تحصیل پنڈ دادنخان کے قصبہ ہرنپورسے میر ا
تعلق ہے پانچ سال کی عمر میں گھر والوں نے مجھے ہرنپور کے ہائی سکول میں
داخل کروایا یہ لگ بھگ 1998ء کی بات ہے میر ا سکول کا پہلا دن بہت اداسی
کے عالم میں گزرا میرے ماں باپ کی بہت بڑی خواہش ہے کہ میں کچھ پڑھ لکھ کر
کسی کام کا بن جاؤں اﷲ پاک میرے ماں باپ کی اس خواہش کو جلد پورا فرمائے
امین دن یوں ہی چلتے رہے اور پھر تین ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں جس
میں میں اپنے کزن کے ہا ں کھیوڑہ چلا گیاجہاں پرایک ہفتے میں اپنے نرسری کے
قاعدے کو مکمل یادکرلیا،آجکل کے نرسری کے بچے گویا کسی بڑی جماعت کے طالب
علم معلوم ہوتے ہیں ،انگلش ،اردو ،ریاضی اور پتہ نہیں کیا کیا ان کے سلیبس
میں شامل ہوتا ہے ،سکول ورک کی کاپیاں الگ اور ہوم ورک کی کاپیاں الگ یہ سب
ملا کران بچوں کابستہ کسی ایسے مسافر کی ماننددکھائی دیتا ہے جسکے پاس بہت
بڑی گٹھری یا بوری ہو اور اس کو اٹھائے کسی لمبے سفر کی طرف گامزن ہو ،ہمارے
دورمیں تو ایک قاعدہ ہوتا جوڑ توڑکا ،ایک ٹاٹ جو کسی بوری کوکاٹ کر بنایا
جاتا تھا ،ایک تختی ہوتی تھی جس کودن میں دو سے تین بار دھو کرلکھاکرتے تھے
،چھٹیوں کے بعد جب میں سکول گیاتو اپنے استاد جناب منیر صاحب کو وہ مکمل
قاعدہ سنادیا جس پرمجھے اگلی کلاس یعنی پریپ میں بھیج دیاگیا جس کوہم اپنی
زبان پنجابی میں ’پکی کلاس‘کہتے تھے یہ میری بنیاد تھی ،دیکھتے ہی دیکھتے
1998 ء سے 2000 اور پھر 2009 ء کاسال آن پہنچا جس میں میں میٹرک میں تھا
اپنے سکول میں سینٹرنہ ہونیکی وجہ سے دھریالہ جالپ ہائی سکول میں میڑک کا
امتحان دیا، اگست کامہینہ اوراس کی سترہ تاریخ جو مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم
اپنے سکول میں میٹرک کے رزلٹ کارڈ لینے گئے ،یہ میرے سکول کا آخری دن
تھا،اس دن کو میں کبھی نہیں بھول پاؤں گااپنے کمرے جماعت کے ساتھ ہی باہر
بیٹھے استاد منور صاحب نے ہمیں رزلٹ کارڈ جاری کئے،جسکے بعدہم اپنے اساتذہ
اوراپنے ہم جماعتوں سے الگ ہوگئے بہت کم دوست ہیں جوسکول کے بعد ملے
ہوں،اتوار کے دن جب میں گھرگیا تو سوچا کافی عرصہ ہوگیاباہرزمینوں کی طرف
گئے ہوئے تو اس خیال سے گھر سے نکل پڑا،میرا سکول ہمارے ڈیرے کے راستے میں
واقع ہے سکول گیٹ پر پہنچاتو ایک دلخراش منظرنے مجھے افسرادہ کر دیاسکول کی
بہت خوبصورت عمارت تھی جوکہ نیلامی کے بعد گرائی جاچکی تھی اوراس کاملبہ
بھی تقریبااٹھایا جا چکا تھا اس سے آگے ذرا نکلا تو گرلز سکول کابھی یہ ہی
حال تھا ،گرلز سکول کے صرف 4 سے 6سے چھ کمرے باقی تھے جو کہ نئے بنے ہوئے
تھے وہاں موجود تھے یہ سوچ کردل کی کفیت بوجھل سی معلوم ہورہی تھی کہ اس
بلڈنگ سے ہمارے حکمرانوں کو کیا غرض تھی ؟؟کون سی مجبوری تھی؟؟کس وجہ سے ان
عمارتوں کو زمیں بوس کر دیاگیا؟؟اور پھر میری سوچوں نے مجھے جواب دیا کہ یہ
’’بلڈنگ اب پرانی ہوگئی تھی ‘‘اس جواب کومیں نے ماننے سے انکارکردیا ،کیوں
مان لوں ،کیوں کہ میرے وہاں دس سال گزرے ہیں میرے سکول نے میرے ملک کو بہت
بڑے بڑے آفسیردیے ہیں ،فوج کا سپاہی ہو یاپولیس میں کام کرنے والا،کوئی
ایمانداراور لائق استاد ہو یا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والا کوئی بھی
آدمی ،میرے سکول میں جس نے محنت کی وہ کبھی خالی نہیں گیاان سب باتوں کی
وجہ سے میں اپنے اوپر والے جواب کومان لوں نہیں ایسا نہیں ہوگا،کہ میں کہوں
کہ سکول کی بلڈنگ پرانی ہوگئی تھی ،جب میں سکول گیا تھاتو ایسا نہیں تھا ہم
نے پہلی جماعت سے آٹھوایں جماعت تک زمین پر ٹاٹ بچھاکر پڑھاتھا وہ اور دور
تھا اب اور دور ہے لیکن اس دور میں ان سکولوں میں میں پڑھنے والوں بچوں کی
حالت زارکیسی ہوگئی جب وہ دو سے تین سال زمین پر کھلے آسمان کے نیچے دھوپ
اور بارش میں اپنی پڑھائی کی خاطر بیٹھیں گے،سکول کی حالت بہت بہتر تھی اس
کے ملبے کو بیوپاریوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا کیانئی بلڈنگ لوہے کی ہوگئی؟؟؟
جوقیا مت قائم رہے گئی،، اس دورمیں ہر کوئی کرپشن ،کرپشن کر رہا ہے ہم جب
آٹھوں جماعت میں گئے تو وہاں سے کرپشن کانا م سننے کوملا،جبکہ اس دور کا
دوسری جماعت کاطالب علم اس لفظ اور ہمارے حکمرانوں پر ایک بڑا مضمون لکھ
ڈالے ،سکول جانے والی سٹرک آج تک نہیں بن سکی تو اوپر سے سکول کی عمارت
کوبھی گرادیاگیاپہلے تو جس طرح ہوتا سکول چلے جاتے وہاں دن گزارلیتے اب کیا
ہو گا؟ــ’’مستقبل کے معمار راستے میں بھی ذلیل اور سکول میں بھی خوار،
‘‘حکومت کے حامی اور حکمرانوں کے نام پر مرمٹنے والے جیالے ایک ہی بات کہیں
گئے حکومت کو بیشمار مسائل کا سامناہے ،جی ہا ں حکومت کو بے شمار مسائل
کاسامنا ہے اور آئندہ بھی رہے گا،کیوں کہ حکومت خود ان مسائل سے اپنے چاہنے
والوں کی روزی روٹی کے وسائل پیدا کرنا چاہتی ہے حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے
؟؟؟؟ کوئی ہے تو مجھے بتائے؟؟؟ کوئی نہیں بتائے گا،کیوں کہ میں خود بتانے
لگا ہوں کہ حکومت ایساکیوں کر رہی ہے ،ارے بھائی صاحب حکومت نے غریب عوام
کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ،اب یہ مہنگائی کا ٹرک جس طرف بھی چلا
جائے عوام بھی اس طرف اس کے پیچھے چلی گی،حکومت کو اپنے حامیوں کے اکاونٹ
بھرنے کے لیے بہت ساوقت مل گیا،وو اس کوجہاں سے چاہے اورجیسے چاہے بھر سکتی
ہے حکومت اور حکمرانوں کے چاہنے والے ایک ہی بات بولیں گے کہ حکومت بہت
سارے ترقیاتی کام مکمل کررہی ہے،جناب حکومت یہ بہت سارے ترقیاتی کام بہت کم
عرصے میں ایک ایک کرے مکمل کر سکتی ہے ،کہیں اونج ٹرین کا منصوبہ تو کہیں
میڑوبس کا ، کہیں سیلاب سے متاثرہ سڑکوں کوکام تو کہیں سکولوں کو گرا کر
دوبارہ ان کی تعمیر،حکومت اورحکمران ایک وقت میں سرکاری خزانے کو لوٹ سکتے
ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ اب و ہ ٹاٹ اورتختی کا دورختم ہو گیاہے اب نیا
زمانہ ہے اب دوسری جماعت کاطالب علم جانتاکہ کرپشن کیاہوتی ہے،اس بات سے ڈر
کر حکومت اب سرکاری خزانے کو سر عام لوٹنے اور پھر اپنے اقتدارکو بچانے کی
خاطر عالی شان ،خوبصورت اور مضبوط ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کو دن
رات محنت کررہی ہے ،،،،،،،،،،،،ذرا سوچیے! |