مسجدِ اقصیٰ ہماری راہ تک رہی ہے
(Rameez Ahmad Taquee, Karachi)
ابتداءِ آفرینش سے ملک شام برابر مبارک
ومحترم چلاآ رہا ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی خلقت میں بے پایاں رحمت
وبرکت کا رازپنہاں کر رکھاہے،جہاں اس نے اس کے باطن کو نرالا بنایاہے ،
وہیں اس کو ظاہری حسن سے بھی خوب خوب نوازا ہے، اس کی فطرت گویا قدرتی ہے،
انسانیت کی حسنِ تخلیق کے ساتھ اس کی جغرفیائی حیثیت بھی نہایت دلکش اور
دیدہ زیب ہے،مکہ مکرمہ میں کعبۃ اللہ اس کائناتِ ارضی کا محور اور مرکز ہے
، مگر انسانیت کا مرکز یہی سرزمین ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بے شمار انبیاء علیہم
السلام اس سرزمین کی طرف مبعوث ہوئے۔ قدیم زمانوں میں ملک شام ان تمام
سرزمین کو محیط تھا جو اب لبنان، فلسطین، اُردن اور شام ان چار ممالک میں
منقسم ہوچکی ہے۔ ملک شام میں خصوصا فلسطین اور اس میں بھی شہرِ قدس کو کچھ
زیادہ ہی مرکزیت حاصل رہی ہے،اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وبرکت کامسکن شہرِ
قدس میں جس پر رحمت کے فرشتے پر پھیلائے ہوئے، خدائے وحدہٗ لاشریک کی گل
کاریوں سے جس کا دامن مزین اور بے شمار باغوں کی کلیوں کی نرم وخرام
خوشبوؤوں سے جس کی محفل معطر، جبلِ زیتون کی طرف چہار دیواریوں کے اندر
۱۴۹۹ فٹ لمبا اور ۵۹۵فٹ چوڑا احاطہء حرم کہلاتا ہے۔ حرم شریف کے اندر مسجدِ
اقصیٰ اور مقامِ براق ہے،نیزاس مسجد کے صحن میں حضرت سلیمان ؑ کی قبرِ
مبارک، حضرت زکریا کا محراب، مقامِ داؤود، قید خانہء جنات ،محراب حضرت مریمؓ
، تخت حضرت سلیمان، سلطان عبدالحمید ، قبر مولانامحمد علی جوہر وغیرہ کے
علاوہ دیگر مزارات اور زیارات بھی ہیں۔ یہ مسجدروئے زمین پر تعمیر ہونے
والی مسجدوں میں دوسری مسجد ہے، اس مسجد کی بابرکت تعمیر خانہء کعبہ کی
تعمیر سے چالیس سالیس سال بعد روبہ عمل آئی، حضرت آدم سے لے کر سیدنا محمدﷺ
تک تمام انبیاء علیہم السلام اس کی گود میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سجدہ
ریز ہوئے ہیں ، معراج کے سفر پر آپ کی پہلی منزل بھی یہی مسجد اقصیٰ تھی،
اسی مسجد میں آپ ﷺ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کا شرف بھی حاصل
کیا ہے۔ اس کی قدسیت وفضلیت کا احساس خود کلامِ الٰہی سے ہوتا ہے جس میں
اللہ تبارک وتعالیٰ نے برکت ورحمت کو اس کا جزء لاینفک بتلایا ہے، ارشاد
باری ہے: سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی
بارکنا
حولہ( القرآن، بنی اسرائیل،آیۃ:۱) نیز یہ وہ مسجد ہے جو ابتداء اسلام میں
مسلمانوں کا قبلہ رہی ہے، یہ وہی خانہء خدا ہے ،جس میں ایک وقت کی نماز کا
ثواب پانچ سو نماز کے بقدر ہے اوریہ وہی بیت اللہ ہے جس کے نمازیوں کے
سلسلہ میں حضرت سلیمان ؑ نے مغفرت کی دعاء فرمائی تھی کہ اے اللہ ہر اس شخص
کی مغفرت فرمادیجیئے جو اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے، غرضیکہ یہ
وہ مقدس مقام ہے جس کی قدسیت مسلم ہے اور ہردور میں اس کو عزت واحترام کی
نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
اس پوری کائناتِ انسانی میں یہ واحد ایسا مکان اور جگہ ہے، جس کے بابت دنیا
کے تین عظیم ترین مذاہب ؛اسلام ، عسائیت اور یہودیت کا یکساں نظریہ ہے، ان
تینوں مذاہب کے پیروکار اس مقدس گھر کو نہایت عزت اور احترام کی نظر سے
دیکھتے ہیں اور ہر ایک اس مقدس گھر کو اپنانے میں صدیوں سے باہم دست
وگریباں ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کو چھوڑ کر ہر کوئی اس کے حصول میں
انسانیت کی حرمت اوراس کی عظمت کی حدود سے بھی گذرگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان
دونوں میں سے جس کا بھی شہرِ قدس پر قبضہ ہوا ،وہ وہاں کے باشندوں پر قہر
بن کر نازل ہوئے، ان کے جان ومال اورعزت وآبرو کی دھجیاں اڑادیں، یہاں کی
گلی کوچے میں انسانی لاشوں کے انباڑ لگادیئے، بیت المقدس کی درودیوار کو
شراب اور انسانی خون سے ناپاک کردیا، اس رحمت وبرکت والے مقدس شہر میں بھی
عورتوں کو ان کے گوہرِ عصمت سے محروم کردیا، مگر اس کے برعکس جب کبھی
مسلمان اس سرزمین پر اپنا حقیقی حق لے کر وارد ہوئے تو انہوں نے اس کی اور
اس کے باشندے کی حرمت کا پاس ولحاظ رکھا،کسی بھی مسلم فاتح خواہ وہ سیدنا
عمر فاروق اورصحابیِ رسول شرحبیل بن حسنہ ہوں یا سلطان صلاح الدین ایوبی ہر
ایک نے نہ صرف ظالموں کی عام معافی کا اعلان کیا، بلکہ ان پر احسان واکرام
کے ساتھ ساتھ خانہء محترم کی بھی خوب خوب خدمت کی اور اس کی عظمت ورفعت اور
قدسیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آنے دیا۔آئیے ذرا تاریخ کی روشنی میں
تاریخ کا آئینہ لگا کر اس خانہء مقدس کی سرگشت کا ایک سرسری مطالعہ کرتے
ہیں اور اس کی مصیبت کی کہانی سے اپنے لہو گرم کرتے ہیں۔
جیسا کہ یہ ذکر کیا گیا کہ اس مسجد کی تعمیر خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس
سال بعد روبہ عمل آئی، مگر مرورِ ایام اور حوادث کے جھکڑ سے اس کی بناء
تقریبا معدوم ہوچکی تھی، جس کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے حضرت داؤود علیہ
السلام نے پہل کی؛ مگر بذریعہ خواب ان کو یہ اطلاع دی گئی کہ اس مقدس گھر
کی تعمیر آپ کے صاحب زادے حضرت سلیمان ؑ کے ذریعے ہوگی؛ اس لیے انہوں نے اس
کو ملتوی کردیا اور جب آپ کی وفات ہوئی اور حضرت سلیمانؑ آپ کے جانشیں بنے
اورنبوت کے تاج سے ان کو سرفراز کیا گیا تو انہوں نے اس کی تعمیر کرائی اور
تقریبا دولاکھ معماروں اور مزدوروں کی مسلسل محنت اور تگ ودو سے اس مقدس
گھر کی تعمیرعمل میں آئی،ایک طویل مدت تک یہ مقدس گھراسی نشان پر باقی رہا،
یہاں تک جب حجاز سے اسلام کی پَو پھوٹی تو اس وقت مسجد اقصیٰ پر عیسائیوں
کا قبضہ تھااور انہوں نے ہر طرح سے اس کی فضاء کو مکدر کردیا تھا، اس کے
پاکیزہ ماحول کو شراب وشباب میں رنگ دیا تھااور یہ بہ زبانِ حال مسلمانوں
کو اپنی زبوں حالی کی داستان سنارہی تھی،چنانچہ سن ۱۷ھ/ ۶۳۸ء میں حضرت عمر
فاروقؓ کے دورحکومت میں حضرت شرحبیل بن حسنہؓ نے اس کو فتح کیا اور اس کی
رونق کی بحالی کے لیے حضرت عمرؓ نے اس کے منارہ وغیرہ کی تعمیر کروائی۔ پھر
خلیفہء رابع حضرت علیؓ اور اموی خلافت کے اخیرتک کسی یہودی اور عیسائی کو
اس کی طرف رو کرنے کی جرات نہ ہوئی، مگر اُمَوی خلافت کے اخیر میں مروان بن
عبدالملک نے اپنے دورِ حکومت ۷۶ھ / ۶۴۶ء میں جب اس کی ازسرِ نو تعمیر
کروائی اور بطورِ خادم اس کی صفائی اور چراغبانی کے لیے یہودیوں کو اس میں
آنے کی اجازت دے دی، تو وہ درپردہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ لیکن جب
عمربن عبدالعزیزکی خلافت کا آغاز ہوا تو انہوں نے ان بدبختوں کے عزائم کو
محسوس کرلیااور ان کو مسجد سے نکال باہر کیا، مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور
تھاکہ جب اُمَوی خلافت کا چراغ گل ہوا اور خلفاءِ عباسیہ مسندِ اقتدار پر
فائز ہوئے، تو فاطمیوں نے سن ۶۶۹ء میں شام پر اپنا تسلط قائم کرلیا اور قدس
کو اپنے زیرِ نگیں کرلیا، چونکہ بدبخت یہودیوں کی فاطمیوں سے خوب جمتی تھی،
اس لیے انہوں نے ان سے سانٹھ گانٹھ کرنا شروع کردیااور قریب تھا کہ قدس پر
اپنا قبضہ جمالیں، سلجوقیوں نے بروقت مداخلت کی اور ۴۶۵ھ/ ۱۰۷۲ء میں مسجدِ
اقصیٰ کو فاطمیوں سے چھین لیا ، اسی اثنا کہ سلجوقی اور فاطمی باہم برسرِ
پیکار تھے، نصاریٰ کو اچھا موقع ملا، چنانچہ ۴۹۶ھ/ ۱۰۹۹ء میں مسلمانوں اور
یہودیوں کا قتلِ عام کرتے ہوئے قدس پر اپنا قبضہ جمالیااور اپنی حکومت کو
مستحکم کرنے کے لیے مسلمانوں کا اس قدر خون بہایا کہ بیت المقدس کا صحن
گھوڑے کے نصف پنڈلی تک مسلمانوں کے خون سے بھراہواتھا، مگر اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کی اس حالتِ زار پر رحم فرمایا اورقدس کی بازیابی کے لیے اپنے
محبوب نبی ﷺ کی امت میں سے ایک ایسے بے لوث مجاہد’ سلطان صلاح الدین ایوبی‘
کا انتخاب فرمایا، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ مصر وشام پر اپنی حکومت کا سکہ
جمایا، بلکہ قدس کے فتح کے دوران، شہرمقدس کو بے شمار عیسائیوں کے وجود سے
پاک کیا۔پھراس وقت سے لے کر۱۳۳۶ھ/
۱۹۱۷ء تک مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے قبضہ میں رہی، پھر ہوایوں کہ یہودیوں نے
برطانیہ کی مدد سے قدس پر حملہ کرکے مسجدِ اقصیٰ کو اپنے قبضہ میں لے لیا ،
جو اب تک ان ظالموں کے ناپاک ہاتھوں کا شکار ہوتی چلی آرہی ہے اور اس کی
درودیوار اسرائیلیوں کے ظلم واستبداد کی چشم دید گواہ ہے۔گذشتہ کئی سالوں
سے اسرائیلی مسلمان مردوعورت، بچے بوڑھے اور جوانوں کا جس بے دردی سے قتل
کرتے آرہے ہیں ،اس کا مسجد اقصیٰ کو ہم سے شکوہ ہے اور وہ با چشمِ نم ہم سے
مخاطب ہے کہ اے میرے بیٹو! کیا میں وہ مسجد نہیں جس کی گود میں تمہارے نبیؑ
نے تمام انبیاؑ ء کی امامت کا شرف حاصل کیا تھا؟ کیا میں وہ مسجد نہیں جس
کے بابت آخری نبیؑ نے سفر کی اجازت دی تھی اور کیا میں وہ مسجد نہیں ہوں جس
کی گود میں تمام ہی انبیاء جلوہ گر ہوئے تھے؟ بتاؤ جواب کیوں نہیں دیتے؟
کیا تم نے ہماری تاریخ کو فراموش کردیا؟ کیا تم میں کوئی عمر بن خطابؓ اور
صلاح الدین ایوبی نہیں جو مجھے ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کرائے اور میری
رعنائی کو پھر سے دوبالا کردے؟ میرے غیور سپوتوں! کب تک سوتے رہوگے ، اٹھو
اور اذان کی صدائے بازگشت سے میرے وجود میں بلالؓ کی روح پھونک دو، کیونکہ
مزید مجھ میں اب صبر کی سکت نہ رہی۔ بیدار ہو اور میری طرف بڑھومیں تمہاری
راہ تک رہی ہوں۔ |
|