(تحریر……علامہ ڈاکٹرسیدمحمدوقاص ہاشمی)
رزق کا معنٰی و مفہوم:
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ ’’رز ق ‘‘ کا لغوی معنی ہے، ’’عطا‘‘، خواہ
دنیاوی عطا ہو یا اخروی اور رزق کا معنی ’’نصیب‘‘ بھی ہے، جو غذا پیٹ میں
جائے اس کہ رزق کہتے ہیں اور ’’علم‘‘ دینے کو بھی رزق کہتے ہیں․․․․․․․
علامہ تفتا زانی رزق کا اصلاحی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : رزق وہ
ہے جس کو اﷲ تعالیٰ جاندار تک پہنچائے اور وہ اس کو کھائے اور پیئے ، خواہ
وہ حلال ہو یا حرام‘‘۔ (بہ حوالہ: تفسیر تبیان لقرآن: جلد 1 صفحہ 286)
رزق…… صرف مال و دولت اور کھانے پینے کے سامان کی حدتک محدود نہیں ہے، بلکہ
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی انسان کو ملے ، وہ سب رزق ہے اور کائنات کی
ہر شئے مثلاً مٹی، پانی، آگ، ہوا، روشنی، حرارت، دن و رات کا الٹ پھیر،
موسموں کا تبدیل ہونا، صحت و سلامتی، کام کرنے کی طاقت و صلاحیت، علم
وعرفاں، عقل ودماغ، عزم و ہمت، وسا ئل کار وغیرہ…… یہ سب ہمارے لئے سامانِ
رزق ہیں۔
کسب حلال
’’کسب ِحلال‘‘ دوالفاظ سے مرکب ہے جس کے معنی ہیں ’’حلال کمانا‘‘۔ اسلامی
اصطلاح میں اس سے مرادمسلمان کاحلال اورجائز ذرائع اور معروف طریقے سے محنت
ومشقت یا تجارت کے ذریعے روزی کمانا کسب حلال کہلاتا ہے۔اگرمال ودولت
ناجائز ذرائع مثلاً سود، رشوت، چوری و ڈکیتی، بلیک مار کیٹنگ اور اسمگلنگ
اور دیگر غلط ذرائع (جنہیں اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے) سے حاصل کیا گیا
ہے تو وہ اسلام کی نظر میں پاکیزہ نہیں ہے بلکہ وہ مال ناجائز اور حرام ہے۔
اسلام یہ تاکید فرماتاہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر بھی پاک
و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی وہ پاک و صاف اور طیب و حلال ہو۔
قرآن پاک میں حلال روزی کھانے کے بارے میں اﷲتبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی
ہے: ’’اے لوگو! زمین کی ان چیزوں میں سے کھاؤ جو حلال اور طیب ہیں اور
شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہا را کھلا ہو ادشمن ہے‘‘۔(القرآن)
٭رزق حلال کی اہمیت اور فلسفہ:
حصول ِ رزق ِ حلال عین عبادت ہے…… یعنی جب کسی کا کھانا، پینا اور پہننا
اور سب کسب ِحلال سے ہوگا تو اس کا کھانا، پینا اور پہننا سب کچھ عبادت میں
شمار ہوگا۔ قرآن پاک میں حلال روزی کھانے کے بارے میں اﷲتبارک و تعالیٰ کا
ارشاد گرامی ہے: ’’اے ایمان والو! ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں
دی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرتے رہو، اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے
ہو‘‘۔(سورۃ البقرہ : 172)
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو! زمین کی ان چیزوں میں
سے کھاؤ جو حلال اور طیب ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ
تمہا را کھلا ہو ادشمن ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ :آیت168 )
سورۃُ المائدہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے ایمان والو!) اور کھاؤ جو
کچھ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں روزی عطا کی حلال و پاکیزہ، اور ڈرتے رہو اﷲ سے، جس
پر تمہیں ایمان ہے‘‘․․․․(سورۃ المائدہ: آیت 88)
اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جائز طریقے سے حلال روزی کا کمانا اور کھانا اسی
طرح فرض ہے جس طرح دوسرے ارکان اسلام پر عمل کرنافرض ہے۔ یعنی مسلمانوں پر
نماز، روزہ اور زکوٰ ۃ وغیرہ کی طرح حلال روزی کا کمانا اور کھانا بھی فرض
ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ ’’روزی کا حلال ذریعہ تلاش کرنا ایک فرض کے بعد دوسرا فرض
ہے‘‘۔(مشکوٰۃ شریف، شعب الایمان)
یعنی فرض باتوں کے بعد ایک اور فرض کسبِ حلال کی تلاش ہے ،یعنی حلال کا
لقمہ کھانے کے لئے حلال کی روزی کمانا ضروری ہے کیونکہ حلال کی کمائی ہوئی
روزی سے ہی حلال کا لقمہ مل سکتا ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص لگاتار حلال کی روزی
کھاتا ہے اور حرام کے لقمہ کی آمیزش نہیں ہونے دیتا تو اﷲ تبارک و تعالیٰ
اس کے دل کو اپنے نور سے روشن کردیتا ہے اور علم و حکمت کے چشمے اس کے دل
سے جاری ہو جاتے ہیں․․․․․(کیمیائے سعادت/احیاء العلوم)
٭رزق حلال اور اسلامی تعلیمات:
قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حلال و طیب
اور پاکیزہ روزی کھانے کا حکم دیا ہے۔ آج دنیامیں سائنس کی ترقی کا دور ہے-
کھانے پینے کی صفائی اور پاکیزگی کا درس ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت
محمدﷺ نے دیا ہے، ہمارا چیلنج ہے کہ اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے
گی۔کیونکہ ترقی یافتہ اقوام کے نزدیک کھانے پینے کا یہی معیار ہے کہ وہ میل
کچیل اور گندگی سے ظاہری طور پر پاک و صاف ہو،مگر اسلام نے اپنے ماننے
والوں کو یہ تاکیدوتلقین فرمائی ہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور
پر بھی پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی وہ پاک و صاف اور طیب و حلال
ہو۔ ناجائز ذرائع سے حاصل نہ کیا گیا ہو۔ اگر وہ مال سود، رشوت، چوری و
ڈکیتی، بلیک مار کیٹنگ اور اسمگلنگ اور دیگر غلط ذرائع (جنہیں اسلام نے
ناجائز قرار دیا ہے) سے حاصل کیا گیا ہے تو وہ اسلام کی نظر میں پاکیزہ
نہیں ہے بلکہ وہ مال ناجائز اور حرام ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں فرمانِ رسولﷺ ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے
گا، جبکہ آدمی یہ پروا نہیں کرے گا کہ وہ جو کچھ حاصل کررہاہے آیا کہ وہ
حلال ہے یا حرام ہے‘‘․․․․․(صحیح بخاری ،سنن نسائی)
سورۃالمؤمنون میں اﷲ جل شانہ نے اپنے پیغمبروں اور رسولوں کے لئے بھی کسبِ
حلال اور رزقِ حلال پسند فرماتے ہوئے حکم فرمایا: ’’اے میرے رسولو! پاک
چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں تمہارے سب کاموں کو خوب
جانتا ہوں۔(سورۃالمؤمنون: 51)
یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں پاکیزہ اور
حلال روزی کھانے کا حکم پہلے فرمایا ہے اور نیک اعمال اور عبادات کا بعد
میں حکم فرمایا، تو یوں سمجھ لیجئے کہ اعمال اس وقت ہی صالح اور مقبول ہو
سکتے ہیں جب کہ لقمۂ حلال پیٹ میں ہوگا اور عبادت بھی خلوصِ نیت سے اس وقت
ہو سکے گی جب ہم حلال و طیب روزی کھائیں گے․․․
رزق حلال کے سا تھ طیب (پا کیز ہ) کی جو صفت لگائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے
کہ
(۱) روزی میں چیزیں بجائے خود پاکیزہ ہوں ۔
(۲) اسلام نے انہیں جائز قرار دیا ہو۔
(۳) پھر وہ حلال طریقے سے حاصل کی گئی ہوں۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ : بے شک اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اسی بات کا حکم فرمایا ہے
جس کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیاتھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: اے رسولو!
پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو۔ (سورۃالمؤمنون: ۵۱) پھر
مومنین کو مخا طب کرکے فرمایا: ’’اے ایمان والو! پاک چیزوں میں سے کھا ؤ جو
ہم نے تمہیں دی ہیں۔ (البقرہ: ۱۷۲) پھر آپ ْ ﷺنے ایک ایسے شخص کا ذکر
فرمایا جو ایک طویل سفر طے کرکے آتا ہے اور بال بکھرے ہوئے اورغبار آلود
ہیں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر پکارتا ہے: اے رب ! اے
رب!(یعنی دعائیں کرتا ہے)حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے،
اس کا لباس حرام ہے اور اسے حرام غذا کھلائی گئی ہے تو بھلا ایسے شخص کی
دعاء کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
(صحیح مسلم، جامع ترمذی، مشکوۃ شریف)
اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ قبولیت ِدعا کے لئے رزق حلال ہونا ایک
بنیادی شرط ہے۔ اس لئے کاملین امت نے فرمایاکہ’’ اکل ِحلال (حلال روزی
کھانا) اور صدق ِمقال(سچی بات کرنا ) کا نام ہی ولایت ہے۔
کتاب و سنت میں رزق حلال اختیار کرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر بہت زیادہ
زور دیا گیا ہے ، کیونکہ اگر غذا حرام اور ناپاک ہوگی تو دل سیاہ ہوجاتاہے
اور اس میں قساوت اور ظلمت آجاتی ہے ۔ قبولِ ہدایت کی صلاحیت اور استعداد
ختم ہو جاتی ہے، جذبات کا رخ شیطان اور شہوات کی طرف بدل جاتا ہے، اعمال
خیر کی توفیق سلب ہو جاتی ہے، اسی طرح اگر غذا حلال اور پاکیزہ ہوگی تو دل
میں ایک عجیب سا سکون اور کیف و سرور محسوس ہو تا ہے، اعمال خیر کی توفیق
حاصل ہوتی ہے اولاد نیک اور فرمانبردار ہوتی ہے، صبر و شکر اور استغناء کے
جذبات اس میں پیدا ہوتے ہیں، دل و دماغ میں پاکیزہ خیالات آتے ہیں اور
انوارِ ربانی کی بارش برستی محسوس ہوتی ہے۔ کھانے کا اثر دل و دماغ، خیالات
، عادات سب پر پڑتا ہے۔ حلال و طیب روزی سے خیالات میں پاکیزگی، دل میں
نورانیت و نرمی ، عباتوں میں خشوع و خضوع، آنکھوں میں تازگی، نماز میں لطف
و لذت، دعاؤں میں قبولیت اور زبان میں تاثیر وغیرہ صرف حلال روزی سے ہی
پیدا ہوتا ہے۔
٭انبیاء کا کسب حلال:
رزق حلال کے لئے کسب کرنا سنتِ انبیاء کرام ہے ۔ حضرات انبیاء کرام علیھم
السلام نے حلال روزی کمانے کیلئے کوئی نہ کوئی کسب ضرور اختیار فرمایا ہے
-مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باری کرتے تھے…… حضرت نوح علیہ السلام
نجار یعنی بڑھئی کا کام کرتے تھے…… حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت ہود
علیہ السلام تجارت کرتے تھے…… حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سی کر گزارا
کرتے تھے……حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے……حضرت شعیب علیہ
السلام جانوروں صوف اور ریشم وغیرہ سے اپنی روزی حاصل کرتے تھے…… حضرت
موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے تھے……حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں وغیرہ
بناکر گزر اوقات کرتے تھے……حضرت سلیمان علیہ السلام (جو تمام روئے زمین کہ
بادشاہ تھے، وہ بھی) درختوں کے پتوں کی چھال سے دستی پنکھے ، بوریاں اور
زنبیلیں وغیرہ تیار کرکے روزی حاصل کرتے تھے…… اور ہمارے آقا و مولا سید
الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام نے بہ حکم الٰہی کسبِ حلال کے لئے کوئی نہ کوئی
ذریعہ اختیار فرمایا ہے اور ہمارے لئے بھی چونکہ کسبِ حلال کا حکم ہے، تو
ہمارا کسب ِحلال کے لئے کوئی بھی حلال ذریعہ اختیار کرنا یہ حکم خداوندی کی
تعمیل بھی ہے اور سنت انبیاء پر عمل بھی ہے، لہٰذا جو روزی ہم اپنی محنت
اور جائز طریقے سے حاصل کریں گے۔ تو وہ روزی حلال بھی ہے اور پاکیزہ بھی ہے
اور اس کا درجہ بھی عبادت میں ہی شمار ہوگا۔
رزقِ حلال کی عظمت وفضیلت:
حضرت انس بن مالک ص بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲانے ارشاد فرمایا کہ: ’’رزق
ِحلال کا طلب کرنا ہر مسلماں(مردو عورت) پر فرض ہے ‘‘․․․․(الترغیب و
الترہیب)
ترجمانُ القرآن حضرت عبداﷲ بن عباس ث نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ :’’ حضرت
سعد بن ابی وقاص ص نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ! آپ دعا فرمائیں
کہ اﷲ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوات (یعنی جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں) بنادے
، تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لقمہ حلال اپنے لئے لازم کرلو(یعنی
حلال روزی کھاتے رہو) تو خود بہ خود مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے ‘‘- پھر آپﷺ
نے فرمایا:
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدا کی جان ہے !جو انسا ن اپنے
پیٹ میں لقمۂ حرام ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی چالیس دن کی عبادت قبول
نہیں ہوتی، جو گوشت پوست حرام سے پلا ہو توآگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے‘‘ ۔
(الترغیب و الترہیب، طبرانی)
رزق حلال ! اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، کہ اس کی بدولت
عبادات و ا عمال میں مقبولیت پیدا ہوتی ہے اور رزقِ حلال کھانے والا مستجاب
الدعوات بن جاتا ہے، بڑے ہی خوش نصیب ہیں، وہ افراد جنہیں رزقِ حلال ایسی
عظیم نعمت میسر ہے۔
حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ: ’’کسی شخص نے اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا، جو اس نے
اپنے ہاتھ سے کما کر کھا یا ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام
اپنے ہا تھوں سے کما کر کھاتے تھے ‘‘۔(صحیح بخاری…… مشکٰوۃ المصابیح)
اس حدیثِ مبارکہ سے مقصود گداگری اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے روکنا
ہے اور اس بات کی بھی تعلیم دینی ہے کہ آدمی کو اپنے روزی خود کمانی چاہئے
، کسی دوسرے شخص پر بار اور بوجھ بن کر زندگی نہیں گزارنی چاہئے، جیسا کہ
ایک حدیث مبارکہ میں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اوپر والا ہاتھ نیچے
والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، یعنی دینے والا ہاتھ، لینے والے ہاتھ سے بہتر
ہوتا ہے‘‘۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضور نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’ الکا
سبُ حبیب اﷲ‘‘ یعنی حلال روزی کما نے والا، اﷲ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے‘‘ ۔
دنیا کا کوئی کام محنت و مزدوری اور صنعت و حرفت کے بغیر نہیں چل سکتا۔
حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان عالی شان نے معاشرے میں کسبِ حلال اور محنت
ومزدوری کرنے والوں کی عظمت و شان میں چارچاند لگادئے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
جو شخص حلال روزی اس لئے حاصل کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سوال کرنے سے
بچاسکے اور اپنے اہل و عیال کا خرچ اٹھا سکے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن
سلوک سے پیش آسکے، تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اِس حال میں زندہ فرمائے
گاکہ اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک دار اور روشن
ہوگا‘‘۔(احیاء العلوم/غنیتہ الطالبین)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ: ’’چار چیزیں ایسی ہیں اگر وہ تمہیں حاصل ہو جائیں اور باقی دنیا
کی کوئی چیز تمھیں حاصل نہ ہو تو کوئی افسوس کی بات نہیں ہے۔وہ چار چیزیں
یہ ہیں:
۱: امانت کی حفاظت ۲: بات کی سچائی ۳: حسن خلق ۴: رزقِ حلال
(الترغیب و الترھیب، مجمع الزوائد، مسند امام احمد)
حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرما یاکہ : جو شخص
اپنے بوڑھے والدین کے لئے حلال روزی کماتا ہے اور دوڑ دھوپ میں رہتا ہے وہ
اﷲ کے راستہ میں ہے۔ اور جو آدمی اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لئے محنت و
مشقت کرتا ہے وہ بھی اﷲ کے راستے میں ہے اور جو آدمی اپنی ذات کے لئے محنت
کرتا ہے تا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور لوگوں سے بے پرواہ
ہو جائے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے راستے میں ہے‘‘۔ (احیاء العلوم جلد 2 صفحہ
87)
٭حرام مال سے اجتناب:
حضرات محترم! قرآن مجید میں جہاں متعدد آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں رزقِ
حلال کمانے اور کھانے کی تاکید فرمائی ہے، وہاں متعدد آیات میں حرام مال
اور باطل طریقے سے مال کھانے کی بھی بڑی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، جس طرح
حلا ل روزی حاصل کرنا فرض ہے، اسی طرح مالِ حرام سے بچنا بھی نہایت ضروری
ہے۔ چنانچہ ایمان والوں کے لئے قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اے
ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ‘‘․․․․․
(سورۃالنساء: آیت29)
یعنی کسی کا مال خیانت کے ذریعے، چوری و ڈکیتی یا سود یا رشوت کے ذریعے سے
نہ کھاؤ ، چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر ث فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے رشوت
لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فر مائی ہے․․․․ (سنن ابو داؤد،
مشکٰوۃ شریف)
٭حرام روزی…… جہنم کا ایندھن:
احادیث مبارکہ میں حرام روزی کھانے والے کے لیے بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی
ہیں ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ : ’’و ہ جسم (اپنی سزاپائے بغیر) جنت میں داخل نہیں ہوگا،
جس کی پرورش حرام غذا سے کی گئی ہو‘‘۔․․․․․ (صحیح بخاری، الترغیب والترھیب
، مشکٰوۃ)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جس شخص نے دس درہم کا کوئی
کپڑا خریدا اور اس میں سے ایک درہم بھی حرام کا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس آدمی کی
نماز قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا
‘‘․․․․(الترغیب و الترھیب، مجمع الزوائد، شعب الایمان)
حرام مال میں چوری کا مال، سود کا مال، رشوت کا مال، اسمگلنگ کا مال، اجرتِ
زنا، اجرتِ قتل، اغواء برائے تاوان کا مال، غصب شدہ مال، یتیم کا مال، کم
ناپ تول سے حاصل شدہ مال وغیرہ شامل ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کم
تولنے والوں کیلئے ناراضگی کا اظہار یوں کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’بہت بڑی خرابی ہے (ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کیلئے ، جب وہ لوگوں سے
(اپنا حق) ناپ تول کرلیتے ہیں تو پوراپورا لیتے ہیں، اور جب لوگوں کو ناپ
کر یا تول کر دیتے ہیں تو (ان کو) کمی کرکے دیتے ہیں کیا وہ اتنا خیال بھی
نہیں رکھتے کہ انہیں (قبروں سے زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا ایک بڑے دن
کیلئے جس دن تمام لوگ(اپنے اعمال کی جواب دہی کیلئے) اپنے رب العالمین کے
حضور کھڑے ہوں گے‘‘۔(سورۃالمطففین:1-6)
اسی طرح جو لوگ یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں ان کے بارے میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں یتیم کا مال نہیں بلکہ سراسر آگ
ڈالتے ہیں۔چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے
ساتھ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ بھڑکتی
ہوئی آگ میں پہنچیں گے‘ (سورۃالنساء :10 )
٭ زراعت․․․․بہترین کسب ِحلال:
عزیزان محترم!کسب حلال کے ذرائع تو بے شمار ہیں، مگر سب سے بہتر کسب
’’زراعت‘‘ ہے۔ کیونکہ اس میں ہاتھ کی کمائی اور محنت بھی زیادہ ہے اور یہ
توکل کے بھی زیادہ قریب ہے کیونکہ کسان زمین میں ہل چلاتا ہے، بیج دیتا ہے،
اور وقت پر پانی دیتا رہتا ہے اور پھر اﷲ تعالیٰ پر آس وامید لگا کر بیٹھ
جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس پیشے کو اختیار فرمایا اور
رسول اکرم ﷺ نے بھی اس پیشے کو پسند فرمایا اور اس کی ترغیب دلائی کیونکہ
اس سے تمام انسانوں کیلئے رزق مہیا کیا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
مسلمان بھی باغ لگاتاہے جو زراعت کا کام کرتا ہے اور اس کے باغ یا کھیتی سے
کوئی پرندہ، کوئی جانور یا کوئی انسان کچھ کھا جاتا ہے تو یہ اس کے لئے
صدقہ ہو تا ہے۔
٭تجارت․․․․عمدہ کسب حلال:
دوسرے نمبر پر تجارت کا پیشہ ہے حضرت صالح علیہما السلام نے تجارت کو عمدہ
اور نفیس پیشہ قرار دے کر اسے اپنایا اور ’’احیاء العلوم‘‘ میں مرقوم ہے کہ
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ ’’تجارت کیا کرو کیونکہ رزق کے دس حصوں میں
سے نو حصے تجارت میں ہیں۔
اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے
فرما یا کہ : ’’راست گو اور امانت دار تاجر، روزِ قیامت انبیاء، شہداء اور
صدیقین کے ساتھ ہوگا‘‘․․․․․(جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)
جس قوم میں عیش پرستی ہوتی ہے وہاں ضروریات حد سے زائدہوجاتی ہیں بلکہ یوں
کہیں کہ خواہشات ضروریات کاروپ دھارلیتی ہیں اورانسان جب خواہشات کے پیچھے
لگتا ہے تو گمراہ ہوجاتا ہے جب وسائل اور ضروریات میں توازن قائم نہ رہے
اور ضروریات وسائل سے زیادہ ہوجائیں تو انسان دوسروں سے قرض لیتا ہے اور
قرض کے بوجھ کو اتارنے کیلئے وہ ناجائزذرائع اختیار کرتا ہے جن میں سے ایک
رشوت بھی ہے۔ اسلام میں رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں کو جہنمی
قراردیاگیا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں رزق حلال کے معاملے میں قدرے
محتاط ہونا چاہیے۔
٭سکون قلب اور حلال روزی:
سکون قلب کی دولت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری روزی حلال و طیب ہو،
حرام کی کمائی کھانے والے کو سکون قلبی نصیب نہیں ہو سکتا اور جو شخص اپنی
اولاد کی حرام کے مال سے پرورش کرتا ہے اور پھر یہ تمنا بھی کرتا ہے کہ
میرے اولاد نیک اور فرمانبردار ہو تو یہ تمنا فضول ہے، اس لئے کہ چراغ میں
پانی ڈال کر اس سے روشنی کی امید رکھنا جہالت نہیں تو پھر اور کیا ہے، زمین
میں ’جو‘ کاشت کرکے’’ گندم‘‘کی تمنا کرنا بالکل بے سودوفضول ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دنیا آباد ہو جائے اور ہماری اولاد نیک اور
فرمانبر دار ہوجائے توتواس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم خود بھی رزق حلال کما
کر کھائیں اوراپنے اہل وعیال کی پرورش بھی حلال اور پا کیزہ مال سے کریں۔
حلال روزی سے دل کو راحت ملتی ہے، عبادات میں کیف و سرور آتا ہے، دنیااور
آخرت میں راحت و سکون ملتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے
پیارے رسول حضور سیدِ عالم ﷺ کی رضا اورخوشنودی حاصل ہوتی ہے، جوکہ دین و
دنیا میں باعث برکت وسعادت اورآخرت میں ذریعہ ٔ نجات ہے۔
دعاء ہے اﷲ تبارک و تعالی ہمیں رزق حلال کمانے اور کھانے پینے کی توفیق
مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین |