سال ِ نو میں سالِ گذشتہ کا محاسبہ

 وقت ، ایک بہتا ہوا دریا ہے ۔ایسا دریا جو ہمیشہ بہتا رہتا ہو۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔گردشِ لیل ونہار کا اشاریہ ہے۔ اقبال نے کیا خوب عکاسی کی ہے۔
سلسلہ ء روز وشب ، نقش گرِ حادثات
سلسلہ ء روز وشب ، اصلِ حیات وممات

یہ وقت کاسلسلہ ہے جو کبھی رکتا نہیں ہے،خواہ زلزلہ آئے،یا آسمانی بجلی گرے یا پانی اور ہواکتنا ہی طوفان اُٹھائے۔سکنڈ سے منٹ، منٹ سے گھنٹہ اور پھر دن، مہینے اور سال ۔۔یہ سفر یو ں ہی جاری رہتا ہے ۔ جنوری میں سال شروع ہوتا ہے ۔ہم نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔ پھرپورے سال ہم موج مستی میں غرق، اپنی من مرضی کرتے،’ وقت‘ کو اپنے قدموں تلے روندے رہتے ہیں لیکن دسمبر کے آتے ہی منظر بدل جاتا ہے۔ وقت ہمیں روندتا ہوا بے رحمی سے گذرتا، خدا حا فظ کہتا، منہ چڑا تا ،چلا جا تاہے۔ ہم ہوش میں آکر وقت کے پیچھے بھاگنے اور اسے پکڑ نے کی سعیٔ ناکام کرتے رہتے ہیں۔ دسمبر ہمیں احساس دلادیتا ہے کہ ہم نے کتنی بیش قیمت چیز کو گنوا دیا ہے۔ جدھر دیکھئے، ایک افرا تفری کا عا لم ہو تا ہے۔

نیا سال، یعنی اکیسویں صدی کا ایک سال اور گذرا۔ نیا زمانہ ۔اب آئی ٹی اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ دنیا چھوٹی سی اسکرین میں سما چکی ہے۔ مو بائل نا می یہ چھو ٹا سا آلہ اپنے اندر نئی نئی دنیا ؤں کو بسائے دینا کا اہم ترین آلہ بن چکا ہے۔ ریلوے،ہوائی جہاز کا ٹکٹ، ٹیلیفون، بجلی کی بلنگ، بینکنگ، شاپنگ، کارو باری ڈیل، سے لے کر پڑھائی تک ہر کام میں موبا ئل ہماری مدد کرتا ہے۔ اتنی چھوٹی سی مشین میں دنیا کے سمٹ آ نے کے بے شمار فوائد ہیں۔ آپ کہیں ہوں، آپ کا کوئی ضروری کام، اب رکے گا نہیں، کوئی فارم ڈاؤن لوڈ کرنا ہو، فارم بھر کر جمع کرنا ہو موبائل آپ کی ہر جگہ مدد کرے گا۔ یہ سب I Tکی مدد سے ہوا ہے۔ یہ ایک انقلاب ہے۔ اس انقلاب کو مزید استحکام اور وسعت دینے کا کام سوشل نیٹ ورکنگ یعنی سوشل میڈیا نے کیا ہے۔ پہلے تو میڈیا ہی کم معاون تھا کیا؟ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی آئی ٹی کے سبب بہت زیا دہ تیز، بہتر، اثر دار اور پر کشش ہو گیا ہے۔ وائی فائی نے نیٹ ورکنگ کو خوب سے خوب تربنا دیا ہے۔ سماجی،سیاسی زندگی میں ایک انقلاب سا آگیا ہے۔انتخابات میں پارٹیاں اور امید واراب ان نئے میڈیا کا بہتر استعمال کر رہے ہیں۔ہر پارٹیاب انٹر نیٹ ر موجود ہے۔وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی بات اور پیغام ایس ایم ایس اور ای میل سے ارسال کرنے لگے ہیں۔عام آدمی تک جب وزیر اعظم کا میل پہنچتا ہے تو وہ خوش ہو جا تا ہے ۔یہ اکیسویں صدی کا کمال اور انقلاب نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک مشہور شعر ہے ؂
اب کے بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

آج سے بیس پچیس سال قبل تک یہ شعر ہر جدا ہونے وا لے شخص کی زبان پر ہو تا تھا۔ لیکن سو شل میڈیا نے ایسے اشعار کو غلط ثابت کردیا ہے بلکہ خواب کا حصہ بن چکے۳۰،۴۰ سال پرا نے کھوئے ہوئے لوگوں کو سوشل میڈیا نے ملوادیا ہے۔ سماجی سطح پر ہر شخص دور دراز کے دوستوں سے ہر وقت رابطے میں رہتا ہے۔ شادی، بیاہ، مبارک باد، ہائے، ہیلو، پیار محبت، پسند نا پسند((Like,unlike ، شیئر ،کمنٹ، تصویروں کا لین دین، کور اور پرو فائل کی تصویروں کے بدلتے رنگ، اپنی زندگی کے ہر لمحے، ہر کروٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے رابطے کی ایک نئی دنیا آباد ہوئی ہے۔ فیس بک، وہاٹس اپ سے لے کر ٹواور اورو تک رابطے کا نیا جہان آباد ہوا ہے۔ اس جہان کی تعمیرو تشکیل میں اردو اخبارات کے ای ایڈیشن، ادبی میگزین، پورٹل، ای میگزین،ای بکس، فیس بک کے ادبی صفحات اوروہاٹس اپ نے اردو کے فروغ میں حیرت انگیز کار نامے انجام دیے ہیں۔ اب کسی مضمون ،غزل اور افسا نے کو سینکڑوں نہیں ، ہزاروں لوگ پڑھتے ہیں۔مقبو لیت کا نیا نشہ بازار میں آچکا ہے۔ پہلے نئی کتاب کا سر ورق لوڈ کیا جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ کتاب کے مندرجات لوڈ کیے جاتے ہیں۔ ایک کتاب مہینوں تک ہزاروں لوگوں میں لائک،شیئر اور کمنٹ کے شانوں پر سفر کرتی مقبولیت کے نئے آسمان سر کرتی رہتی ہے۔ تھوڑی سی دانشمندی،حاضر دماغی اور کمپیو ٹر،نیٹ وغیرہ کی مہارت سے عالمی شہرت حاصل ہو جاتی ہے۔

اخبارات میں،انقلاب،راشٹرسہارا، اودھ نامہ ،ہماراسماج،سیاسی تقدیر،اخبارِ مشرق،خبردار جدید،روزنامہ خبریں،رہنمائے دکن، صحافت،آگ،،قومی تنظیم، متاعِ آخرت،منصف،سیاست ،سالار،جدیدسالار، (پاکستان)جنگ، نوائے وقت،روزنامہ خبریں وغیرہ کے انٹر نیٹ ایڈیشنز نے۲۰۱۵ میں خاصی دھوم مچائی۔۔اردو اخبارات نے دہلی اور بہار انتخابات سے لے کر دادری سانحہ،وزیر اعظم کے بیرونی ممالک کے دورے،عدم روداری تحریکات،فرانس بم دھماکے،آئی ایس آئی کے ٹھکانوں پر انگلینڈ اور فرانس کی بم باری،کے ساتھ ساتھ مسلم مسائل کو بخوبی منظرِعام پر لانے کا کام کیا ہے۔

اردوسخن ڈاٹ کام،شعر و سخن ڈاٹ کام،،یونیورسل اردو پوسٹ ،اردو نیٹ ڈاٹ کام ،اردو دوست ڈاٹ کام،عالمی پرواز ڈاٹ کام،لن ترانی ڈاٹ کام،اردو منزل ڈاٹ کام استحکام کے ساتھ اردو کی خدمات کرتی رہیں۔تو ریختہ ڈاٹ کام،یونیور سل اردو پوسٹ ڈاٹ کام،بصیرت آن لائن اردو وغیرہ نے اردو کے پرچم کو بلند رکھا۔ رانچی کے جمہوریت ٹائمز نے انٹر نیٹ پر مسلسل شائع ہو کرپہلے ای روزنامے کے طور پر مضبوط شناخت بنائی۔

فیس بک پر اردو افسانہ فورم،عالمی افسانہ فورم ،فسانہ گو،افسانہ سینیما،بازگشت،دریچہ،عالمی افسانوی کارواں،ادب ڈاٹ کام،اردو شاعری،اردو کمیونٹی،اردو ادب عالمی اردو ادب، عالمی اردو مرکز،عالمی دستاویز،عالمی میڈیا اینڈ جرنلسٹ ایسو سی ایشن،نشتر خانقاہی فین گروپ،ملک زادہ فین گروپ اور متعد د گروپ فیس بک پر اردو میں اپنی دنیا آباد کئے ہوئے ہیں ۔ان میں اردو رسمِ خط میں مختلف تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔اردو افسانہ فورم نے اس سا ل بھی ’’عالمی افسانہ میلہ‘‘ کا انعقاد کیا، اس سال ایک اور بات ہوئی ۔فکشن اور شاعری کے متعدد گروپ انتشار کا شکار ہوئے اور کئی نئے گروپس سامنے آئے۔سب نے افسانوی نشست ،افسانوی میلے ،مشاعرے ،شعری نشست ،طرحی مشاعرے منعقد کئے جس میں سینکڑوں افسانے،ہزاروں غزلیں شائع ہوئیں۔ہرتخلیق پر بے شمار کمنٹ(تبصرے) ،لائک اور شیئر ہوئے۔تبصروں پر تبصرے،یوں ایک طویل سلسلہ۔۔شروع ہوا۔

گوگل ،یا ہو اورجی میل پر بھی بزم ِاردو جیسی اردو کی کئی تنظیمیں ،اخبارات اور رسائل اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔

اردو ایسی زبان ہے جس میں ہر محاذ اور ہر حال میں ارتقا ء اور فروغ کی زبردست قوت ہے۔اور اردو نے انٹر نیٹ کے اس برق رفتار عہد میں بھی خود کو ثابت کیا ہے۔ اشاعت و طباعت کے معاملے میں بھی اردو نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،عرشیہ بپلیکیشنز،ایم آر بپلیکیشنز،فرید بک ڈپو،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،قومی اردو کونسل،نیشنل بک ٹرسٹ، وغیرہ کی اردو اشاعتوں نے اردو کے وقار کو عظمت بخشی ہے ۔

قومی اردو کونسل نے اس سال اردو کو کتابوں ،رسالوں کے علاوہ کئی اہم تحفے دئے ہیں۔اردو وکی پیڈیا، اردو یونی کوڈ، طلبہ کے لئے ڈریم پروجیکٹ،اور اسمارٹ فون پر اردو فونٹ میں لکھنا ،گذشتہ برس کے کاموں کے ساتھ نئے ڈائرکٹر نے اردو دنیا،فکر و تحقیق،بچوں کی دنیا کو صوری اورمعنوی اعتبار سے تبدیل کیا۔کونسل کے بینر تلے صحافت کے دوسو سالہ جشن قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شہروں میں منعقد ہوئے اور ہونے والے ہیں۔ عاالمی اردو کانفرنس کا انعقاد بعنوان ’’ اردو صحافت کے دو سو سال‘‘ فروری میں ہو نے والا ہے۔ اردو رسرچ اسکالروں کے لئے اسکالر شپ کااعلان ہوا۔ایک بالکل نیا منصوبہ "Urdu on Wheels" تیا ر ہو گیا ہے۔جس کے تحت ایک گاڑی میں اردو سکھانے کے جدید سامان سے لیس اردو ٹیچر ہوگا اور یہ گاڑی غیر اردو داں علاقوں میں مخصوص اوقات میں جا اردو سکھانے کا کام کرے گی۔

اس سال بہت سے معیاری قومی اور بین الاقوامی سیمینار، ورکشاپس، لکچرز کا انعقاد عمل میں آیا۔ انجمن ترقی اردو ہند، اردو اکادمی دہلی،بہار اردو اکادمی۔مغربی بنگال اردواکادمی،ساہتیہ اکادمی،اتر پردیش اردو اکادمی،مدھیہ پردیش اردو اکادمی،مسلم انسٹی ٹیوٹ ،کلکتہ ، شبلی کالج ،اعظم گڑھ ،سریندر ناتھ ایوننگ کالج، کلکتہ ،حمید یہ گرلس کالج، الہ آباد،ایم جی ایم کالج، سنبھل، کریم سٹی کالج ،جمشید پور ،شعبہ ہائے اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، اے ایم یو،دہلی یو نیور سٹی،مولانا آزاد یو نیور سٹی، خواجہ معین الدین چشتی عربی فارسی یو نیورسٹی،کشمیر یونیور سٹی،چودھری چرن سنگھ یونیور سٹی،لکھنوء یونیور سٹی ،ممبئی یونیورسٹی،پنجابی یونی ورسٹی،پٹنہ یونیورسٹی،کلکتہ یونیور سٹی،ادے پور یونی ورسٹی،وغیرہ میں ادبی سر گر میاں جاری رہیں۔

ادبی رسائل میں آج کل،ایوانِ اردو،شاعر،اردو ادب، زبان وادب،اجرا،روشنائی،دیدہ ور،چہار سو، ارتقاء،اردو دنیا،فکروتحقیق،روحِ ادب،فروغ ِادب،نیا دور،لاریب،آمد،،سب رس،جہان ِاردو،سبقِ اردو،اسباق،کتاب نما،سہیل،ادبی گزٹ،تہذیب الاخلاق،پیش رفت،شاندار،جہاں نما،مژگاں،بیباک ،اسپین،اردو نامہ،اردو چینل،افقِادب دربھنگہ ٹائمز وغیرہ رسایل مستقل شائع ہو رہے ہیں۔بچوں کی دنیا،امنگ،پھلواری،گل بوٹے،پیامِ تعلیم،جیسے رسائل بچوں کی ذہنی تربیت کر رہے ہیں۔ثالث،کاوش،عالمی انوارِتخلیق،امیدِ سحر، فکر و تحریر،راوی،تعلیم، احساس(جرمنی)اجمال( پاکستان) جیسے نئے رسائل پابندی سے اپنے سفر پر گامزن ہیں۔

گذشتہ برس کئی اہم ناول ،’نالہء شب گیر‘(مشرف عالم ذوقی)،’چاند ہم سے باتیں کرتا رہتا ہے‘(نورالحسنین)’،گؤ دان کے بعد‘(علی ضامن) ’جس دن سے‘( صادقہ نواب سحر)منظر ِعام پر آئے۔متعدد افسانوی مجموعے، افسا نوی مجمو عے میں مظہر الزماں خاں کا مجمو عہ’خود کا غبار‘، بشیر ما لیر کوٹلوی کا مجمو عہ’’ زندگی زندگی‘‘، سید احمد قادری کا مجمو عہ،ملبہ‘‘، احمد صغیر کا مجموعہ’ کہا نی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘،اختر آ زاد کا مجمو عہ’’ خدا سے سوال‘‘،مہتاب عالم پرویز کا مجمو عہ’’ باز گشت‘‘، وسیم حیدر ہاشمی کا مجمو عہ’’گو ہر پس انداز‘‘ ، راجیو پرکاش ساحر کا مجمو عہ ’’ایک بھیگے لمحے کی لمبی سڑک‘‘نسرین ترنم کا مجمو عہ’’ ابر‘‘، وحشی سعید کا’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ ‘‘راقم کا مجموعہ’’ عید گاہ سے واپسی‘‘ ڈاکٹر اخلاق گیلانی کے افسانچوں کا مجموعہ ـ’’ سچائیاں‘‘،نذیر فتح پوری کی بچوں کے لئے کہانیاں’’پشاور کی۱۷کہانیاں‘‘ منظر عام پر آئے۔شعری مجموعے ،چنیدہ ( مظفر حنفی کا شعری انتخاب )سرِکنارہ ء شام (رئیس الدین رئیس )،بوندسمندر(اسلم بدر)گیت سناتی ہے ہوا(راشد انور راشد)درد کارشتہ(ڈاکٹر یو گیندر بہل تشنہ)ہست اشعار(ہر بنس سنگھ تصور)چہار بیت(سلیم خاور)رختِ سفر( رشد عارفی)،شکستِ خواب(محمود عالم)صبح ہونے تک(مشتاق احزن) سانسوں کے پار(خلیل مامون )گوہرِشہسوار(مرتبہ : سید مبارک علی)پرِشکستہ(افسر کاظمی)گیت بھی تو،غزل بھی تو(سعید رامش),سلسلے سوالوں کے (کہکشاں تبسم )پتھر میں کھدی ہوئی کشتی(صدیق عالم)،نصابِ آگہی (ارشد غازی ارشد )،احساس (سلیمان فراز حسن پوری)، پسِ غبار(یاور وارثی)،میرا لہجہ (نسیم فائق)،دیوانِ سرور(مرتبہ:مجیب شہزر)،دیوانِ سیفی حسن پوری( سلیمان فراز حسن پوری) ،آخری وقفے کاکھیل(شمس ندیم)، شرارِسنگ ( ظفر انصاری ظفر)،شہرِ رباعی (عادل حیات )شائع ہوئے۔

تنقیدی وتحقیقی کتب میں مولانا الطاف حسین حالی کی یاد میں( مرتبہ : اشتیاق احمد ظلی)،نو طرزِمرصع(مرتبہ: پروفیسر ارتضیٰ کریم)،گریز( مرتبہ: پروفیسر ارتضیٰ کریم) ،متن معنی اور تھیوری(پروفیسر قدوس جاوید) اردو افسانے کا سفر(ڈاکٹر نجمہ رحمانی)آثار وانوار(اسلم بدر)،شکست کی آواز:نئے اطراف کی طرف(آفتاب احمد آفاقی)،اردو ناول کا تنقیدی جائزہ ۱۹۸۰ کے بعد( ڈاکٹر احمد صغیر)، راشد الخیری ؛فکر و فن ( ڈاکٹر محمد اکبر) ،تنقیدی جہات ( نسیم احمد نسیم )یاس یگانہ چنگیزی(وسیم فرحت کارنجوی)خورشید الاسلام: ایک شاعر،ایک ناقد(ڈاکٹر ظفر گلزار)،کرشن چندر:افکار ونظریات(ڈاکٹرفخر الکریم)اردو افسانے میں خواتین کاحصہ(ڈاکٹر محمد مرتضیٰ)،قرۃ العین حیدر کا ناول چاندنی بیگم:ایک مطالعہ(ارشاد سیانوی)مقال(آفاق عا لم صدیقی)،اردو کے چند فکشن نگار : تنقید و تجزیہ ( ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی) ،زندگی نامہ : گوپی چند نارنگ ( مرتبہ : ڈاکٹر جمیل اختر)مطالعاتی زاویے(ڈاکٹر حناآفریں)،اقبال اور دبستانِ شبلی ( ڈالٹر محمد الیاس اعظمی )،مشرقی پنجاب کاادبی منظر نامہ(ڈاکٹر محمد اسلم)،مشترکہ پنجاب کے اردو اخبارات(ڈاکٹر محمد اسلم)ریو تی سرن شرمابحیثیت ڈرامہ نگار(تسلیم جہاں) ،تفہیم و تقلید(عاصم شہنواز شبلی)،ظفر اوگانوی:نقوش و آثار(مرتبہ:عاصم شہنواز شبلی)،معنی نما (ہمایوں اشرف)،تدوینِ تاریخ ادب اور پروفیسر وہاب اشرفی(عبد القیوم ابدالی)،اور پورے ،آدھے ،ادھورے( عابدسہیل کے خاکے ) نقشِ بر آب(سہیل انجم کے خاکے) وغیرہ کتب شائع ہوئیں۔

2015 رخصت ہو چکا ہے ۔اس کا محاسبہ اور نئے سال2016ء کا شاندار استقبال ہو نا چاہیے اور یہ استقبال صرف زبانی نہ ہو بلکہ ہم سب اردو کی خدمت کے نئے منصو بے بنائیں۔اردو کو نئی نسل تک پہنچانے کا انتظام کریں۔کیوں کہ اردو کی ترقی کا سارا دارو مدار اردو رسم الخط میں اردو کو لکھنا اور پڑھناہے۔ اور یہ جب ہی ممکن ہے جب اردو رسمِ خط جاننے والوں کی نئی پود،نسل در نسل اردو کو ملتی رہے،یعنی اردوسکھانے کا عمل منصوبہ بند طریقے کے سے مستقل جاری رہنا چاہئے۔ اس کیلئے ہم سب اردو والے،اردو ادارے،اردو اکیڈمیاں،شعبہ ہائے اردو،ناشرین،قومی اردوکونسل،اردو اسکول ،کالج ،یونیور سٹی اور اردو میڈیا۔۔ سب کی ذمہ داری ہے، اردو کی بقاء میں حصہ لینا۔ہم سب اپنی اپنی جگہ کوشش کریں گے تو اردو ہمیشہ ہمارے قدم بہ قدم ہوگی۔
Dr Aslam Jamshed Puri
About the Author: Dr Aslam Jamshed Puri Read More Articles by Dr Aslam Jamshed Puri: 3 Articles with 4382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.