شعبہ بینکاری کے فوائد و نقصانات
(Hafeez Khattak, Karachi)
شہر قائد سمیت ملک بھرمیں شعبہ بینکاری
ملکی تاریخ میں تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ترقی کا یہ سفر قیام
پاکستان سے تاحال سامنے نہیں آیا ۔ عالمی بینک اور ملک کے مرکزی بڑے بینک
کے شرائط و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے شعبہ بینکنگ اپنے اہداف حاصل کر رہا ہے۔
شہر قائد میں جہاں مرکزی بینک پی سی بی(پاکستان اسٹیٹ بینک) کا دفتر جس
شاہراہ پر قائم ہے اسی شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ پر دیگر متعدد بینکوں کے
مرکزی دفاتر بھی موجود ہیں۔اسی چندریگر روڈ پر کئی نامور ٹی چینلز اور
اخبارات کے بھی مرکزی دفاتر قائم ہیں جو تندہی کے ساتھ ملک کی خدمت کیلئے
اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ملک میں اس وقت اسلامی بینکاری کا رجحان تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
میزان بینک کے اسلامی بینکیں میں سفر کے آغاز کے بعد 5عد د اور اسلامی بینک
قائم ہوچکے ہیں جبکہ دیگر بینک جن کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے ان میں سے
اکثریت نے بھی اسلامی بینکاری شروع کر رکھی ہے۔ یہاں یہ عرض بھی ضروری ہے
کہ بیمہ (انشورنس)جس کی اسلام میں اجازت نہ ہونے کے سبب اسے حرام قرار دیا
گیا ہے تاہم ملک میں مکمل اسلامی نظام نہ ہونے کے باعث اس وقت بھی
معتددانشورنس کمپنیاں اپنے کاموں میں مصروف عمل ہیں اور صرف مصروف عمل ہی
نہیں کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں۔ انشورنس کمپنیوں کو حکومت کی مکمل حمایت
اس کی بنیادی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔ انشورنس کمپنیوں کے مد مقابل تکافل کی
صورت میں ان کا متبادل نظام لایا گیا جس کی ابتداء اور آگے بڑھانے سے لیکر
کامیابی تک پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی
صاحب کی ہے۔ اس تکافل کو ملنے والی حمایت اور پذیرائی کے سبب اسلامی بینکنگ
میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بینکوں کے صارفین سمیت دیگر عام عوام نے بھی جو
کہ انشورنس کی جانب نہیں جاتے تھے وہ بھی اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے تکافل
کے ممبر بنے اور بینکوں میں بھی تکافل کا آغاز ہوا۔ اسلامی بینکوں نے بھی
اس تکافل کو خوب دوام بخشا اور اپنے نئے اور پرانے صارفین کو اس مین ضم
کرتے ہوئے اپنے کاموں کو آگے بڑھایا ۔
تکافل کے معاملے سے قطع نظر سردست بات بینکوں کی جاری تھی لہذا اسی جانب
آتے ہوئے یہ کہیں گے کہ شعبہ بینکاری میں دوسرے سیشن کے اختتام کے موقع پر
نئے عیسوی سال کا آغاز ہوتا ہے،جس کی تیاریاں دسمبر کے آغاز ہی میں شروع کر
دی جاتی ہیں ۔ لہذا جیسے ،جیسے دسمبر اپنے اختتام کی جانب بڑھتا ہے ویسے ہی
نئے سال کے آغاز پر جنوری کا استقبال کرنے کا اہتمام بھی گرم جوشی کے ساتھ
جاری رہتا ہے۔31دسمبر کے بعد یکم جنوری کے دن بینکوں میں عام تعطیل ہی ہوتی
ہے۔ اسلامی اور غیر اسلامی بینکوں میں اس تعطیل کے سبب ان کے اے ٹی ایم کی
سہولتیں برائے نام رہ جاتی ہیں۔ جس سے صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ دونوں سطح کے بینکوں کی جانب سے اپنے صارفین کو ایس ایم ایس یا
ذرائع ابلاغ کے یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ یکم جنوری کے روز وہ بینکوں کا
رخ نہ کریں ۔ خاص طور پر اے ٹی ایم کی سہولت سے مستفیض ہونے کی کوشش نہ
کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ایسے اے ٹی ایم رکھنے والے جن کے کے اے ٹی ایم کارڈ
کی تاریخ 31دسمبر کو ختم ہونے جارہی ہے انہیں بھی اس ضمن میں کوئی اطلاع
نہیں دی جاتی جس کے سبب وہ صارف کہیں جب اپنا کارڈ استعمال کیلئے اے ٹی ایم
مشین میں ڈالتے ہیں تو اے ٹی ایم اسکرین پر انہیں یہ بتا یا جاتا ہے کہ ان
کا اے ٹی ایم کارڈ فوت(expire) ہوچکا ہے لہذا وہ اپنے بینک سے رابطہ کریں ۔
بینکوں کے صارفین کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو کہ انگریزی سے قدرے کم
متعارف ہوتی ہے لہذا انہیں اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے مشین کی اس بات کو نہ
سمجھ آنے کے سبب اس بات کا گمان زیادہ ہوتا ہے کہ یہ اے ٹی ایم مشین ہی
خراب ہے اس لئے دوسری مشین کو دیکھا جائے جہاں کارڈ ڈالنے اور ابتدائی
معلومات مہیا کرنے کے سبب جب وہ رقم کے خانے کو بھی بھرتے ہیں تو ان کا
کارڈ ہی وہ مشین اپنے اندر رکھ لیتی ہیں اور صارف اس لمحے اس مشین کو
دیکھتے اور انتظار کرتے تھک کر سیکورٹی اہلکار کو پیش آنے والا واقعہ
بتاتاہے جس پر اسے سمجھایا جاتا ہے کہ اب اسے انتظار کے سوا کچھ نہیں کرنا
۔ کئی روز انتظار کے بعد جب وہ مذکورہ بینک جاتا ہے اپنا اے ٹی ایم ارڈ
لینے کیلئے تو اس سے عملہ اصلی شناختی کارڈ کا تقاضہ کرتا ہے ، شناختی کارڈ
نہ ہونے کے سبب کئی دیگر مسائل اور درپیش ہوتے ہیں ۔ اس وقت اگر شناختی
کارڈعملے کو دیکھانے کے بعد اگر کارڈ اسے لوٹا یا جاتا ہے تو صارف کے چہرے
پر مسکراہٹ ابھرتی ہے اور اگر کارڈ کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے تو اسے کہا
جاتا ہے کہ اب اسے اس بینک کی شاخ جانا ہے جہاں اسکا اکاؤنٹ ہے وہاں پر
جاکر ایک نئے کارڈ کے حصول کیلئے اسے ایک نیا فارم کارڈ بھرنا ہوگا۔ صارف
اپنا قیمتی وقت نئے کارڈ کے حصول کیلئے وقف کرتے ہوئے جب بینک میں جاتا ہے
تو وہاں اسے مزید انتظار اور بینک کے مخصوص طریقہ کار کو پوراکرنے میں
لگادیتا ہے۔ جسکے بعداس کو یہ کہا جاتا ہے کہ اب نیا کارڈ اس کے گھر کے پتے
پر ہی آئیگا اور یہ کام 5سے 7 دنوں میں ہوگا۔ بظاہر بینک نے صارف کی خدمت
کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرڈالی تاہم صارف کارڈ کے مشین میں پھنس جانے
کے عمل سے لے کر نئے کارڈ کے حصول تک جس کیفیت سے گذرا یہ وہی صارف ہی بہتر
جانتا ہے۔ بینکنگ سیکٹر اپنے صارفین کو سہولیات پہنچانے کے دعوے تو بارہا
کرتے ہیں ، سود سے بھرے قرض کی فراہمی سے لے کر اس کی واپسی تک اور یوٹیلٹی
بلز کی وصولیابی سے لیکر اے ٹی کارڈ کی دستیابی تک بڑے اوچھے دعووں کی
تشہیر جاری رہتی ہے اس مقصد کیلئے ٹی وی چینلز اور اخبارات پر آنے والے
اشتہارات سب ہی کے سامنے ہیں۔
بینکنگ کے شعبے کی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بازاوں
، ویرانوں ، صاف وشفاف کالونیوں ، اور مصروف ترین شاہراہوں پر بینکوں کی
چھوٹی اور بڑی شاخیں نظر آتی ہیں ۔شاخوں کا نظر آنے کے ساتھ عوامی خدمات
بھی کامیابی کے ساتھ جاری رہتی ہیں۔
ملکی اداروں میں ہونے والے نقصان کا ذکر عام ہوتا جارہا ہے ۔ حکومت اپنے
ادارے بھی مخصوص انداز میں بیچ کر اداروں کے کاموں کو آگے بڑھارہی ہے۔
حکومتی اہلکاروں کے نزدیک کسی ادارے میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کیلئے
یہ ازحد ضروری ہے کہ اسے اونے پونے بھاؤ کے تخت بیچ دیا جائے۔ عوام کو اس
عمل سے کس قدر تکلیف کاسامنا کرناپڑتا ہے اس سے کسی بھی حکومت کو کوئی غرض
و غایت نہیں۔ تاہم اس تمام تر صورتحال کے باوجود شعبہ بینکنگ ایسا ہے کہ یہ
جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ، پھیلتا اور پھولتا جارہا ہے۔
بینکنگ سیکٹر کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ اپنے صارفین کو سہولیات پہنچانے
کیلئے اپنے اقدامات کا جائزہ لیں۔ صارفین کی شکایات کو سننے ، سمجھنے اور
انہیں حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ہی
مرکزی بینک ،پاکستان اسٹیٹ بینک کو بھی چاہئے کہ وہ نجی بینکوں کی کارکردگی
میں اس بات کا مشاہدہ کریں کہ ان بینکوں نے عوامی شکایات کو کس حد تک حل
کیا ہے ۔ ان کے خلاف عوامی شکایات و ردعمل کا طریقہ کار کہاں تک درست انداز
میں آگے بڑھا ہے۔ نئے سال کی آمد پر بینک کا صارفین کیلئے ہونے کا عمل ہو
یا عید کے مواقعوں پر نئے نوٹوں کی بات اور مہیا کرنے کی ذمہ داریاں یا
صارفین کے دیگر معاملات ، تمام تر کاموں کی دیکھ بھال و جانچ پڑتال کی اصل
ذمہ دار بحرحال مرکزی بینک ہی ہے۔ مرکزی بینک کا کردار اس تمام تر صورتحال
میں اہمیت کا حامل ہے۔
شہر قائد کی 2کڑور آبادی کا معاملہ ہو یا ملک کی 18کڑور آبادی کا ، دودرجن
سے زائد بینکوں نے اپنے صارفین کی خدمات کواہمیت دیتے ہوئے اقدامات کو عملی
صورت تک پہنچانا ہے اور پاکستان اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے اپنے کردار کو
مدنظر رکھتے ہوئے نمایاں کارکردگی پر نہ صرف نجی بینکوں کو ان کی خدمات کے
عیوض نوازانا ہے بلکہ ملنے والی شکایات کو بھی حل کرتے ہوئے بینکاروں کو
اپنی کاردگی درست انداز میں آگے بڑھانے پر یکسو رکھنا ہے۔تاکہ ملک تیزی کے
ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل
ہوجائے۔
|
|