Written By Farnood Alamمولانا محمد جہان یعقوب
یہ ایک شارٹ کلپ ہے،جس کے تخلیق کار،ہدایت کار،مصنف ،فن کار واداکار سبھی
وہی ہیں ،جن کا نام اوپر مذکور ہے،اس میں یہ تاثر دیا گیاہے کہ ہمیں
فرنگیوں کی بالادستی قبول کرتے ہوئے ان کے درمیان مروّج الفاظ
مثلاً:wow,thanks,shit,ohوغیرہ کو سبحان اللہ،ماشا ء اللہ ،ان شاء اللہ ،انا
للہ وغیرہ کے متبادل کے طور پر اپنا لینا چاہیے،اگر ہم ا ن اول الذکر الفاظ
کی جگہ مؤخر الذکر الفاظ کو رائج کرنے کے لیے کوئی تحریکی ،تنظیمی یا فکری
کوشش کریں گے بھی تو وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوگی،اس لیے کہ انھیں علمی حوالے
سے ہم پر غلبہ حاصل ہے،لہٰذا تمدنی وتہذیبی حوالے سے بھی غلبہ انھی کا حق
بنتا ہے۔دوسراتاثر یہ دیا گیا ہے کہ جس طرح اندلس کے علما کی بت معنی علمی
موشگافیوں کی وجہ سے ان پر ہلاکوخان عذاب الٰہی بن کر مسلط ہو اتھا،اب بھی
علما اسی نوع کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں،لہٰذا انھیں سلام کر کے گزر
جائیے،مبادا،آپ بھی کسی ہلاکو خاں جیسے عذاب کی لپیٹ میں ،ان علما کی ہم
نشنینی کی وجہ سے نہ آجائیں!!
مذکورہ بالا دو پیغامات کے ساتھ ساتھ اس کلپ میں شعائر اسلام کو جس بونڈھے
انداز میں تنقید وتضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے،وہ اس پر مستزاد ہے۔
ہم نے جب اس کلپ کو دیکھا تو یقین نہ آیا کہ یہ اسی ہونہار طالب علم کی
تخلیق ہے،جو جامعہ کے پروگرامات میں بڑے ترنم سے نعتیں پڑھا کرتا تھا جو
تحریر کاذوق رکھتا تھا اور جامعہ کے اخبار کے اجرا کے بعد ہم سے اپنی
تحریروں کی اصلاح لینے آیا کرتا تھا جس کے کالموں کی منور راجپوت صاحب اس
ذہن سے اصلاح کیا کرتے تھے کہ آگے چل کر یہ اہل اسلام کی ایک توانا آواز
ثابت ہوگا جسے باقاعدہ تحریر کی تربیت اس کے برادر اکبر نے اس غرض سے دی
تھی کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
جسے ابوالکلام آزاد،عبدالماجد دریا بادی ،جون ایلیا اور دوسرے معرود اہل
قلم کے مطالعے کا مشورہ دینے والوں نے یہ سوچ کر یہ مشورہ دیا تھا کہ ان کے
انداز میں اسلام واہل اسلام کی ترجمانی اس نوجوان کے قلم سے پڑھے لکھے
اذہان پر مثبت اثر ڈالے گی جس کے چہرے پر سجی سنت رسول ۖ دیکھ کر دلی مسرت
ہو تی تھی،کہ خلاق عالم نے یہ نور اسے بڑی فیاضی سے عطا فرمایا تھا جانے
اسے کس کی نظر لگ گئی؟یہ اس کے بڑے بھائی کی تربیت کا اثر اس لیے نہیں ہو
سکتا کہ وہ خود اس سے نالاں ہے۔یہ اس کی مادر علمی کی تربیت کا بھی نتیجہ
نہیں،اس نے عصری دانش گاہوں میں تعلیم بھی نہیں پائی،کہ ہم ان کو مورد
الزام ٹھہرائیں۔پھر یہ سب کیا ہے،جس نے اس کی تمام خوبیوں پر ریڈ کراس(غلط
کا سرخ نشان)پھیر دیا،یہ جس کی بھی کارفرمائی ہو،مگر امام قرطبی کے الفاظ
میں دین سے رشتہ توڑ کر ملنے والی کامیابیوں کی مثال اس شہد کی سی ہے،جس
میں زہر ملادیا جائے۔
میرا چھوٹا بھائی محمد یونش عالم کہاں کھوگیا؟مجھے اس کی تلاش ہے؟کیا وہ
فرنودیت کو جون ایلیاکی قبر میں دفن کر کے اپنے مرکز کی طرف لوٹ آئے
گا؟ہاں!ہاں!اسے لوٹ آنا چاہیے…جلد اور بلا تاخیر…ورنہ یہ حقیقت تو تاریخ کے
سینے پر ان مٹ سیاہی سے ثبت ہے ہی
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خاک ہو جاؤگے افسانوں میں کھو جاؤگے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے |