاوت اور نماز کے لیے ہیں بول وبراز کے لیے نہیں ہیں اور پھرکسی کو حکم دیا کہ وہ وہاں پانی بہادیں۔

آج پوری دنیا خصوصاً ہمارے ہندوستانی معاشرے میں جس عدم رواداری، انتہاپسندی اور مذہبی عدمِ برداشت کی فضا ہے، ایسے میں ہر ایک کے لیے اسوۂ رسول ﷺ کو اپنانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ آج ہم رواداری اور حقوقِ انسانی کی بازیابی وحصول یابی کے لیے گو ہزار سیمیناریں منعقد کرلیں، فلک بوس نعرے لگالیں، مگر ہمارا یہ خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، جب تک ہم سیرتِ رسول ﷺ کو اپنی زندگی میں داخل نہ کر لیں ۔ تاریخ گواہ کہ جس قوم نے بھی تعلیماتِ نبوی کو سینے سے لگایا ، ہمیشہ ان کا پرچم بلند رہا،انسانی اقدار کا مینارۂ شرافت بلند رہا، ظلم وبربریت زخم خوردہ ہوگئی ، عدل وانصاف کا پیمانہ جھکا رہا اور انسانیت کی روحیں سر سبزوشاداب رہیں ۔ چنانچہ پروفیسر آرنولڈ اپنی کتاب’’The preaching of Islam‘‘میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’ اگر اسلام نہ آتا تو یہ دنیا شاید زمانۂ دراز تک انسانیت اور تہذیب وثقافت سے روشناس نہیں ہوتی ، یہ ایک لاریب حقیقت ہے کہ آج دنیا میں جو امدادِ باہمی، مساوات اور بنی نوعِ نوعِ انسان کے ساتھ ہمدردی کی جو تحریکیں جاری ہیں ، وہ اسی تعلیمات نبوی کا عکسِ جمیل ہیں، اسلام نے آکر نظام سلطنت کی ساخت بدل دیا، اقتصادی اور معاشرتی نظام میں انقلاب برپا کردیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا نظامِ حیات پیش کیاجو صرف مسلمان ہی نہیں ، بلکہ قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوا اور یہ وہ خوبیاں تھیں جن کے سامنے نہ صرف میری ، بلکہ ہرانصاف پسند کی گردن خم ہے‘۔
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73406 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.