مدارس پر دہشت گردی کا الزام ، فضلاء
مدارس کو دہشت گرد ٹھہرانے کی روایت ،بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈالنے
کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ہے ،اسی بی جے پی حکومت کے وزیر داخلہ ایل کے
اڈوانی نے کبھی کہاتھاکہ ’’ہندوستان کی سلامتی کو مدارس کی بڑھتی ہوئی
تعداد سے خطرہ لاحق ہے‘‘ ،اب اسی پارٹی نے پھر اسی طریقہ کو اپنا نا شروع
کردیا ہے ، ایل کے اڈوانی کے نظریہ کو فروغ دیتے ہوئے مدارس پر دہشت گردی
کا الزام لگایا جانے لگا ہے ،حق گوئی اور بے بیباکی کا اظہار کرنے والے
علماء کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے ، انہیں ممنوعہ تنظیم القاعدہ
کاممبر قراردیا جارہا ہے ۔گذشتہ دنوں جن چار لوگوں کو دہلی پولس کے اسپیشل
سیل نے ممنوعہ تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ،
جن لوگوں پر ایمن الظواہری کے دست راست ہونے کا الزام لگایا ہے ان میں سے
دوعالم دین ،دارالعلوم دیوبند کے فاضل ، ببیاک خطیب اور عوام الناس میں بے
انتہاء مقبول ہیں ، جبکہ دو ناخواندہ اور معمولی گھرانے سے تعلق رکھنے والے
ہیں جن کے پاس رہنے کے لئے اپنا گھر نہیں ہے ، ضروریات زندگی کے اسباب
فراہم نہیں ہے ۔
میں بات کررہاہوں ممنوعہ تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار
کئے گئے بیباک خطیب مولانا انظر شاہ قاسمی ، مولانا عبد الرحمن قاسمی ،
سنبھل سے تعلق رکھنے والے محمد آصف اور ظفر مسعود کی، ان حضرات کی گرفتاری
کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں ، سنبھل کی حقیقت بیان کرچکا ہوں
اور پھر آج اسی کڑی سے وابستہ کچھ باتیں لکھ رہاہوں ۔
آصف اور ظفر مسعود سے تعلق رکھنے کے الزام میں دہلی پولس نے مولانا انظر
شاہ صاحب کو گرفتار کیا ہے ،ان پر الزام ہے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا ۔دہلی
پولس نے ٹرانزٹ ڈیمانڈ پر انہیں 20 جنوری تک حراست میں لے رکھا ہے کہ لیکن
اس دوران میڈیا ان کے خلاف فرضی کہانیا ں تخلیق کرکے اور افسانے گڑھ کے سب
سے بڑا دہشت گرد ثابت کررہاہے ، زی نیوز اور کچھ چینلوں نے اس معاملے میں
صحافتی اصولوں کو بھی پامال کردیاہے ۔ براہ راست مدارس اور علماء کو نشانہ
بنانا شروع کردیا ہے ، مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دینے جانے کی باتیں کی
جانے لگی ہے ۔ مولانا انظر شاہ صاحب کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے فرضی
الزام کے تحت گرفتا ر کئے گئے مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلندکی تھی ،بے
گناہوں کو دہشت گرد قراردینے والی خفیہ ایجنسی کو انہوں غلط ٹھہرایاتھا ،کچھ
ٹی وی چینلوں میں بھی ان کی اسی تقریر کو دیکھا جارہا ہے جس میں انہوں نے
سیمی اور القاعدہ کے الزام میں گرفتا رکئے گئے مسلم نوجوانوں کے تئیں
ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں پر بے گناہوں کو پھنسانے کا دعوی
کیاتھا، مولانا عبد الرحمن صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ ہے ،وہ
ببیاک خطیب ہیں ، حقیقت بیانی سے کام لیتے ہیں ، مصلحت کی چادر اوتار کر
سچائی کو بے نقاب کرتے ہیں ،اپنے علاقے کٹک میں بے انتہاء مقبول ہیں ۔مولانا
انظر شاہ کی گرفتاری صرف اس لئے ہوئی ہے کہ انہوں نے رات کو رات اور دن کو
دن کہنے جیسے جرم عظیم کا ارتکاب کیاتھا ، جن بے گناہوں پر القاعدہ سے تعلق
رکھنے کا الزام عائد کیاگیا تھا اسے انہوں نے افسانہ قراردیاتھا اس حق
بیانی کا تحقہ یہ دیا گیا کہ خود ان کو بھی مودی حکومت کی سربراہی میں ا ے
ٹی ایس نے القاعدہ کا ممبر اور ایمن الظواہری کا دست راست ٹھہرادیا۔
دہشت گردی کا معاملہ ہندوستان میں بہت نازک اور حساس ہوگیا ہے ، اس معاملے
پر بولناجرم عظیم گرداناجاتاہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ مولاناانظر شاہ کی
گرفتاری پر ہندوستان کے نامور علماء ، معروف سیاسی رہنما اور سماجی قائد ین
خاموش ہیں ، سینئر صحافی اور اہم اردواخبارات کے ایڈیٹران کا قلم اس موضوع
کو چھیڑنے سے بے بس نظر آرہا ہے ،اردو اخبارات کو مسلمانوں کو ترجمان
کہاجاتا ہے کہ لیکن کسی بھی لیڈنگ نیوز پیپر کے ایڈیٹر نے ایک حرف تک اس پر
لکھنے کی جرات نہیں کی ،کسی اخبارنے اداریہ تک نہیں لکھا۔ان تمام کو یہ ڈر
اور خوف ستارہاہے کہ انظر شاہ کی گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے القاعدہ
سے تعلق کے الزام میں گرفتار کئے گئے پندرہ نوجوان کو بے قصور بتایاتھااگر
آج ہم نے ان کی حمایت میں کچھ لکھا ،کچھ بولا تو ہمارا بھی وہی حشر ہوگا ،مجھے
بھی ایمن الظواہری کا دست راست ٹھہرادیاجائے گا ۔
اس موقع پر مجھے شدت سے کمی محسوس ہورہی ہے آبروئے صحافت عالی جناب عزیز
برنی صاحب کی جو اس طرح کے حالات میں سچائی کو بے نقاب کرتے تھے، دہشت گردی
کی حقیقت سے پردہ اٹھاتھے،آگ کے دریا میں کود کر اور خطرات سے کھیل کر رات
کو رات کہتے تھے، پی ٹی آئی ، ٹی وی چینلز اور دیگر ایجنسیوں کی خبروں پر
اعتبار کرنے کے بجائے خود جائے واردات پر پہونچتے تھے اپنی ٹیم بھیجتے تھے
اور معاملہ کی گہرائی تک پہنچتے تھے ،قومی میڈیا سے ہٹ کر ایک نئی تصویر
پیش کرتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اس حقیقت بیانی کی سزا انہیں بھی مل چکی ہے
، سنگھ پریوار کے دہشت گردانہ چہروں کو بے نقاب کرنے کی سزائیں وہ آج کاٹ
رہے ہیں ، اردو صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے باوجود گمنامی کی زندگی
بسرکررہے ہیں ۔
یہ ہندوستان ہے ،یہاں رات کو رات لکھنے کی اجازت نہیں ہے ،مسلمانوں کے تئیں
تو یہ سب سے بڑا جرم ہے ، سچ بولنا اور لکھنا وطن سے غداری ہے، علماء دین ،
دانشوارن اور صحافیوں کے ساتھ فلمی اداکار بھی نشانے پر ہیں ،شاید اسی لئے
معروف اخبارات ا س مسئلہ پر لکھنے کے بجائے مسلمانوں کے آپسی اختلافات پر
اپنی ساری توانائی صرف کررہے ہیں ،شیعہ ،سنی، دیوبندی ،بریلوی ، اہل حدیث ،جماعت
اسلامی کے آپسی اختلافات پر اپنی صحافتی توانائی صرف کرنے میں مصروف ہیں ،
سیاسی قائدین اور سماجی رہنما خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہے ہیں یا ایک
پریس ریلیز کے ذریعہ مذمتی بیان جاری کے اپنے فرائض کی انجام دہی کررہے ہیں
اور بس۔لیکن یاد رکھئے اس آگ کی آنچ آپ کے گھرتک بھی پہونچ سکتی ہے ،دیر
سویر آپ کا بھی نمبر آسکتا ہے فرق صرف اتنا ہوگا کہ کسی کو حق لکھنے اور
بولنے کی پاداش میں دہشت گرد قراردیا جائے گا اور کسی کو خاموش رہنے کی سزا
جیل کی سلاخوں میں ڈال کر دی جائے گی۔ |