سود، مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَریْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِین۔

اصل موضوع سے قبل دو اہم امور پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے اصل موضوع کا سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں مال کی حیثیت:مال اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن مال کے نعمت بننے کے لئے ضروری ہے کہ مال کو حلال وسائل اختیار کرکے حاصل کیا جائے اور اس مال سے متعلق جو اﷲ تعالیٰ کے حقوق ہیں یعنی زکوٰۃ وغیرہ ان کی ادائیگی کی جائے۔ مال نعمت ہونے کے ساتھ ایک انسانی ضرورت بھی ہے، لیکن مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجو خالق کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے مال کو متعددجگہوں پر فتنہ ، دھوکے کی چیز اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دی ہے۔ چند مثالیں عرض ہیں: مال و اولاد تو فانی دنیا کی عارضی زینت ہیں۔ (سورۃ الکہف ۴۶) مال و اولاد کی زیادتی کی چاہت نے تمہیں اﷲ کی عبادت سے غافل کردیایہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ (سورۃ التکاثر ۱۔۲) خوب جان لو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل تماشا، عارضی زینت اور آپس میں فخر وغرور اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرناہے۔ (سورۃ الحدید۲۰) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: ہر امت کے لئے ایک فتنہ رہا ہے، میری امت کا فتنہ مال ہے۔ (ترمذی) رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا تو وہاں غریب لوگوں کو زیادہ پایا۔ (بخاری ومسلم) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: غریب لوگ مالداروں سے پانچ سو سال قبل جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: اﷲ کی قسم! مجھے تمہارے لئے غریبی کا خوف نہیں ہے بلکہ مجھے خوف ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کہیں تمہارے لئے دنیا یعنی مال ودولت کھول دی جائے اور تم اس کے پیچھے پڑ جاؤ، پھر وہ مال ودولت پہلے لوگوں کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ (بخاری ومسلم)

قرآن وحدیث کی روشنی میں سود شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ:
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اﷲ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ (سورۃ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) سود کھانے والوں کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو اور کسی بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (مسند احمد) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(موطا امام مالک، طبرانی)

ان دونوں تمہیدی ابواب کے بعد اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا ہوں، سب سے پہلے حلال ، حرام اور مشتبہ چیزو ں کے متعلق اﷲ کے حبیب حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد کو پڑھیں جس میں شبہ والی چیزوں سے تعامل کرنے کا شرعی اصول ذکر کیا گیا ہے :
رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے ۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس کا جانور دوسرے کی چراگاہ سے کچھ چرلے۔ (بخاری ومسلم)

نبی اکرم ﷺکے اس ارشاد سے معلوم ہواکہ حکم کے اعتبار سے چیزوں کی تین قسمیں ہیں: ۱) وہ چیزیں جن کا حلال ہونا واضح ہے، مثلاً جائز لباس وجائز کھانے وغیرہ۔ ۲) وہ چیزیں جن کا حرام ہونا واضح ہے،مثلاً سود کھانا، شراب پینا، زنا کرنا، جھوٹ بولنا، یتیم کا مال کھانا وغیرہ۔ ۳) وہ چیزیں جن کے حلال اور حرام ہونے میں شبہ ہوجائے، مثلاً موضوع بحث مسائل ( مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ) امت مسلمہ کے موجودہ تمام مکاتب فکر کے بیشتر علماء ان مذکورہ شکلوں کے ناجائز ہونے پر متفق ہیں کیونکہ مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ عمومی طور پر سود اور جوئے پر مشتمل ہوتا ہے اور ان دونوں کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ بعض علماء نے موضوع بحث مسائل کی بعض شکلیں چند شرطوں کے ساتھ جائز قرار دی ہیں۔ لہذا جس کو نبی اکرمﷺکے اقوال وفرمان سے واقعی سچی محبت ہے جو ہر مسلمان کو ہونی چاہئے جیساکہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی بھی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لئے اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں (بخاری ومسلم) تو وہ کبھی بھی ان مشتبہ امور کے قریب نہیں جائے گا،کیونکہ ہمارے نبی حضور اکرم ﷺ نے واضح طور پر ذکر فرمادیا کہ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی، اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے چکر میں پڑا گویا وہ حرام چیزوں میں پڑگیا۔

ان مذکورہ شکلوں میں رقم نہ لگانے پر اگر بظاہر کچھ وقتی نقصان بھی نظر آئے تو دوسرے جائزوبہتر وسائل سے اﷲ تعالیٰ روزی عطا فرمائے گا، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اﷲ اس کے لئے (غلط راستوں سے) چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو شخص اﷲ پر توکل کرے گا اﷲ اس کے لئے کافی ہوگا۔ (سورۃ الطلاق ۲۔۳)

تنبیہ:
٭ علماء کرام نے بعض شرائط کے ساتھ Shares خریدنے کے جواز کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ ہم جس کمپنی کے Shares خریدنا چاہتے ہیں، اس کمپنی کے متعلق پہلے وافر معلومات حاصل کریں۔ اگر اس کمپنی کا کاروبار مثلاًشراب کا ہے تو ایسی کمپنی کے Shares خریدنے جائز نہیں ہوں گے۔
٭ آجکل چند دنیاوی مادی طاقتیں مسلمانوں کے مال کو حاصل کے لئے اسلامی بینکنگ کے نام پر مختلف مالی پروجکٹس پیش کرتی رہتی ہیں تاکہ مسلمان اسلام کا نام دیکھ کر اپنی رقم ان کے حوالے کردیں۔ ان پروجیکٹس پر رقم لگانے سے قبل ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان پروجیکٹس کی مکمل تفصیلات معلوم کریں پھر علماء کرام کی سرپرستی میں فیصلہ کریں ۔

٭ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سودی نظام سے بچنا انتہائی مشکل ہے، مختلف اسباب کی وجہ سے کسی نہ کسی حد تک سودی نظام سے جڑنا ہی پڑتا ہے۔ میری ایسے تمام حضرات سے درخواست ہے کہ ہمیں اس دنیاوی زندگی میں رہ کر ہمیشہ ہمیشہ کی اخروی زندگی کی تیاری کرنی ہے، موت کا آنا یقینی ہے، البتہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں کہ ملک الموت کب ہماری جان نکالنے کے لئے آجائے، آنکھ بند ہونے کے بعد پھر ہمیں کوئی دوسرا موقعہ آخرت کی تیاری کرنے کا میسر نہیں ہوگا۔ لہذا بظاہر دنیاوی نقصان وضرر کو برداشت کریں، کیونکہ دنیاوی زندگی تو بہرحال گزرجائے گی، لیکن آخرت کی ناکامی پر ناقابل تلافی نقصان وخسارہ ہوگا۔ مرنے کے بعد مال واولاد اسی وقت کام آئے گی جب ہم نے حلال وسائل اختیار کرکے مال کو کماکر ان پر خرچ کیا ہوگا۔

٭ جن حضرات نے بینکوں میں اپنا مال جمع کررکھا ہے اور اس پر سود مل رہا ہے، اس سے متعلق علماء کی رائے یہ ہے کہ سود کی رقم بینکوں سے نکال کرعا م رفاہی کاموں میں لگادیں، اپنے اوپر یا اپنی اولاد پر خرچ نہ کریں۔

٭ بعض حضرات اگر مشترکہ فنڈ اور زندگی کے بیمہ سے متفق ہیں تو میری ان سے درخواست ہے کہ وہ کم از کم دوسروں کو شک وشبہ میں نہ ڈالیں کیونکہ اسلام نے نہ تو ہمارے اوپریہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم دوسروں کے مال کو بڑھانے کی فکر کریں اور نہ ہی اس کی کوئی ترغیب دی ہے، بلکہ قرآن وحدیث میں مال کو متعددجگہوں پر فتنہ ، دھوکے کی چیز اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال، وسیع اور برکت والا رزق عطا فرمائے اور مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرنے والا بنائے۔ آمین۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 164525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.