گذشتہ کالم میں ایسی قوم سے ہوں پر بے شمار
لوگوں نے کال کی اور فیس بک پہ کمنٹس دیے،ایک پروفیسر مبشر احمد نے میل کی
اور کالم پر تبصرہ کیا ،میں پہلے پروفیسر صاحب کی تحریر شامل کر رہا ہوں اس
کے بعد اپنی گذارشات پیش کر وں گا،پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ شفیق ملک صاحب
سلام!لوکل اخبار گاہے پڑھنے کو موقع ملتا ہے ،میں نے آپکی متعدد تحریریں
پڑھی ہیں آپ کے لفظ انتہائی جاندار آسان فہم اور ذہن و دل کے ساتھ ضمیر کو
بھی جھنجھوڑتے ہیں،چونکہ آپ ریگولر نہیں لکھتے اس لیے اکثر آپ کا آرٹیکل ہم
نہیں پڑھ سکتے ،آپ یا تو روزانہ کی بنیاد پر لکھیں یا ہفتے میں کوئی دو تین
دن مختص کرلیں جس دن آپ کے قارئین کو پتہ ہو کہ کالم یا تحریر اخبار میں
موجود ہے ویسے اب یہ بھی اچھی بات ہے کہ آپ اسے فیس بک پہ بھی ڈال دیتے ہیں
جس سے بہت سے لوگوں کو آسانی ہو جاتی ہے،آپ کا کالم میں ایسی قوم سے ہوں
پڑھا تو لگا کہ یہ تو میرے دل کی آواز ہے آپ نے جس طرح ایک ایک پہلو اور
ناسور کا انتہائی مستعد انداز میں احاطہ کیا ہے یہ یقیناآپ کا ہی خاصہ
ہے،دوسری طرف آج کے دور میں اتنا کڑوا سچ لکھنا تو دور کی بات شائع کرنا
اور پھر اسے ہضم کرنا اور بھی مشکل کام ہے اس کے لیے آپ کے اخبار کے
ایڈیٹرز بھی یقیناستائش کے مستحق ہیں کہ جو ایسی تحریر پہ قدغن یا قینچی
چلانے کی بجائے اسے پبلک کے سامنے لے آتے ہیں،یوں جہاں ایک طرف لکھنے والے
کا مقصد پورا ہوتا ہے وہیں دوسری طرف لوگوں کو بھی ایک اچھی تحریر پڑھنے کو
ملتی ہے جو کہ خالصتاً انہی کے لیے لکھی گئی ہوتی ہے،آپ نے اپنے کالم میں
ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی کہ یہ قوم ایک طرف میٹرو اور اورنج ٹرین چلا رہی مگر
دوسری طرف ہر دو چند ماہ بعد کو ئی نہ کوئی کھلا پھاٹک کوئی رکشا ریڑھا نما
گاڑی کو آٹھ دس بچوں سمیت نگل جاتا ہے،یہ بھی بجا کہ ہیروز کی نشانیاں جہاز
ٹینک اور توپیں چوراہوں پہ نصب کر کے ہم بھول جاتے ہیں اور ان کی اصلی شکل
بارش کے بعد ہی نظر آتی ہے،مگر کچھ باتیں میں بھی عرض کر دوں کہ ہم ایسی
قوم سے ہیں کہ جس کے پینسٹھ میں سے چالیس سال ڈکٹیٹر وں کی نذر ہو گئے اور
خدا کی شان کہ جمہوریت جسے دنیا اس وقت بہترین طرز حکمرانی جانتی ہے اپنے
ہاں آمریت سے بد تر نہیں توکم بھی نہیں،ہم ایسی قوم ہیں جس کا آدھا جسم کٹ
گیا اور جن لوگوں نے اس وقت پاکستان کا نام لیا انہیں آج چن چن کے پھانسی
پہ لٹکایا جا رہا ہے اور لاکھوں وہ لوگ آج ہم سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں
جنہیں نہ بنگلہ دیش قبول کرتا ہے نہ پاکستان ،یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اس
وقت پاکستان سے محبت کا دم بھر بیٹھے آج پاکستان میں تو ان کے لیے جگہ ہے
ہی نہیں مگر ادھر بھی بنگلہ حکومت انہیں شناختی کارڈ جاری کرتی ہے نہ بچے
کی پیدائش پہ برتھ سٹیفکیٹ،کوئی مر جائے تو انہیں موت کا سرٹیفکیٹ نہیں مل
سکتا وہ اپنی گنتی میں سے ایک شخص کو ایک عدد کم کر کے اپنی تعداد درست کر
لیتے ہیں،ان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ نہیں مل سکتا وہ کسی بھی
شعبے میں بھرتی نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کے پاس اپنی کوئی شناخت نہیں،ہم
ایسی قوم سے ہیں جس کے صدر وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کے پاس ان کے لیے وقت
تو دور کی بات الفاظ تک نہیں،ہمارے ایک ــ"کمانڈو" ادھر جا کہ ہتھیا ر
ڈالنے پہ بھی نہ جانے کیوں اور کس لیے معافی مانگ آئے مگران غریب الوطن
افراد کے لیے ایک لفظ تک ان کے منہ سے نہیں نکلا،آپ اندازہ کریں اپنی قوم
کا کہ اس کے پاس اب کچھ بھی نہیں ضائع کرنے کو سوائے وقت کے،کسی بھی شعبے
کو دیکھ لیں کہیں وقت کی پابندی کا نام و نشان نظر نہیں آئے گا،اس کے ساتھ
ایک طرف ایک شادی کاخر چہ ایک کروڑسے دس دس کروڑروپے تک ہے جبکہ دوسری طرف
کسی غریب کی پاس بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے چند جوڑے کپڑے دو چارپائیاں
اور تین بستروں تک کی اوقات نہیں ، کسی کے پاس سینکڑوں کنال کے گھر ہیں تو
کسی کے پاس سر چھپانے کو جھونپڑی اور ٹینٹ تک نہیں، ریاست ماں کے جیسی کیا
سوتیلی ماں بننے کو بھی تیا ر نہیں،قانون موم کی ناک اور ادارے زور آوروں
کی لونڈیا ں ہیں،پوری قوم اﷲ اور رسولﷺ سے جنگ یعنی سود میں مبتلا ہے مگر
ریاست اتنی بانجھ اور نکمی ہے کہ آج تک متبادل نظام تک نہیں دے سکی،ملک کے
بڑے ادارے ریلوے ،پی آئی اے اور او جی ڈی سی ایل بیوہ کے اجڑے سہاگ کا منظر
پیش کر رہے ہیں،اکنامک کو ریڈور کا شور بہت ہے مگر ابھی تک راستے اور سمت
کا تعین ہی نہیں ہو سکا ،خدا نہ کرے کہ اس کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا
ہو،پنشرز کا جو حشر ہم دیکھتے ہیں اور جو آپ نے لکھا کہ ہم ساری زندگی ان
کی خدمات کا صلہ یوں دیتے ہیں کہ پنشن لگتا ہے کہ بھیک میں مانگی جا رہی ہو
اب ہمارا تو ریٹائر ہونے کو دل ہی نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ بھی چند سال بعد
یہ قوم یہی رویہ اپنائے گی،اس کے علاوہ بھی بے شمار غم ہیں مگر کس کس کو
بیان کیا جائے ،آپ لوگ لکھیں اور لکھتے رہی انشا ء ا ﷲ وہ وقت دور نہیں جب
یہاں بھی بہار آئے گی اور یہ قوم بھی دنیا کی دیگر اقوام کی طرح سر اٹھا کے
چلے گی،،،،،میں سب سے پہلے تو پروفیسر صاحب آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ
آپ نے نہ صرف کالم پڑھا بلکہ اس پہ سیر حاصل تبصرہ بھی کیا،اگر آپ لوگ یوں
ہی راہنائی کرتے رہیں گے تو ہمارا کام بھی قدرے آسان ہو گا اور جو پہلو ہم
سے رہ جائیں گے ہم وہ بھی سامنے لا سکیں گے،دوسری بات آپ نے کہی کہ آج کے
دور میں جہاں سچ پڑھنا اور سچی بات کہنا دشوار ہے وہاں سچ لکھنا تو اور بھی
بہت مشکل ہے مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے مگر میں آپ سے گذارش کرتا
چلوں کہ الحمدﷲ میں اپنی مرضی سے لکھتا ہوں جو بھی لکھتا ہوں میرے اخبار کی
پالیسی جو بھی ہے مجھے اس سے غرض نہیں تاہم یہ بات میں ہر فورم پہ ببانگ
دہل کہہ سکتا ہوں کہ مجھے آج تک میرے ایڈیٹر نے ڈکٹیٹ نہیں کیا اور نہ ہی
کبھی میرے کالم کی کوئی کانٹ چھانٹ کی ،جو کچھ لکھ کے بھیجا حرف بحرف چھپ
گیا،اور مجھے احصاس ہے کہ میرے لفظ بہت سے لوگو ں کے لیے پسندیدہ نہیں ہوتے
اور وہ لفظ اخبارکے لیے پریشانی کا باعث بن سکتء ہیں مگر میں کم از کم اس
معاملے میں خوش نصیب ہوں کہ میری تحریر من و عن شائع کی جاتی ہے ،آپ نے
کالم کے لیے دن مختص کرنے کی بات کی تو میں نہیں سمجھتا کہ میں کوئی اتنا
بڑا دانشمند ہوں کہ میں اپنے لیے کوئی ایک یا دو دن مخصوص کروں تاہم آپ کا
حسن زن ہے اور میں بھی کوشش کروں گا اس پہ عمل پیرا ہونے کی وقت کی کمی کی
وجہ سے بسا اوقات موقع نہیں ملتا تاہم کوشش یہی ہو تی ہے کہ منگل والے دن
کالم شامل اشاعت ہو،میں اس سلسلے میں اپنے ایڈیٹرز صاحب سے بھی گذارش کروں
گا ،اس کے علاوہ بھی تلہ گنگ ڈھڈیال اور چوا سیدن شاہ کے لوگو ں نیبھی یں
ایسی قوم سے ہوں کے عنوان اور کالم کو پسند کیا اور اپنی رائے دی جگہ کی
قلت کے باعث سب کے خیالات یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں ،میں اپنے تمام احباب
کا مشکور ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اپنی قیمتی رائے سے
نوازتے رہیں گے اور میری راہنمائی کرتے رہیں گے،اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔ |