جگن کو شدید خوف گھیرے ھوئے تھا ۔۔۔۔۔۔
سفید نیٹ اڑھی میں ملبوس ۔لمبے ریشمی حسین بالوں میں جگن اب جعفر کی پہنچ
سے دور نہ تھی۔۔
جعفر نے آگے بڑھ کر جگن کی کلایئ تھامنا چاہی مگر جگن کمرے کے درواڑے کی
طرف بھاگی اور کمرے کا دروازہ کھٹکٹانے لگی ۔
اماں۔ اماں کھو لو دروازہ ۔۔۔۔ مجھے بچا لو ۔۔
مگر پیچھے سے جعفر نے اسے بالوں سے پکڑ کراپنی طرف کھینچا۔۔
چھوڑو مجھے ۔ آہ ۔۔۔اس کے بال بہت زور سے کھینچے جارہے ۔جگن کراہ اٹھی
جعفر کی مضپوط گرفت سے اسے اپنا آپ چھڑانا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔
م ۔۔۔مج مجھچھودو پلیز مجھے ۔۔۔مجھے جانے دو ۔۔۔۔
ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔۔ قیمت بھری ہے میں نے تیری۔۔۔۔۔ ایسے کیسے جھوڑ دوں۔۔
چل ادھر آ میری شہذادی۔۔ بیٹھ میرے پاس ۔۔۔وہ جگن کو کھینچکرصوفے تک لے
گیا۔
اس نے ہاتھ سے جگن کے بازو کو پکڑ رکھاا تھا۔۔ اس نے شراب کو گلس میں
ڈالا اور جگن کے منہ سے لگایا جگن نے گلاسکو دوسرے ہاتھ پینکا ۔۔۔اور وہ
دور جا گرا اور جکنا چور ہو گیا ۔۔۔
اس نے جگن کی دونوں کلائیوں کو زور سے پکڑا ۔۔اور اس پہ جھکا۔۔۔
جگن تڑپتی ہویئ اپنا پ چھڑانے لگی۔
جگن نے پوری جان لگا دی۔۔۔بمشکل جگن نے اپنا ایک ہاتھ جعفر کی گرفت سے
چھڑای اور میز پہ پڑی شرا کی بوتل اٹھائی اور میز کی نوک پہ مارئ ۔۔۔
جعفر گھبرا کر پیچھےہٹا۔۔۔
آدھی ٹوٹی ہوی بوتل اب جگن کے ہاتھ میں تھی۔۔۔
جعفر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔نوک دار ٹوٹی ہویئ بوتل سے وہ گھبرا اٹھا۔۔
پیچھے ہٹو ۔۔۔
جگن ٹوٹی ہوئی بوتل ہاتھ میں پکڑے جعفر کی طرف بڑھی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔تو ڈراتی ہے مجھے۔۔۔۔جعفر پھر آگے کو تیزی سے بڑھا ۔۔۔۔ اس سے کہ
وہ جگن تک پہنچتا۔۔۔۔
ؤجگن نے اپی دونوں کلائیوں کو بوتل کی تیز نوک سےکاٹ لیا ۔۔۔۔
اور تڑپ کر زمین پہ گر گیئ
اس نے اپنی جان دے کر عزت بچا لی تھی۔۔۔
..............****************........................
چاندنی بھاگتی ہوئی ۔کوٹھے کی پچھلئ طرف گئی ۔۔اس نے دروازہ کھولا۔۔۔۔
جہاں جگن کچھ دیر پہلے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے گئ تھی۔ؤ
وہ سجدے میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔
کیا فائدہ تمھارے ان سجدوں کا۔۔
کیا فائدہ تمھاری ان عبادتوں کاا۔۔چاندنی روتے ہوئے اس کی طرف بڑھی
قاتل ہو تم ۔
یا کیا بکواس ہے۔۔۔کیوں چلا رہی۔۔۔ہو۔۔۔۔کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
خود کشی کر لی ہے جگن نے۔۔...
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حیرانی سے بولا۔۔۔
................*****************-***.............
.پاس ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آفس پہنچی تھی۔۔ وہ جلدی سے کرسی پہ بیٹھی
۔اور میز پہ پڑی فائلز اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔۔
اسے آج کاافی زیادہ کام کرنا تھا۔۔
اس نے فائل کھولی ۔۔مگر اس پہ تمام کام مکمل دیکھ کر وہ حیرانرہ گئی۔۔۔۔
شائد شاہ زر نے خود ہی کر لیا ہو۔۔
ابھی وہ اہ سوچ کر مسکرا ہی رہئ تھی۔۔۔۔۔کہ
نعمان نے ڈور ناک کئا۔۔اور پارس کے یس کہنے پہ ۔۔۔۔وہ کچھ فائلز ہاتھ میں
لئے اندر داخل ہوا۔۔۔
اور فائلزپارس کے سامنے رکھ کر واپس مڑنے لگا
رکو۔۔پارس کی آواز پہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
جاری ہے |