آدم ؑ کے زمین پر آنے کے ساتھ ہی ایک ایسی دنیا وجود میں
آگئی الٰہی ٰ کی بار بار ضرورت تھی ۔ یہ دنیا براہ راست مشاہدۂ حق سے محر
وم تھی جسے حقیقت پہنچانے کیلئے مختلف مظاہر و دلائل درکار تھے چنانچہ اﷲ
تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق زمین پر آباد نسل آدم کو ہدایت کی راہ دکھانے
کیلئے مسلسل اور مربوط و جامع انتظام کیا اور انبیاء کے ذریعے ہر انسان تک
تعلیمات الٰہی پہنچانے کا سلسلہ پیہم جاری رہا۔ جوں جوں زمین پر انسانی
آبادی بڑھتی گئی انبیاء کی ترسیل ، ان کے ذریعے آگاہی و تنبیہہ کا سلسلہ
بھی بڑھتا گیا۔ انسان کے دنیوی شعور کے آغا ز کے ساتھ رسولوں کی تعلیم میں
معجزات کا جزو بھی شامل کیا گیا اس لئے کہ انسان کا شعور کسی عظیم ہستی کو
تسلیم کرنے کیلئے کسی عظیم مظاہرہ ٔ قوت اور کسی حیرت انگیز طاقتور ہستی کی
کارروائی کا مشاہدہ ضروری سمجھتا تھا ۔ اس کے خیال میں اﷲ تعالیٰ ایسی عظیم
ہستی کی نمائندگی کرنے والے دعویدار انسان سے ایسے حیرت انگیز امور سرزد
ہونے ضروری تھے جن سے اس کے پیچھے کسی بڑی قوت کی موجودگی کا ثبوت فراہم ہو
یہی وجہ ہے کہ معجزات کا یہ سلسلہ انسان کے اسی شعور کی تسکین کا سامان تھا
، یہ سلسلہ ایک طویل مدت تک تعلیمات الٰہی کی حقانیت کی پشت پر خود اﷲ
تعالیٰ کی موجودگی اور دعوت الٰہی کی سند تھی لیکن نبی ِ آخرالزماں ﷺ تک
پہنچتے پہنچتے انسان کادنیوی شعور اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ اسے صرف دلیل و
برہان سے ہی حقیقت تک پہنچنے کا راستہ بتانے کی ضرورت تھی گوکہ خود نبی
کریم ﷺ سے بھی بے شمار معجزات صادر ہوئے لیکن ان کی حیثیت دلیل نبوت سے
زیادہ امداد الٰہی اور اطمینان نبوت تھا۔ نبی ﷺ پر قیامت تک انسان کی
رہنمائی اور ہدایت کافریضہ تھا اس لئے آپ ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد ، دلیل ،
برہان ، مشاہدہ ٔ فطرت اور معجزہ ٔ کردار پر رکھی گئی جس سے بڑے بڑے عقل
مند انسان بھی عقلی دلائل سے ربانی تعلیمات کا قائل لرنا ممکن بنادیا۔ پوری
انسانیت کے طرف آخری بنی کی حیثیت سے حضو ر ﷺ کی شان رسالت کے بے شمار پہلو
ہیں ان میں ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں جامع علم کی بنیاد پر رسول بناکر بھیجا
گیا ہے ۔ وہ جامع علم جو انسان کے تجسس اور اس کی تعلیم و تربیت کا جدید
ترین تقاضوں کے مطابق مثالی جواب مہیا کرتا ہے ۔انسان کیزہنی الجھن ، اس کے
نفسیاتی تقاضے ، آفاق و نفس میں اس کی تگ و دو کیلئے خطوط کا تعین اور اس
کی قیامت تک ذہنی و فکری معاملات کا فطری جواب فراہم کردیا گیا ہے ۔ اسلا م
چند غیر عقلی اور منجمد عقائد انسان کے سر نہیں منڈھتا بلکہ متحرک اور فعال
اصول ِ زندگی اس کے سامنے رکھتا ہے جو بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق اس کی
جامع رہنمائی کرتے رہتے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ درحقیقت جامع علم کی بنیاد پر
رسول اور ہادی ہیں اور ان کا علم ہٹ دھرمی اور تعصب کو چھوڑ کر بے لاگ سوچ
بچار کیلئے واضح خطوط ِ ہدایت مہیا کرتا ہے ۔ وہ علم معقول ار ٹھوس استدلال
کے ذریعے ان امور کی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، نبی ﷺ کی ایک شان یہ
بھی ہیکہ دعوت دین کیلئے ان کا سینہ اس طرح کھلا ہوا تھا اس میں کوئی رکاوٹ
اور تنگی موجود نہیں تھی ۔ دعوت پش کرنے میں قادر الکلام خطیب ار ناخواندہ
لوگوں تک دعوت پہنچانے میں بھی ان کا انداز تفہیم و تعلیم حیرت انگیز تک
سریع الاثر تھی ۔ کافروں کے سردار اور منکرین ِ حق کے سرخیل بھی اگر بحث و
مناظر کیلئے آتے تو حضور ﷺ کی چند باتیں سننے کے بعد ہی اپنی ذہنی اور عقلی
کیفیت میں نہ صرف تغیر محسوس کرتے بلکہ اگر اعتراف ِ حق کیلئے ان کیلئے
ممکن اور مقدور نہیں ہوتا تو وہ اپنی خیریت راہ ِ فرار میں ہی دیکھتے تھے۔
آپ ﷺ کی دعوت نے معاشرے کے بوجھوں کو ہلکا کیا اورتمام دیرینہ ردوم و قیود
کی جڑیں کاٹ کر انسانی معاشرے کو سہل اور سادہ زندگی گزارنے کے قابل بنادیا
۔ آپ ﷺ سے قبل انسان اپنے ہی بنائے ہوئے پھندوں میں پھنسا اور جکڑ اہو ا
تھا اور صدیوں سے اپنے ہی لادے ہوئے بوجھ تلے دبا کراہ رہا تھا ، حضور ﷺ نے
انسانیت کے بوجھ ہلکے کئے اور اسے زندگی کی شاہراہ پر ہلکے پھلکے انداز میں
چلنا سکھا دیا ۔ آپ ﷺ کو جہاں مخالفت کرنے والوں ، جان قربان کرنے والوں
اور قربانیاں دے کر دین حق کو دنیا کو دنیا کے آخری کناروں تک پہنچانے کا
داعیہ رکھنے والوں سے بھی سابقہ پیش آیا ۔ مخالفت کرنے والوں نے بلاشبہ سخت
ترین مخالفت کی مگر رفاقت کرننے والوں نے بھی قابل رشک اور مثالی رفاقت
کرکے دکھائی جس کی وجہ سے مزاحمت کاروں کا زور بتدریج ـٹوٹتا چلا گیا یہاں
تک کہ مزاحمت ثانوی رہ گئی اور تحریک اسلامی پورے معاشرے میں پنی تعلیم اور
کردار کے بل بوتے پر غالب آگئی ، یہ وہ فطری اور تدریجی کامیابی کی شان ہے
جو خاص حضور ﷺ کی خصوصیت ہے ۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جو قیامت تک انسانی معاشرے
میں کام کرتے ہوئے اسلامی جدوجہد کے راستے میں روشنی کا مینار بن کر سامنے
آتی رہے گی اور قافلے اس کی مدد سے آگے بڑھتے رہیں گے ۔ آپ ﷺ نے اسلامی
انقلاب کی خاطر اپنی ساری قوت ان اصولوں پر نافذ کرنے میں صرف کردی جو
انسان کی فلاح کا بنیادی جزو ہیں اور کائنات کا نظام جن اصولوں پر قائم ہے
، انہی اصولوں پر انسانی زندگی کا سارا ڈھانچہ تعمیر کرنے کی جدوجہد میں آپ
ﷺ نے زمانے بھر کی مصیبتوں کو بردشت کیا ۔قوم نے جب جینا دوبھرکردیا، لالچ
دئے ، دھمکیاں ملیں ، نظربند کیا گیا، جلا وطنی پر مجبور ہوئے ، طائف کے
بازاروں میں پتھر کھا کر لہولہان ہوئے لیکن آپ ﷺ نے اس وقت بھی استقامت کا
مظاہرہ کیا اور اسلامی انقلاب کو دنیا بھر میں برپا کرنے کے عزم کا اعادہ
کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ
دیا جائے تب بھی میں دعوت اسلام سے باز نہیں آؤں گا ۔ آپ ﷺ کے قتل کی
سازشیں ہوئیں مگر آپ ﷺ نے جس اصول کی حقانیت کا نعرہ لگایا اور علم اٹھایا
تھا ، جس راہ کی طرف دنیا کو بلایا تھا اس پر مضبوطی سے قائم رہے یہاں تک
کہ فلاح انسانیت کے ان عالمگیر اصولوں کی جڑیں قیامت تک کیلئے زمین میں
گہریں جمادیں ۔ آپ ﷺ کا قائم کردہ معاشرہ خالص خدا کی بندگی کے اصولوں پر
تعمیر ہوا جس میں داخلہ فیس صرف لا الٰہ الااﷲ محمدالرسول اﷲ ہے ، اسی طرح
دنیا کے عظیم ترین ہادی اور کامیاب ترین قائد نے دنیا کی ایک نئی تعمیر کی
اور نیا نظام اخلاق دیا ، نیا نظام تعلیم ، نیا نظام تمدن ، نیانظام معاشرت
و معیشت اور نیا نظام حکومت دیا۔ آپ ﷺ نے ساری دنیا کے سامنے یہ مظاہرہ
کرکے دکھا دیا کہ پاکیزہ اصولوں پر ایک صالح نظام کس طرح تعمیر ہوسکتا ہے
اور وہ دنیا کو کتنی رحمت و برکت سے بھر سکتا ہے ۔ نبی مہربان ﷺ کا ایک
معجزہ یہ ہے کہ آپ نے دعوت دین و دیگر معاشرتی امور میں کبھی لوگوں سے ترش
روی اور بے رخی نہیں برتی ،کبھی بے پروائی اور بے نیازی سے کام نہیں لیا
اور نہ ہی کبھی اسلامی نظام کے نفاذ میں زبردستی یا سختی کو آڑے آنے دیا ،
آپ ﷺ ہمیشہ آسان ترین پیرائے میں دعوت دیتے تھے، حضور ﷺ کی ساری جدوجہد اﷲ
کی توکل سے ہوتی ۔ یہی طریقہ کار نبی ﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین اور
ان کے بعد مسلم حکمرانوں کے ادوار میں دیکھا گیا، جن کا مقصد دنیا میں امن
و امان قائم کرنا اور بندگان خدا کی خدمت کے ساتھ اسلام کی اصل روح و
تعلیمات کو عام کرنا تھا۔ محمد بن قاسم ، یوسف بن تاشفین ، محمود غزنوی
سمیت تمام اسلام کے سپہ سالاروں نے جہاں مسلمانوں کی طاقت کو دنیا میں باور
کروایا وہیں اسلام کے ذریں اصولوں کو بھی نافذ کیا جس کے تحت کہیں بھی
مظلوم و نہتے افراد کے ساتھ تشدد یا شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ عوام
اور جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا گیا جس نے اسلام کی اشاعت میں
مدد فراہم کی ۔ گویا یہ طے ہوگیا کہ اسلام کسی بھی طرح کی شدت پسندی یا
دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا ۔
تاریخ اسلام اس با ت کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بزور طاقت اسلام کو
کسی شخص پر مسلط نہیں کیا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے مزاج کے مطابق ہے ۔ اﷲ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ یونس کی آیات 99سے 104میں ارشاد فرمادیا کہ ًاگر
تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی ( کہ امین میں سب مومن اور فرمانبردار ہی ہوں ) تو
سارے اہل زمین ایمان لے آتے ۔ تو کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن
ہوجائیں ؟کوئی متنفس اﷲ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا ، اور اﷲ کا
طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ، وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے
۔ان کہو! ًزمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ً اور
جو لوگ ایمان لانا نہیں چاہتے ، ان کیلئے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید
ہوسکتی ہیں ۔ اب یہ لوگ اس کے سوا اور کس چیز کے منتظر ہیں کہ وہی برے دن
دیکھیں جو ان سے پہلے گزرے ہوئے دیکھ چکے ہیں ؟ ان سے کہو! ً اچھا انتظار
کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ ً پھر ( جب ایسا وقت آتا ہے
تو ) ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو بچالیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں
۔ ہمارا یہی طریقہ ہے ۔ ہم پر حق ہے کہ مومنوں کو بچالیں ۔ ً
یعنی اگر اﷲ کی خواہش یہ ہوتی کہ اس زمین میں صرف اطاعت گزار و فرمانبردار
ہی بسیں اور کفر و نافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی ہو تو اس کیلئے نہ یہ
مشکل تھا کہ وہ تمام اہل زمین کو مومن اور مطیع پیدا کرتا اور نہ ہی یہ
مشکل تھا کہ سب کے دل اپنے ایک ہی تکوینی اشارے سے ایمان اور اطاعت کی طرف
پھیر دیتا ، مگر نوع انسانی کے پیدا کرنے میں جو حکیمانہ غرض اس کے پیش نظر
ہے وہ اس تخلیقی و تکوینی جبر کے استعمال سے فوت ہوجاتی ، اس لئے اﷲ تعالیٰ
خود ہی انسانوں کو ایمان لانے یا نہ لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے
میں آزاد رکھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی کو زبردستی مومن
بنانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اﷲ کو ایسا کوئی بھی جبری ایمان منظور نہیں
تھا جس کی بنا پر تشدد کیا جاتا وگرنہ نبی و رسول بھیجنے کی کیا ضرور ت تھی
، یہ کام تو وہ خود بہت آسانی سے کرلیتا۔ یہ بہت اہم نقطہ جو سمجھنے کیلئے
ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو زبردستی کا کوئی سودا قبول نہیں ہے ۔ جس طرح تمام
نعمتیں تنہا اﷲ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اﷲ کی مرضی
اور اذن کے بغیر نہ خود حاصل کرسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے ،
اسی طرح ایمان کی یہ نعمت بھی کوئی جو صاحب ایمان ہو اور راہ راست کی طرف
ہدایت پائے ، اﷲ کے اذن پر منحصر ہے ۔ یہ واضح ہوگیا کہ کوئی شخص نہ اس
نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پاسکتا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے اختیار
میں ہے کہ جسے چاہے یہ نعمت عطا کردے۔ پس نبی اگر سچے دل یہ چاہے بھی کہ وہ
لوگوں کو مومن بنادے تو نہیں بناسکتا ، اس کیلئے بھی اﷲ کا اذن اور اس کی
توفیق درکار ہے ۔ یہاں یہ بات بھی سجھ لینا بہت ضروری ہے کہ اﷲ کا اذن اور
اس کی توفیق کو اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول
ضابطے کہ یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دے دیا اور جسے چاہا
اس موقع سے محروم کردیا بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جو شخص حق کی تلاش میں
بے لاگ طریقے سے اپنی عقل ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے ، اس کیلئے اﷲ کی طرف
سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی ( کوشش) و طلب کے تناسب سے فراہم
کردئے جاتے ہیں ، اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی
جاتی ہے ، البتہ وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور اپنی عقل کو تعصبات کے
پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں یا سرے سے ہی حق میں اسے استعمال نہیں کرتے تو
ان کیلئے اﷲ تعالیٰ کے خزانہ ٔ قسمت میں جہالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں
اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہے ۔
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے
تشدد اور مظالم آئے روز بڑھتے جارہے ہیں ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسی
اسلامی تحریکیں جنم لے رہی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و جبر کیخلاف
کام کررہی ہیں یا نفاذ اسلا م کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔ کبھی طالبان ، کبھی
القائدہ اور اب اسلامک اسٹیٹ کے نام پر مبینہ جہادیوں کا گروہ سامنے آیا ہے
۔ داعش میں شامل بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے بہتر روزگار کیلئے اپنا گھر بار
چھوڑا اور اسلامک اسٹیٹ کا حصہ بن گئے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمدہ طرز
زندگی ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی زندگی خطرے میں کیوں ڈالی ؟اس کی وجہ
یہ شاید یہ ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں مسلمانوں کا بڑے
پیمانے پر قتل عام کیا ، فلسطینیوں کے مکان اور بستیاں تباہ کردیں ، ہزاروں
کی تعداد میں قتل ہونے والے مسلمانوں میں بچے اور بوڑھے بھی تھے جو نہتے
تھے، ہزاروں زخمی ہوئے اور بیشتر معذور بھی ہوئے لیکن اسرائیلی جارحیت پر
امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے ہمدردری کے دوبول بھی نہیں کہے گئے داعش
نے ایک مغربی صحافی کا سرتن سے جدا کردیا جو انسانی طرز عمل کے یقینی طور
پر خلاف ہے لیکن اسے مسلمانوں کی بربریت گردانا گیا ۔ اگر ہم ماضی پر نظر
ڈورائیں تو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مشرق وسطیٰ کے نام نہاد مسلمان ہمیشہ
مغرب کے مہمان نواز رہے ہیں اس کے باوجود مغرب نے اپنے مفاد کی جنگ اس خطے
میں لڑی ۔ انہوں نے عربوں کے ایک ملک شام کو توڑ کر عراق ، لبنان ، فلسطین
اور شام کی ریاستوں میں تقسیم کردیا ۔ مسلمان اس وقت خود کو امت مسلمہ
سمجھتے تھے انہیں قومیتوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ مغرب نے عربوں سے کیا ہوا
وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ شام سے ترکوں کو نکال کر ملک شام عربوں کے حوالے
کردیا ، عراق برطانیہ کی جھولی میں جاگرا، شام کا بیشتر حصہ اور لبنان
فرانس کی تحویل میں جبکہ فلسطین کو برطانیہ کے زیر اثر قرار دیا گیا جو بعد
میں فلسطینیوں کو واپس کرنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ مغرب کی جانب سے اسلام
و مسلم دشمن جذبات اور اقدامات کا مظاہرہ کئی موقعں پر کیا گیا اور اب کوشش
کی جارہی ہے کہ اسے حقیقت کا روپ دھارا جائے ۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا
الزام مسلمانوں پر لگا کر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی گئی ، عراقی اس
کارروائی کے ذمہ دار نہ تھے لیکن کیمیائی ہتھیاروں کا تاثر قائم کرکے اسے
تباہ کیا گیا بعدازاں برطانیہ نے خود اعتراف کیا کہ اس کے الزامات جھوٹے
تھے ۔ افغانستان پر حملہ طالبان حکومت کے خاتمے اور اسامہ بن لادن کے قتل
کیلئے کیا گیا ، اب نہ افگانستان میں طالبان حکومت ہے اور نہ ہی اسامہ اس
دنیا میں رہا لیکن مسلمانوں کے خلاف مغربی کارروائیاں بدستور جاری ہیں ۔
ایک طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب نہیں مگر دوسری
جانب اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھاجا رہا ہے جو کسی بھی
طرح سے انسانی حقوق کے متقاضی نہیں ۔
داعش کا وجود انہیں اقدامات کے خلاف عمل میں آیا ، اس کا نظریہ یہ ہے کہ
غیر مسلم طاقتوں کی خلاف ایک اسلامی ریاست قائم کی جائے تاکہ ظلم و جبر کا
باب بند ہوسکے ۔ داعش کو کوئی بھی ذی شعور فرد اسلام کا خدمت گا تصور نہیں
کرتا کیونکہ اس کے اندر کوئی ایسا ضابطہ یا قانون نہیں جو اسلام کے ذریں
اصولوں سے مطابقت رکھتا ہو ۔ یہ تشدد اور زبردستی کا اسلام نافذ کرنا چاہتا
ہے جس کی کم از کم اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ ہجرت کے بعد جنگ و جہاد کا
سلسلہ شروع ہوا تاکہ مسلمانوں کو ہجرت کے باوجود تنگ کرنے والوں کا استیصال
کیا جاسکے اور دین اسلام کا مکمل غلبہ ہوسکے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر
بھی دانش اور حکمت کا راستہ اختیار کیا جس نے مسلمانوں کی جنگ کو دوسروں سے
ممتاز کردیا ۔ اﷲ نے مسلمانوں کے لشکر کو اپنا لشکر قرار دیا ہے اسی لئے اس
میں خدا کی صفات موجود تھیں اور اﷲ کے نبی ﷺ نے بھی مسلمانوں کے گروہ میں
اخلاقی صفات کی بھر پور تربیت دی ۔ اسلام سے قبل دنیا جنگی قیدیوں کے ساتھ
بدترینن بہیمانہ سلوک کرتی تھی ، ان کی عزت و آبرواور جان و مال غرض ہر شے
کو پاؤں تلے روندھ دیتی تھی لیکن آپ ﷺ نے پہلی بار قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک
کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کیا ۔ فتح مکہ کے موقع پر لائے گئے جنگی قیدیوں کو
خود روٹی پیش کی ،سواری فراہم کی ۔ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا یہ حال تھا کہ آپ
ﷺ مکہ میں ایک فاتح کی بجائے ایک بھائی بن کر داخل ہوئے اور فرمایا کہ ًاے
گرو ہ قریش! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور آباؤاجداد پر اترانے کا غرور
ختم کردیا ۔۔ سچ تو یہ ہے کہ سب لوف آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو مٹی سے
بنایا گیا تھا ۔ پھر فرمایا اچھا جاؤ تم سب آزاد ہو اور تم پر آج کوئی
موخذہ نہیں ہے ۔ ً یہ طریقہ آپ ﷺ ہر جنگ میں اپنایا جس سے اسلام کو تقویت
ملی اور لوگ جوق در جوق دین الٰہی میں بغیر کسی جبر کے داخل ہوئے ۔
اﷲ تعالی ٰ نے قرآن میں صاف صاف فرمادیا ہے کہ مسلمان ہی اس زمین پر حکومت
کریں گے اوریقینااس زمین پر اسلام ہی کا غلبہ ہونا ہے ، کیونکہ اسلام مغلوب
ہونے کیلئے نہیں غالب ہونے کیلئے آیا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں کہیں بھی زبردستی
یا جبر کے ساتھ مسلمانوں کو وقتی طور پر مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے لیکن
اگر نبی مہربان کی حکمت اور تعلیمات پر عمل کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہم
غالب نہ ہوں البتہ اہم بات یہ ہے کہ اﷲ کا اذن ہوگا تو اشاعت دین میں حائل
تمام رکاوٹیں بھی ختم ہوجائیں گی ۔ یہی حکمت انقلاب ہے جس کی بدولت دنیا
بھر اسلامی انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔ |