کہاں ہیں انسانی حقوق کے دعوے دار ؟؟؟

انسانی حقوق کے عالمی دن 10جنوری2016 کے موقع پر فکر انگیز تحریر

اقوام متحدہ کے رکن ممالک 1950ء سے ہر سال 10دسمبر کو انسانی حقوق کاعالمی دن مناتے ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اوربہتر زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے ۔

اس دن اقوام متحدہ کے تحت دنیابھر میں انسانی حقوق کے لیے نمایاں خدمات ادا کرنے والی شخصیات کو ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔انسانی حقوق کے عالمی دن کا پیغام ہے کہ تمام انسان عزت واحترام کے قابل ہیں ،سب ، بنیادی حقوق، عدل وانصاف، رنگ و نسل اور ذات پات کے حوالے سے برابر ہیں۔کوئی ادنیٰ نہیں کوئی اعلیٰ نہیں ۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے 1973ء کے آئین میں 21 شقیں موجود ہیں۔ ایک شق دیکھیں’’ہر شخص آزاد ہے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے ۔ کسی شخص کو اس کے زندہ رہنے کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔کیا حقیقت میں ایسا ہے ؟ملک میں آپ کو کہیں اس پر عمل نظر آ رہا ہے۔ملک میں معمولی باتوں پر دوسرے کی زندگی چھین لی جاتی ہے ۔ آئین کی ایک اور شق ہے۔کسی شخص کو غلام نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جبری مشقت کروائی جا سکتی ہے۔اس کے بر عکس پاکستان میں ہر جگہ پر 10 سے 12 سال کے بچے بھی کام کرتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔ اور مجبوروں ،غریبوں ،سے جبری مشقت بھی عروج پر ہے ۔

پاکستان میں تو نصف آبادی کو یہ معلوم نہیں کہ انسانی حقوق ہوتے کیا ہیں؟ ملک کی نصف سے زائد آبادی غلام ہے ۔جی ہاں قیدی ہے غلام ہے وڈیروں ،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں ،عہدے داروں کی ۔ یعنی زرخرید غلام ہے ۔کہنے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا قانون تک ان کا غلام ہے ۔ جب تک حکومتی ایوانوں میں وڈیرے ، جاگیردار ،سرمایہ دار بیٹھے ہیں یہ بے بس لوگ انسان نہیں سمجھے جا سکتے ان کو ان کے حقوق کیا ملیں گے ۔ ایسا دن کب آئے گا پاکستان میں دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ آئین پاکستان میں کہا گیا ہے ۔’’تمام شہری برابر ہیں اور قانون کی رو سے تحفظ کے حقدار ہیں‘‘۔آئین کی اس شق کا حشر وی آئی پی کلچر نے جو کیا ہے کس سے اوجھل ہے۔تھانہ، کچہری، عدالت دیکھ لیں کہاں انسان قانون کی رو سے برابر ہیں ۔ایسا صرف قانون کی کتابوں میں لکھا ہے ۔

ہم اس وقت اچھے اور باشعور شہری بن سکتے ہیں، جب ہمیں اپنے بنیادی حقوق کا علم ہو اور ان کے حصول کیلئے ہم اپنی آواز بھی اٹھا رہے ہوں۔ عوام نے آواز کیا اٹھانی ہے، عوام اتنے مسائل میں الجھی ہے کہ اسے اپنے انسانی حقوق کا علم ہی نہیں ہے۔

عالمی سطح پر دیکھیں تو ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔اقوام متحدہ کی عین ناک نیچے انسانیت اپنے حقوق کے لیے سسک رہی ہے ۔مثلا ڈاکٹر عافیہ کو اغو ا کیا جاتا ہے۔کئی سال تک لاپتہ رکھا جاتاہے ،ناکردہ گناہ پر 86 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے ۔یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ۔انسانی حقوق کا عالمی دن منانے والے ،سب خاموش رہتے ہیں۔

جموں و کشمیر کا خطہ گذشتہ نصف صدی سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہے ۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سوال پید ا ہوتا ہے، کیا جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں ایک لاکھ کشمیری عوام کی ہلاکتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔

یہ خلاف ورزی اقوام متحدہ کو نظر ہی نہیں آ رہی ۔فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے ،یہ کس سے پوشیدہ ہے ۔لیکن اس پر کوئی امریکہ کی لونڈی اقوام متحدہ (دنیا میں قائم 200سے زائد ممالک کی رکنیت رکھنے والی عالمی تنظیم اقوام متحدہ )کو اسرائیل کے ظلم و ستم نظر نہیں آتے، کیونکہ اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے ۔بالکل اسی طرح اقوام متحدہ کو برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آ تیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک امریکا میں ( امریکا جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کا ٹھیکیدار ہے ) انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا یہ عالم ہے کہ گوروں نے اپنے ہوٹلوں و کلبوں کے سامنے واضح انداز میں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کالوں اورکتوں کا داخلہ منع ہے ۔

اس کے علاوہ بھارت میں دیکھیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور خود کو سیکولر کہتی ہے، وہاں ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے ۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی کس طرح دھجیاں بکھیر ی جا رہی ہیں۔بے گناہوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں ۔کہاں ہیں انسانی حقوق کے دعوے دار جنہیں کشمیر ، برما ،مصر ، عراق، افغانستان،شام ،فلسطین ، اور وہ تمام ممالک نظر نہیں آتے ،جہاں انسان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں؟

’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ پر ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک کتاب لکھی ہے ۔جس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے ۔اسلام نے انسانی زندگی کے تقدس پر بہت زور دیا ہے ۔ اسلام پوری انسانیت کے لئے رحمت بن کر آیا۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات عطا کر کے ہر نوع کی غلامی، جبر اور استحصال سے آزاد کردیا۔حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت مختلف الانواع تضادات کا شکار اور کئی طبقات میں تقسیم تھی۔ سماجی اور معاشرتی شرف و منزلت کی بنیاد نسلی، لسانی اور طبقاتی معیارات پر مشتمل تھی۔

معاشرے کے طاقتور لوگ ہر لحاظ سے قابل عزت ہوتے تھے ،جبکہ غلام، کمزور اور زیردست طبقے طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتے تھے اور طاقتور کا قانون ہی ان کے مقدر کا فیصلہ کرتا۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مساوات انسانی کا پیغام دیا۔لہٰذا اسلام کے نکتہ نظر سے کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی اس تکریم کو پامال کرتا پھرے ، جو اسے خالق کائنات کی طرف سے عطا کی گئی ہے ۔ کسی بھی فرد کو رنگ و نسل کی بنیاد پر عربی و عجمی ہونے یا سرخ اور کالا ہونے کے سب سے کسی دوسری مثلاََ امیر یا غریب ہونے یا کسی عہدے کے سبب فضیلت کا حق حاصل نہیں ہوسکتا۔

اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ ’’اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا کیا۔اور ہم نے تمہیں کو قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت تم میں سے معزز وہ ہے ،جو تم میں سب سے زیادہ خداترس ہے ۔‘‘(الحجرات 49:13)

باالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اصل میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک ہی ماں اور ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔قوموں اور قبیلوں میں یہ تقسیم تعارف کے لئے ہے ۔ اس لئے نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر فخر جتائے اور اس کے ساتھ تکبر سے پیش آئے ۔ انسان پر انسان کی فضیلت صرف اخلاق اور پاکیزہ کردار کی بنا پر ہے، نہ کہ رنگ و نسل، زبان اور وطن کی بنا پریہ فضیلت بھی اس غرض کے لئے نہیں ہے کہ پاکیزہ اخلاق کے انسان دوسرے انسانوں پر اپنی بڑائی جتائیں، کیونکہ بڑائی جتانا بجائے خود ایک برائی ہے،جس کا ارتکاب کوئی خدا ترس اور پرہیزگار آدمی نہیں کر سکتا۔مختصر اﷲ کو ماننے والا کسی کو حقیر نہیں سمجھتا اور خود کو اعلی سمجھ کر تکبر نہیں کرتا ۔خود کو اعلی سمجھنے والا ہی گھٹیا ہے۔

Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578692 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More