سپر پاورز

 پاکستان کوئی گیا گزرا ملک نہیں اس ملک میں دنیا کی ہر چیز دستیاب ہے لیکن بجلی نہیں، ملک کے ایک کونے سے دوسرے تک قدرت نے اپنی نعمتوں اور نوازشات قدم قدم پر وافر مقدار میں انسانوں کے لئے پیدا کردی ہیں کہ زمین کا سینہ چیرو اور اپنے حصے کا رزق نکالو ،زرخیز زمین کا فائدہ اٹھاؤ ،مثلاً کوئلہ ، نمک،چینی، چاول ،دال، مکئی،دھات،سونا ،چاندی، پانی،پہاڑ،دریا وغیرہ کیا کچھ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کے بادشاہوں اور انکے وزیروں و کارندوں کو فرصت اور دلچسپی ہی نہیں کہ قدرت کی عطا کردہ کسی بھی نعمت سے فائدہ اٹھائیں،ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں لیکن انہیں مواقع فراہم نہیں کئے جاتے کہ وہ ملک و قوم کے لئے کوئی تخلیقی کام کر سکیں اور مجبوراً انہیں دیار غیر کا رخ کرنا پڑتا ہے جو کہ سرا سر ایسے تخلیقی افراد کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر ستر سالوں سے آتی جاتی آمرانہ اور جمہورانہ حکومتیں اپنے شاہانہ دور وں میں ایک بھی تخلیقی کام کر جاتیں تو آج ملک جس دور سے گزر رہا ہے شاید ایسا نہ ہوتا پانچ سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے لیکن ان پانچ سالوں میں سوائے فضول باتوں اور غیر ملکی دوروں کے کوئی بادشاہ کچھ نہیں کرتا ستر سالوں میں ان لوگوں نے قوم کے خون و پسینے سے کمایا ہوا جتنا سرمایہ بیرون ممالک میں انویسٹ کیا ہے اسکا اگر پانچ فیصد بھی ملک میں ہوتا تو کم سے کم لوگ آج کتے بلے اور گدھے تو نہ کھا رہے ہوتے بات سوچنے کی ہے،لیکن سوچے کون ؟ سپر پاور کون ہے؟حالیہ رپورٹ کے مطابق چین ،بھارت اور چلی بم بنانے میں نہیں بلکہ مستقبل میں توانائی کے سپر پاور ممالک ہیں ،دنیا کی کوئی ریاست اس وقت تک ترقی کی منزلیں طے نہیں کر پاتی جب تک وہ توانائی کے بحران پر قابو نہ پالے کیونکہ توانائی ہر ریاست کی بنیادی ضرورت میں شمار ہوتی ہے اور زندگی کا ایک اہم جز ہے ،آج اگر دنیا کے چند ممالک سپر پاور کہلاتے ہیں تو وہ محض نیوکلئیر پاورز ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ انرجی کی پیدا وار اسکے معقول استعمال اور بچت کرنے سے سپر پاورز کہلاتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق تیل ، کوئلہ ،گیس اور دیگر توانائی اشیاء کی قیمتوں میں شدت سے اتار چڑھاؤ نمودار ہوا ہے جس کی بدولت کئی ممالک کو بجٹ میں خسارہ ہوا معیشت تقریباً تباہی کے دھانے پہنچ گئی ،روس اور سعودی عرب اپنی پوزیشن بر قرار رکھنے کی کوشش میں ہیں تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ مزید خسارے سے دوچار نہ ہو ،سعودی عرب کے سٹاک ایکسچینج اور سٹیٹ آئل کمپنی آرامکو اپنے حصص کے کچھ حصوں کو فروخت کرنا چاہتی ہے ۔ان دونوں توانائی کی سپر پاورز کے مسائل اور رحجان میں سر فہرست انرجی کی فراہمی ہے جو دنیا کے دیگر ممالک میں بتدریج تبدیلیاں پیدا کر رہی ہے اور عالمی سطح پر انرجی پاور اور توازن اتار چڑھاؤ سے شدید متاثر ہو رہا ہے پیشہ ورانہ افراد نے کیلکولیشن کے بعد بتایا کہ دنیا بھر میں معیشت کی بڑھتی ہوئی ترقی کے باوجود انرجی سسٹم میں مہنگائی ہونے کے بہت کم امکانات ہیں تاہم امید کی جاتی ہے کہ آنے والے سالوں میں انرجی کی مانگ میں اضافہ ہو گا اور انرجی کا استعمال بدستور اپنے رینج میں ہی رہے گا لیکن اگر سعودی عرب اور روس نے توانائی سسٹم کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو کئی ممالک انرجی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں،ایک طرف کئی ممالک ایک ہی وقت میں گھریلو توانائی کی توسیع کر رہے ہیں اور دوسری طرف کئی صنعتی ممالک تیزی سے ونڈ انرجی اور سولر انرجی سے الیکٹرک کاروں کی ترقی سے اپنی صنعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔رپورٹ کے مطابق توانائی سسٹم میں روس اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا کے چار ممالک سپر پاورز کی لسٹ میں ہیں جن میں پہلے نمبر پر بھارت ہے جو شمسی توانائی میں ابھرتی ہوئی ریاست قرار دیا گیا بھارت میں توانائی کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے اور ایک سو میلین سے زائد افراد بجلی سے محروم ہیں ، حکومت کا کہنا ہے بہت جلد انرجی بحران پر قابو پالیا جائے گا اور بڑے پیمانے پر کوئلے کی پیداوار کو بڑھانے سے توانائی میں بھی اضافہ ہوگا ،درآمدات پر کم انحصار کیا جائے گا اور یہی ہماری اولین ترجیح ہے،علاوہ ازیں دوہزار بائیس تک موجودہ پانچ سولر پاور پلانٹس جو ایک سو گیگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں ان میں مزید صلاحیت پیدا کی جائے گی ،سولر انرجی کا آغاز چھوٹے دیہاتوں سے کیا جائے گا جہاں مِنی سولر انرجی پارک تعمیر کئے جائیں گے اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جائے گی اس پروجیکٹ میں خاص طور پر آسٹریلین کمپنیز بھارت کی رہنمائی کریں گی۔ونڈ اور سولر انرجی کا بادشاہ چین ۔چین کی انرجی پالیسی اور موٹو ہے کہ جتنا زیادہ اتنا بہتر،سموگ الارم اور اقتصادی ترقی میں کمی ہونے کے باوجود ملک کو تیز رفتار ایندھن کی فراہمی چین کے اولین فرائض میں شامل ہے اور کئی نئے ترقیاتی منصوبوں پر عمل پیرا ہے ،موجودہ ونڈ کرافٹ سے دوہزار پچیس تک تین سو پچاس گیگا واٹ انرجی پیدا کرنے پر عمل درامد جاری ہے اور دوہزار بیس تک سولر پاور پلانٹس دو سو گیگا واٹ انرجی پیدا کریں گے ،انرجی اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے اسی مدت میں چالیس نئے جوہری پاور پلانٹس تعمیر کئے جائیں گے۔بلوم برگ نیو انرجی فائنا س کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے انرجی پلانٹس کی تعمیر سے چین صاف شفاف انرجی پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا جس سے معیشت کے علاوہ نئی ٹیکنالوجی میں بھی ترقی ہوگی مثلاً پاور گرڈ ،ری چارج ایبل بیٹریاں اور برقی کاروں جیسے انرجی سے منسوب منصوبوں کی بدولت انٹرنیشنل مارکیٹ میں متعارف کروانے میں آسانی پیدا ہو گی۔چلی ۔بیٹریوں کی طاقت ور ریاست۔زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار چلی کے توانائی شعبے میں اربوں ڈالرز انویسٹ کرتے ہیں بلومبرگ کی رینکنگ سے جنوبی امریکی ریاست کو قابل تجدید توانائی پیدا کرنے پر دنیا بھر میں تیسرے نمبر کی درجہ بندی کی گئی کیونکہ چلی دنیا میں ہوائی ٹربائین اور ایکسٹریم مضبوط سورج کی شعاعوں سے بہترین طریقے سے سولر انرجی پیدا کرتا ہے اور اسی وجہ سے چلی کا شمار انرجی کی ترقی میں بہترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔اسکے علاوہ امریکی حکومت کے مطابق چلی دنیا بھر میں لیتھم بیٹریوں کیلئے خام مال کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے دھات کے ذخائر چلی کے علاقے آٹا کامار ریگستان میں خاص معنی رکھتے ہیں جو گاڑیوں کی بیٹریوں اور بجلی زخیرہ کرنے کے علاوہ دیگر الیکٹرونک آلات میں خاص طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔جرمنی توانائی پالیسی میں دنیا بھر میں مشہور ہے ونڈ کرافٹ پروجیکٹس کی بدولت ہزاروں افراد کو روزگار مہیا ہے جس میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے ، جرمن کمپنیز سیمینس ،نورڈیکس اور انرکان کو دنیا بھر میں آعلیٰ مقام حاصل ہے،جدید توانائی کی فراہمی میں انرکان کان امید افزا پوزیشن میں ہے جو دیگر کمپنی کے اشتراک سے جدید ٹیکنالوجی اور توانائی کے فروغ کیلئے دن رات ریسرچ کرتے رہتے ہیں۔ستر سالوں میں حکومتیں بنیادی سہولت توانائی کا بحران حل نہیں کر سکیں تو ملک و قوم ترقی کیا کریں گے،دنیا کے کئی ممالک میں وائس کنٹرول سے لائٹ آن اور آف کی جاتی ہے اور پاکستان میں آج بھی لالٹین اور موم بتی کا استعمال جاری ہے جو شاید آنے والے سو سالوں تک جاری رہے گا؟۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246218 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.