اعتدال ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان ہی ہوا کرتا ہے۔ سوچ انکارِ خلافت کی ہو
یا کہ قومی ریاستوں کے وجود کو خلا ف اسلام جاننے کی، دو طرفہ انتہا پسندی
ہی ہوگی. نا کہ راہِ اعتدال ۔ خلافت کا انکار نہیں ، کہ نصوص سے ثابت ہے۔
لیکن ’’ون اُمہ ون اسٹیٹ‘‘(ایک امت ، ایک ریاست )ہی عین اسلام اور قومی
ریاستوں کے وجود کو خلاف اسلام جاننے کا نظریہ، اپنی تاریخ سے ہی نہیں،
اجماعِ صحابہؓ سے بھی طوطا چشمی ہے ۔
تاریخ طبری میں ہے کہ جنگ صفین کے بعد امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کو خط
لکھا کہ آپ اگر پسند فرمائیں تو عراق آپ کے اور شام میرے پاس رہے۔ تا کہ
مسلمانوں کا خون نہ بہے۔ حیدر کرارؓ نے اسے قبول کر لیا۔ (تاریخ طبری جلد
پنجم صفحہ 140عن زیاد بن عبداللہ )
اسی مصالحت کا ذکر شاہ معین الدین احمد ندوی نے تاریخ اسلام جلد اول صفحہ
279 پر بھی کیا ہے۔
اس کے بعد طرفین کا اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہو جانا اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیم اجمعین کا اس معاہدے کو تسلیم کرنا۔ اجماع صحابہ۔
حیدر کرارؓ کے دورِ خلافت میں امیر معاویہؓ کی ریاست کے وجود کو صحابہ کرام
رضوان اللہ علیم اجمعین کا اور بنو عباس کے دور میں بنو امیہ کی اندلس میں
الگ خلافت کو امام اعظم اور امام مالک کا خلافِ اسلام نہ گرداننا ثابت ہے۔
جی ہاں ریاست نہیں خلافت، کہ عبدالرحمن الداخل بن معاویہ بن ہشام بن
عبدالملک نے الگ خلافت قائم کی۔ بلکہ عبدالرحمن الداخل کے جانشین اموی
خلیفہ ہشام کے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ روابط، امام مالک کا اس کی
مدح کرنا، اور ہشام کی امام مالک سے عقیدت ، موطا امام مالک کا اندلس میں
نفاذ، امام مالک ؒ کا ان سے نذرانہ قبول کرنا۔
امام مالک، قاضی ابو یوسف ؒ کہ خلافت عباسیہ کے قاضی القضاۃ بھی تھے اور
امام محمد ؒ ایسے لوگوں کے دور حیات میں خلافت عباسیہ سے شمالی افریقہ
(مراکش اور الجزائر) کی دولت ادارسہ کی علیحدگی۔
امام شافعی اور امام ابن حنبل کے سامنے خلافت عباسیہ سے ریاستوں کی یوں
علیحدگی جیسے تسبیح کے ٹوٹ جانے پر دانوں کا بکھرنا۔ حکمرانوں کے سامنے ڈٹ
جانے والے فقہاء امت، امت کے اس ابتلاء گمراہی پر کیوں خاموش رہے؟
حتیٰ کہ اسلامی سیاست اور قانون ایسے موضوع پر امام ابو یوسف ؒ کی کتاب
الخراج اور امام محمد کی السیر الکبیر جیسی تصنیفات میں اس موضوع پر نکیر
تک نہ کرنا۔
راہِ اعتدال اظہر من الشمس ہے کہ مقاصد شریعت اہم ہیں، بہ نسبت طرزِ حکومت
کے۔
وگرنہ تو ملک شاہ سلجوق سے لیکر یوسف بن تاشفین، ایوبی، غزنوی، غوری، اور
شاہ خوارزم وغیرہ تک امت کے وہ ہیرو ( جن کے کارِ ہائے نمایاں کے تذکرے
جناب کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں) گمراہ ٹھہرے۔ اور انہی ادوار میں بقیدِ
حیات امام طحاوی، امام رازی، امام ابنِ جوزی، امام غزالی، اور برہان الدین
مرغینانی م 593ھ (صاحب ہدایہ) وغیرہ ایسے لوگ کتمانِ حق کے مرتکب۔
اسلامی دنیا کا دو حصوں میں اس طرح تقسیم ہونا کہ ایک حصے میں حضرت علی ؓ
کو اور دوسرے حصے میں حضرت امیر معاویہ ؓ کو باقاعدہ خلیفہ مانا اور امیر
المومنین کہہ کر پکارا جانا ، کیا ان مقدس ہستیوں کا جنہیں زبان نبوت ؐ
ہدایت کے ستارے قرار دے، کسی ایسے حکم کے ترک پر اجماع ہو سکتا ہے، جو فرض
یا واجب ہو؟ نہیں اور یقیناًنہیں۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ پور ی اسلامی
دنیا کا ایک امیر اور ایک ریاست کے تحت ہونا فرض یا واجب ہرگز نہیں۔ ہاں
اگر یہ ممکن ہو تو ایک مستحسن صورت ضرور ہو سکتی ہے۔ لیکن اس صورت کے حصول
کے لئے امت میں خون ریزی، جنگ و جدل، قتل وغارت سراسر باطل ٹھہرے گی۔
اگر 'ایک امت ایک ریاست‘ والی بات مان لی جائے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب
یہی بنتا ہے کہ اسلام کا تصور حکومت اپنے دور عروج میں بھی ناقابل عمل
ٹھہرا۔
کیونکہ تاریخ سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کسی کے حیطہ خیال میں گھر کر جانے
والا یہ ایک وہمہ تو ہو سکتا ہے، کہ دورِ خلافت میں امت ایک ہی امیرکے تحت
رہی. لیکن حقیت کو اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ کیونکہ دور خلافت کی ان پونے
چودہ صدیوں میں، جن میں خلافت راشدہ کی چوتھائی صدی، خلافت بنو امیہ کی ایک
صدی، بنو عباس کی ساڑھے چھ صدیاں اور خلافت عثمانیہ کی چھ صدیاں شامل ہیں ـ
ایک امیر کے تحت قائم رہنے والی ایک عالمگیر ریاست کا دورانیہ صرف ایک سو
سولہ سال ہی رہا۔ ........ (جاری ہے )
|