گمنام سپاہی

امجد ،اسود،حمنیٰ ،تینوں بہن بھائی سر جوڑے غوروغوض کرنے میں مصروف تھے ،موضوع دادی جان کی چند روز سے خاموشی اور اداسی تھی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سے کوئی گستاخی ہوگئی ہو؟امجد نے کہا جو ان میں بڑا تھا۔
"ہاں ہوسکتا ہے ایسا ہوا ہو اور ہمیں پتہ ہی نہ چلا ہوگا،کیوں کہ نہ وہ ڈانٹتی ہیں نہ خفا ہوتی ہیں،بس چپ ہوگئی ہیں۔"اسود نے فکرمند ہوکر کہا۔
"مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔"حمنٰی نے سہم کر کہا اس کی صورت رونے والی ہورہی تھی۔
"ارے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ایک دو دن اور دیکھ لو پھر ہم خود ہی ان سے درخواست کریں گے کہ وہ وجہ بتادیں ویسے بھی کل اتوار ہے سب گھر پہ ہوں گے ہوسکتا ہے وہ ہم سے بات کریں " امجد نے کہا۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے اب چلو اپنے اپنے کمرے میں چل کر سوجائیں"۔
دراصل تینوں بچوں کے والدین روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں وفات پاچکے تھے،انہیں کیا پتہ تھا کہ آج وہ اپنے بچوں کو دادی کے پاس چھوڑ کر جارہے ہیں تو ہمیشہ کے لئے وہ ان ہی کے پاس رہیں گے۔
صبح کے ناشتے کی میز پر بھی وہی سب کچھ تھا،بچوں کو پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ ناشتہ کرنے کا کہہ کر پھر سے سوچ میں گم ہوگئیں تینوں بچے باربار ان کے چہرے کی طرف دیکھتے جہاں اداسی چھائی ہوئی تھی۔دادا جان بھی اپنی پنشن کی کارروائی کے لئے اسلام آباد گئے ہوئے تھے ورنہ وہ ضرور کہتے "بھئی اپنے اکلوتے بچے کے بچوں کو یوں پریشان نہ کرو"۔
امجد،اسود،حمنٰی سب کو یقین ہوگیا کہ ضرور ان سے ہی کوئی غلطی ہوئی ہے۔
کاش دادی جان ہمیں ڈانٹ لیا کرتیں بے شک دو چار تھپڑ بھی لگاتیں دراصل جو لوگ ڈانٹ ،پھٹکار کر بچوں کو ذلیل کرتے ہیں بچے ان سے بالکل نہیں ڈرتے مگر جو چپ کا روزہ رکھ لیں پیار سے دیکھیں لیکن دل کی آنکھوں سے نہ دیکھیں ان کی بے رخی برداشت نہیں ہوتی ان کا رعب کچھ پوچھے نہیں دیتا۔ایسا نہیں تھا کہ مسز وقار الدین نے بچوں کو بہت پابند رکھا ہو ہر طرح کی آزادی دی تھی مگر حد کے اندر رہتے ہوئے اب تو ان کا کل سرمایہ وہی تھے۔
"بھائی جان! آج بھی وہی ہوا ناشتہ ختم ہونے تک اخبار دیکھتی رہیں اور پھر کہا چلو اپنے کمروں میں جاؤ اور ہوم ورک ختم کرو۔"
"ہاں کرلو نہ ہوم ورک پھر ہم والی بال کھیلیں گے" اسود نے کہا "خاک کھیلیں گے مجھ سے کچھ بھی نہیں ہوگا،دل چاہ رہا ہے بس چادر اوڑھ کر پڑی رہوں"حمنٰی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
یعنی دوسرے الفاظ میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑے رہنے کا ارادہ ہے؟" ایسا بالکل نہ کرنا روٹین کے خلاف کچھ نہ ہونا چاہئیے ورنہ اور زیادہ خفا ہوجائیں گی ابھی توپہلی خفگی کا پی پتہ نہیں چلا"۔امجد نے کہا جو تینوں میں بڑا تھا میٹرک کا طالبِ علم پندرہ سال کالڑکپن کا دور تھا۔
"ہم ایسا نہ کریں پہلے ساری شرارتیں کرلیں من مانی کرلیں پڑھنا لکھنا چھوڑ دیں،کھیلنا بند کردیں تاکہ دادی جان ہم کو ساری خطاؤں کی ایک ہی دفعہ سزادے لیں ،انہیں بار بار زحمت نہ اٹھانی پڑے۔"اسود نے بڑی دور کی سوچی نویں کلاس کا بچہ، چودہ سال کا نوعمر لڑکا بھلا اور سوچ بھی کیا سکتاتھا۔
"آپ اپنی تجویز اپنے پاس ہی رکھیں اسود بھائی یہ بھی کوئی حل ہوا کہ ناراض کو اور ناراض کردیں"آٹھویں جماعت کی یہ نازک خیال بچی اور زیادہ پریشان ہوگئی،اسی بحث میں ایک گھنٹہ گزرگیا۔
حمنٰی نے پاؤں میں چپل ڈالی اور کھڑی ہوگئی ـ"بھئی میں تو جارہی ہوں دادی امی کے کمرے میں "اکثر وہ دادی امی بھی کہا کرتی تھی۔
ابھی الفاظ منہ سے نکلے ہی تھے کہ رشیدہ ماسی نے دروازہ بجایا۔
"بچوں تم سب کو پرنسپل باجی نے بلایا ہے"دادی جان اسکول میں پرنسپل تھیں اور دو چار سال میں ریٹائر ہونے والی تھیں۔
"ارے چلو جلدی چلو" تینوں آگے پیچھے دوڑتے ہوئے کمرے تک پہنچے ،دروازے پر رک کر سانس درست کی ،حمنٰی نے اپنا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھا جو بھاگ کر آنے سے سر سے اتر گیا تھا۔
"ہم آجائیں دادی جان؟"
"آجاؤمیرے چاند تارو میرے دل کے ٹکڑو۔"
تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا سب کے چہرے پر اطمینان تھا،دل کو قرار آیا کہ ہم سے خفا نہیں ہیں،انہیں پتہ تھا جب وہ خفا ہوتی ہیں تو کہتی ہیں کہ "آئیے تشریف لائیے۔"
حمنٰی بھاگ کر ان کے سینے سے لگ گئی واجد اور اسود دونوں جانب دائیں بائیں بیٹھ گئے۔
"اور تم سب کا ہوم ورک ہوگیا؟"
"نہیں دادی جان" اسود نے جواب دیا۔
"کیوں؟ بھئی کیوں نہیں ہوا؟"
"وہ۔۔۔۔۔وہ آپ اتنے دنوں سے چپ چاپ تھیں ہر وقت اخبار پڑھتی رہتی تھیں ہم سے صرف ضرورت کی بات کرتیں اور اداس خاموش دکھائی دیتی تھیں اس وجہ سے ہمارا کسی کام میں دل نہیں لگتا نہ کھیل میں نہ پڑھائی میں لگتا ہے آپ ہم سے ناراض ہیں؟"۔حمنٰی نے ان کے گلے میں بانہیں ڈال کرکہا اور ان ے سینے میں منہ چھپا لیا۔
"ارے یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں ناراض ہوں،میرے بچوں نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں جو میری ناراضی کا باعث بنے "۔انہوں نے پیار سے تینوں دیکھا۔
ہاں اداس اور چپ ضرور ہوں کسی سوچ میں گم رہتی ہوں میرے اندر ایک طوفان برپا ہے اور میں نے تم سب کی پریشانی کو محسوس کرلیا ہے،اسی لئے آج یہاں بلایا ہے۔مجھے بہت ساری باتیں کرنی ہیں،بہت سارے راز کھولنے ہیں،بہت سی معلومات دینی ہیں آج کی شام اور رات ایک ساتھ گزاریں گے یہ بہت ضروری ہے تیار ہو تم لوگ؟ سو تو نہیں جاؤ گے؟"۔
"سچ دادی جان؟"تینوں نے ایک ساتھ کہا ان کی خوشی دیدنی تھی مگر دل کے کسی کونے میں ڈر بھی تھا کہ پتہ نہیں کیا کہنے والی ہیں،چلو جو بھی کہیں گی سنیں گے ضرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
میں نے ابھی ابھی سوچا کہ تم لوگ اتنی ڈھیر ساری باتیں ایک دو روز میں سنو گے تو تھک جاؤگے ایسا کرتے ہیں روزانہ رات کو سونے سے پہلے ایک گھنٹہ کی محفل جمائیں گے اور باتیں کریں گے کیوں ٹھیک ہے نہ؟
آپ جس طرح چاہیں دادی جان آپ روز سنائیں گی تو ہم روز آجایا کریں گے۔امجد نے جواب دیا مگر کسی کسی دن چھٹی بھی ہوا کرے گی بھئی ہفتے میں ایک دن کی چھٹی کا تو حق ہے نہ مجھے؟
"ہاں ہاں کیوں نہیں!بس آپ بات شروع کردیں ہم سب ہمہ تن خرگوش ہیں" حمنٰی نے بڑے زور سے کہا۔
"ہمہ تن خرگوش نہیں ہمہ تن گوش ہوتا ہے" امجد نے مسکراکر اس کو بتایا۔
"ہاں ہاں وہی میرا مطلب وہی تھا" حمنٰی نے جھینپ کر کہا ساتھ ہی اسود کو گھور کر دیکھا کیوں کہ وہ بھی مسکرارہا تھا۔
ہاں تو بات شروع کرتے ہیں۔
ہم اپنے بچپن سے ایک بات سنتے آرہے ہیں ،بات کیا بلکہ بچوں کی اردو کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی اس کا مصرعہ کچھ یوں ہے:-
؂ نانی امی کہتی ہیں چاند پر پریاں رہتی ہیں
مگر اب چاند کی پریوں کی کہانیاں سنانے کا وقت نہیں ہا اب تو انسان چاند پر بھی ہوکر آگیا وہاں بڑے بڑے کھڈ جیسے گڑھے ہیں اور پہاڑ ہیں پریاں وریاں کچھ بھی ہیں۔ویسے بھی لوگ اب چاند تاروں کے اثر سے نکل آئے ہیں،بھئی وہ آسمان پر اپنا کام کرہے ہیں ہم زمین پر اپنا کام کریں ٹھیک ہے نہ؟
سب نے تائید میں اپنے سر جلدی جلدی ہلائے۔
امجد !تم تینوں میں بڑے ہو ،اسود بھی کچھ کچھ سمجھدار ہے مگر حمنٰی بہت چھوٹی ہے مگر تم تینوں کو اس لئے بلایا ہے کہ اگرمیں صرف امجد کو ہی بلاتی تو باقی دونوں کے دل میں کھد بد ہوتی رہتی اور وہ دونوں شاید یہ سمجھتے کہ دادی اپنی جائیداد وغیرہ امجد کے نام کررہی ہیں اور ہمیں کچھ نہیں دے رہی ہیں یہ خیال آتا نہ دل میں؟
دادی جان آپ بھی بس!تینوں نے خفگی کے انداز سے ان کی طرف دیکھا۔
اچھا بھئی اچھا ناراض مت ہو چلو ایسا کرتے ہیں جتنی جائیداد امجد کے نام ہے نہ وہ ساری میں اپنے نام کرلیتی ہوں ٹھیک؟
"دادی جان بھائی جان کی تو کوئی جائیداد ہے ہی نہیں۔"حمنٰی بے ساختہ ہنس پڑی دونوں بھائی مسکرانے لگے۔
اچھا امجد بیٹا ہم کون ہیں؟سندھی،پنجابی ،پٹھان،پختون،مہاجر،بلوچ؟
"دادی جان ہمارے اسلامیات کے سر نے بتایا تھا کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اس کے بعد پاکستانی اس کے علاوہ کچھ نہیں۔"اسود نے فوراً بڑے جوش و خروش سے کہا۔
ــ"بالکل ٹھیک کہا آپ کے سر نے اﷲ انہیں خوش رکھے۔حقیقت یہی ے باقی سب دھوکہ ہے اچھا ایک بات اور بتائیں جب ہم الحمداﷲ مسلمان ہیں تو ہمیں یہ بھی معلوم ونا چاہئیے کہ مسلمان کیا ہوتا ہے؟"
"میں نے اخبارمیں ایک حدیث پڑھی تھی کہ ہ مسلمان ہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔"امجد نے فوراً جواب دیا۔
"بالکل ٹھیک کہا تم نے یہ پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے آپ کا ہر لفظ دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔اب اس حدیث شریف پر عمل کرنے کے لئے ہمیں تیاری اور تربیت کی ضرورت ہے نہ؟کہ نہیں یا ہم ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور یہ سمجھیں کہ خود بخود یہ کام ہوجائے گا؟"
"جی دادی جان یہ بہت ذمہ داری ہے تیاری تو کرنی ہوگی مگر کیسے؟ " امجد نے کہا دونوں بچوں کا جذبہ بہت نمایا ں تھا۔
بتاتی ہوں مگر اس سے پہلے کچھ ضروری باتیں اور بھی ہیں اپنی زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم ظالم کا ہاتھ پکڑسکتے ہیں اور مظلوم کی مدد کر سکتے ہیں ۔ خدمت خلق بہترین عبادت ہے تم نے سناہوگا۔
ہم سیلاب ، طوفان میں پھنسے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں، سمندر ،دریا نہر میں ڈوبتے ہوئے انسانوں کی جان بچا سکتے ہیں ،آگ کے شعلوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی جان بچا سکتے ہیں ۔ لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو بے بس کر سکتے ہیں غرض ہر غیر قانونی کام کرنے والوں کو روک سکتے ہیں بغیر قانون اپنے ہاتھ میں لیے امن کے دنوں میں اپنے ہم وطنوں کے کام آسکتے ہیں اور اگر کافروں ، یہودیوں اور مشرکوں نے خدانخواستہ ارض وطن پر حملہ کر دیا تو بالکل ایک سپاہی کا کردار ہوگا تمہارا مگر نہ تمہاری کوئی دردی ہوگی نہ ہی کوئی عہدہ نہ رینک نہ گریڈنہ ہی تنخواہ تم ایک گمنام سپاہی ہوگے جس کی محنت کا اجر صرف اور صرف اﷲ رب العالمین کے پاس سے ملے گا اور بہت خوب ملے گا بولوتیارہو؟
دادی جان نے سوالیہ نگاہیں اٹھائیں ان نگاہوں میں بہت سی امیدوں کے چراغ جل رہے تھے بہت مان تھا۔
جی ہم تیا ر ہیں دونوں بھائیوں نے ایک آواز ہو کر کہا الحمد ﷲ مجھے یہی امید تھی تم دونوں سے مگر ہم دو سے کیا ہوگا کام تو بہت بڑے اور بہت سارے ہیں امجد نے پوچھا اس کے لہجے میں تشویش جھلک رہی تھی۔
ہوں ! وہ مسکرائے اور بولیں ۔
مثل مشہور ہے کہ ایک اور ایک گیار کی طاقت کے برابر ہوتے ہیں اور پھر چراغ سے چراغ جلتا ہے میرے بچے اتنا کہہ کو وہ خاموش ہوگئیں اسی خاموشی میں حمنیٰ کے خراٹوں کی آواز سنائی دی اور وہ تینوں اس پر پیار بھری نظر ڈال کر مسکرانے لگے۔
دادی جان حمنیٰ تو سوگئی اس کی تربیت آپ کب کریں گی؟اسود نے تشویش سے کہا۔
اسے ذرا بڑی ہولینے دو پھر ان شاء اﷲ لڑکیوں کے فرائض کے حوالے سے تربیت کروں گی۔
اور کچھ ارشاد فرمائیں نا؟ دونوں بچوں کو شاید مزا آرہا تھا۔
اچھا اور بھی سننا چاہتے ہو؟ میں تو سمجھی کہ تم دونوں بورنہ ہورہے ہے؟
نہیں نہیں ہم بڑے شوق سے سن رہے ہیں کم ازکم مغرب سے عشاء تک تو ٹائم دیں ہمیں ۔" امجد نے کہا ۔
اچھا جیسی تمہاری خوشی ابھی عشاء میں آدھا گھنٹہ ہے اتنی دیر اور بات کر لیتے ہیں ۔
ابھی تک تو جو باتیں میں نے کی ہیں اس سے ایسے نہ سمجھ لینا کہ بس دوسرے سارے کام ختم ہوجائیں گے، نہیں اپنی تعلیم پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دینی ہوگی تعلیمی معیار کو گرنے نہیں دینا ، پیارے بچوں ! اﷲ تعالیٰ نے انسان کے دماغ میں لاکھوں خلیے ایسے رکھے ہیں کہ جن سے جتنا زیادہ کام لیا جائے وہ اتنا کھلتے جاتے ہیں ہت روز نئے نئے آئیڈیے سوجھتے ہیں۔
اچھا ایک بات بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ !
جی فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تم اور ہم اور بہت سے لوگ جو یہ سب کچھ کریں گے اور کررہے ہیں وہ کس کے لیے کر رہے ہیں ؟
پہلے تم بتاؤ اسود؟
جی اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے اسود نے جواب دیا۔
بالکل ٹھیک ۔ اب تم بتاؤ امجد؟ انتہائی اخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دادی جان ۔
شاباش میرے بچوں نے بالکل ٹھیک سمجھا جیو ہزار برس تو پھر جس کی محبت میں یہ سارا کچھ کیا جارہا ہو تو اس سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے؟
" سچے مسلمان جیسا ـ۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا ۔
بہت اچھے انہوں نے خوش ہو کر کہا ۔
تو پھر نماز کی سختی سے پابندی کرنا اور اﷲ کا ذکر بے حد ضروری ہے یہ نہیں کہ ہر وقت جائے نماز پر بیٹھے رہنا اور تسبیح گھماتے رہنا بلکہ ہر کام صیح طریقے سے کرنا اور اچھائی کو لپک کر اختیا ر کرلینا یہ ہے عبادت سمجھے؟ جی سمجھ گئے۔
دادی جان اب ہمیں ہماری ٹریننگ کے چند نکات تو بتا دیجیے۔ امجد نے کہا اسود بھی پر شوق نظروں سے دیکھ رہا تھا تمہیں چار کام لازمی کر نے ہوں گے جو بنیادی ہیں پھر اس میں نئے آئیڈیا ز تم خود شامل کر سکتے جاؤگے ۔ انشاء اﷲ۔
جیسے ہی دادی جان نے کہا امجد تم آج ہی کسی اچھے کراٹے اسکول میں شام کی کلاس جوائن کرلو فوراً ہی اسود بول پڑے اور میں بھی! کیا میں بھائی کے ساتھ جاسکتا ہوں؟
آپ بیٹا سب سے پہلے نشانہ بازی کی مشق کروگے یہ ہماری ٹریننگ کا دوسرا پوائنٹ ہے تمہارا نشانہ ایساہونا چاہیے کہ اڑتی چڑیا کو مارگراؤ۔
اوہ۔۔۔۔۔۔ مگر چڑیا کا کیا قصور دادی جان اس کے بچے نہیں روئیں گے کیا؟
دادی جان ہنس پڑیں۔کتنا رحم دل ہے میرا بچہ وہ کسی نے کہا ہے نا کہ:
؂ مہربانی کرو تم اہلِ زمین پر خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
میں نے چڑیا کو ایک محاورہ کے طور پر کہا تھا مطلب ہے کہ تمہارا نشانہ پرفیکٹ ہونا چاہئیے ہر دفعہ اپنے نشان پر جاکر لگے،سمجھے؟
جی دادی جان مگر آپ کیا مجھے پستول دلائیں گی؟پھر اس کا لائسنس بھی بنوانا پڑے گا بہت دن لگیں گے اس میں اور میرا لائسنس بن بھی کیسے سکتا ہے میرا شناختی کارڈ جو نہیں ہے۔
یہ بات تو ہے چلو ایسا کرتے ہیں پہلے اٹھارہ سال کے ہوجاؤ پھر شروع کرنا ٹھیک؟
اسود کی صورت دیکھنے والی تھی دادی جان کو پتہ تھا کہ اس کو نشانہ لگانے کا بہت شوق ہے اکثر چھوٹے چھوٹے پتھر لے کر کھڑکی کبھی دروازے کو ٹارگٹ بنایا کرتا تھا۔
ارے بھئی اب اتنا بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔آخر نقلی پستول بھی تو ملتے ہی ہیں بڑے مظبوط بڑے اچھے ایک تم بھی خرید لو۔
ہاں یہ ٹھیک ہے۔
ہاں مگر آگے کی بات بھی تو سن لو ادھوری بات ہمیشہ نقصان دیتی ہے۔
جی کہیے؟
جب تم پستول لے آؤ تو اپنے کمرے میں دیوار پر اسٹیل کی چھوٹی سی پلیٹ لگالو اور روزانہ پابندی سے ایک گھنٹہ پریکٹس کرو پہلے کچھ قریب سے پھر کچھ دور سے اور پھر کمرے کی آخری حد سے ٹھیک ہے ؟
جی دادی جان۔
اور امجد تم کیا سوچ رہے ہو؟
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں یہ سب کرنے پر داد احضور تو ناراض نہیں ہوں گے؟
اچھا تو یہ پریشانی ہے تم اطمینان رکھو میں نے تمہارے دادا سے طے کرلیا ہے کہ وہ تم بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری لیں گے اور میں تربیت کی اور ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں دخل اندازی نہیں کریں گے تمہاری دادی جان کبھی بغیر سوچ بچار کے کوئی کام نہیں کرتیں،بہت غور کیا بہت سوچا سمجھا مطالعہ کیا اسلامی تاریخ پڑھی پھر پاکستان کی تاریخ پڑھی حالات کا جائزہ لیا اور پھر یہ سمجھ میں آیا کہ ہمیں
یعنی ہماری نئی نسل کو کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ وہ صرف بڑھکیں مارنے والے نہ ہوں صرف زبان کا استعمال نہ کرتے ہوئے بلکہ دماغ اور ہاتھ پاؤں استعمال کرنے والے ہوں آگے بڑھ کر برائی کو روکنے والے اور نیکی میں مددگار بنیں اور یہ کام تھیوری کے سا تھ پریکٹیکل کا بھی لازمی حصہ ہے ہم جب تک ظالم کو گرانے والے اور مظلوم کو اٹھانے والے نہیں بنیں گے بات نہیں بنے گی۔مسلمان دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لئے آئے ہیں،ہمارا دین جب غالب ہونے کے لئے آیا ہے تو ہمیں بھی غالب ہونا چاہئے۔اﷲ پاک نے فرمایا :
"تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو"۔
تو یہ ہوکررہے گا ان شاء اﷲ اور مؤمن بننے کے لئے نماز روزہ کے ساتھ مظبوط ،بہادر،مخلص ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا بھی ضروری ہے۔اﷲ سے متعلق ہونا پہلی شرط ہے اس کے بعد سارے کام خود بخود سنورتے چلے جاتے ہیں تو اب یک سو ہو کر اپنے کام جٹ جاؤ اﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو۔آمین!
دادی حضور زندہ باد!
دوسرے دن اتوار تھا وہ پھر دادی کا گھٹنا پکڑ کر بیٹھ گئے،اب ان کی باتوں میں مزہ آنے لگا تھا۔بیچ بیچ میں حمنیٰ بھی تجویزیں دیتی رہتی مگر آج وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی ۔اسود نے اشارہ کیا اور کہا بھئی آج غبارے میں ہوا کچھ زیادہ بھردی ہے سوئی چھبو کر نکالنی پڑے گی،دیکھیں نا دادی جان بھیا مجھے غبارہ کہہ رہے ہیں اور سوئی بھی چھبونے کا کہہ رہے ہیں۔
ہائیں تم غبارہ ہو؟چلو اچھا ہوا تم نے بتادیا اب تمہیں تو سوئی نہیں چھبؤوں گا تم تو میری پیاری سی ننھی سی بہنا ہو۔
ارے اسود تنگ نہ کرو بے چاری کو۔ہاں تو میری گڑیا کیا بات ہے؟جلدی بتاؤ تاکہ اس کا توڑ کیا جاسکے۔
دیکھیئے نا آپ ان دونوں کو تو کام بتارہیں ہیں تم یہ کرلو تم وہ کرلو لیکن مجھے ابھی تک نہیں بتایا میں کیا ایسے ہی بے کار بیٹھی رہوں؟
ارے تم بے کار کیوں بیٹھو ہم بتائیں گے تمہیں کام۔ امجد نے ہم پر زور دے کرکہا۔
ہاں تو بتائیے نا دیر کیوں کررہے ہیں؟
تو تم ایسا کروصبح ہم سے پہلے اٹھ جایا کرو ہمارے لئے جوس بنالو تاکہ ہم فریش ہوجائیں ہاں تم بھی پی سکتی ہو آخر ہمارے کام کرنے کے لئے طاقت تو چاہئیے نا؟
"اور کچھ؟" ، حمنیٰ نے تیوریاں چڑھا کر سوال کیا۔
ہاں بتارہاہوں کام تو کئی ہیں مگر سارے نہیں بتاؤں گا کہیں کیے بغیر ہی تھک نہ جاؤ۔
نہیں نہیں آپ بتائیں میرے تھکنے کی فکر نہ کریں بتائیں بتائیں۔
اچھا تو رات کو سونے سے پہلے گرم دودھ کا گلاس آپ کے دستِ مبارک سے پینا چاہیں گے پھر۔۔۔۔۔۔۔پھر صبح کے لئے ہمارے بوٹ چمکا کر رکھنا ہوں گے اب دیکھونا اصغر بابا کتنے بوڑھے ہوگئے ہیں ان کو بھی آرام ملنا چاہئے۔
اور اسکول تو ہم ساتھ ہیں جائیں گے مگر جب واپس آئیں گے تو ہم دونوں تو سوجائیں آخر مجھ اور اسود کو تو وہ کام کرنے ہیں جو دادی جاننے بتائے ہیں۔
ٹھیک ہے تو میں کل ہی سے یہ کام شروع کردیتی ہوں جب ہم اسکول سے واپس آئیں گے بلکہ کل تو میں اسکول نہیں جاؤں گی۔میرے کام یعنی آپ حضرات کی خدمت شروع کرنے کا پہلا دن ہے نہ اس لئے میں گھر پر رہ کر تیاری کروں گی ٹھیک؟
بالکل ٹھیک دونوں نے چہک کر جواب دیا۔دادی جان مسکرارہی تھیں انہوں نے حمنیٰ کی آنکھوں میں شرارت کی زبردست چمک دیکھ لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 22270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.