اب پنجاب سرسبز ہونے کو ہے، یہ مت جانئے کہ
وزیراعظم نے اربوں روپے کا جو پیکیج کسانوں کو دینے کا اعلان کیا ہے اس کے
نتیجے میں چہار جانب سبزہ ہی سبزہ ہوجائے گا، اور ہر طرف کھیتیاں لہلہاتی
دکھائی دیں گی، بلکہ یہاں جس سکیم سے سبزہ ہوگا اس کا کھیتوں سے کوئی تعلق
نہیں، بلکہ وہ شہروں میں ابھرے گا ۔ پنجاب کو بہت سے اعزاز حاصل ہیں، بہت
سے خوابوں پر یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ تعبیر اب ملی کہ اب ملی۔ حکمران اپنے
خوابوں میں رنگ بھرنے میں دیر نہیں لگاتے، یہ الگ بات ہے کہ عوام اول تو
خواب دیکھتے ہی نہیں، کیونکہ جو کوئی سکون کی نیند سوئے گا خواب بھی وہی
دیکھ پائے گا، اگر عوام کبھی خواب دیکھ بھی لیں تو وہ ڈراؤنے ہی ہوتے ہیں،
کیونکہ جو کچھ ان کے دل ودماغ میں ہوتا ہے وہی تصورات اور تخیلات میں ظاہر
ہوتا ہے۔ جس طرح ’پڑھا لکھا پنجاب‘ کی سکیم ہے، جیسے ’پرامن پنجاب‘ کی بات
کی جاتی ہے،’ خوشحال پنجا ب‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اسی طرح اب شہروں میں
سرسبز پنجاب کی کہانی میں رنگ بھرے جائیں گے۔ پنجاب حکومت نے ایک حکمنامہ
جاری کیا ہے کہ دس مرلہ کے گھر میں ایک درخت کو لازمی قرار دیا گیا ہے،
ضلعی حکومتوں اور محکمہ مال کو پابند کیا گیا ہے کہ رجسٹری کے وقت اس بات
کا خاص خیا ل رکھا جائے کہ دس مرلہ کے گھر میں ایک درخت کا لگایا جانا لازم
ہے، اگر کوئی درخت نہ لگائے یا درخت کاٹے تو اسے ایک سال تک قید کی سزا دی
جائے گی۔ حکومت نے یہ اقدام اس لئے کیا ہے کہ معاشرے میں موسمیاتی تغیرات
سے حالات خراب ہورہے ہیں، درخت لگانے سے یقینا بہتری کی توقعات ہیں۔
پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، مگر زمینی حقائق مختلف ہیں۔
اپنے ہاں بے شمار آبادیاں کسی ترتیب سے بغیر ہی معرض وجود میں آئی ہوئی ہیں،
جہاں گلیاں بھی سیدھی نہیں، جس کا دل چاہا اس نے گلی میں اپنی دیوار آگے
کرکے بنا لی، جس کا موڈ بنا اس نے ہمسایہ سے دو فٹ اونچا کرکے گھر بنا لیا،
جس کے دل میں آئی اس نے گلی میں اپنے گھر کی سیڑھی چڑھا لی، گویا جتنے لوگ
اتنے عمل سامنے آتے ہیں۔ اس لئے اس بے ترتیب قوم کو کسی ترتیب میں لانا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اپنے ہاں یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ کسی گھر
میں رہائش پذیر خاندان بڑا ہے، جس کے افراد مشکل میں پورے آتے ہیں، پودا
لگانے کی کوئی جگہ ہی نہیں بچتی۔ ہر طرف کمرے اور راہداریاں ہوتی ہیں۔ ان
گھروں پر قانون لاگو کرتے وقت بھی زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہوگا۔
ہاں جن گھرو ں میں کمرے کم ہیں، وہاں پودوں کا لگایا جانا صحت کے لئے بھی
اچھا ہے اور موسمی تغیرات میں بھی بہتری کی طرف قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
اپنے ہاں سڑکوں پر بہت سی جگہ سڑک کے حصے کی ہوتی ہے، بعض اوقات وہاں فٹ
پاتھ بنا دیا جاتا ہے، مگر جگہ خالی ہو، یا اس پر فٹ پاتھ ہو، دکان داروں
کے لئے وہ دونوں برابرہیں، اکثر دوکان داروں نے اپنا سامان باہر فٹ پاتھ پر
بھی سجا رکھا ہوتا ہے، جہاں سے لوگوں نے گزرنا تھا، یا جہاں درخت یا پودا
لگایا جانا مقصود تھا، وہاں کاروبار ہورہا ہے۔ شہروں میں سڑکوں کی توسیع کے
بھینٹ جس طرح دسیوں برس پرانے درخت چڑھ جاتے ہیں، وہ کہانی الگ ہے، کہا
جاتا ہے کہ تعمیر کے لئے کچھ تخریب بھی کرنی پڑتی ہے، مگر ایک بڑے درخت کو
کاٹنے کے بعد وہاں چھوٹے یا زیادہ درخت نہیں لگائے جاتے بلکہ وہاں تو سڑک
یا کوئی پلازہ وغیرہ بن جاتا ہے، موسم میں تغیرات کیوں پیدا نہیں ہونگے۔
نہروں کی حالت دیکھ لیں، جہاں چھوٹی نہروں اور راجباہوں کے کناروں پر
درختوں کے جنگل ہوتے تھے، چھوٹی نہر پر پوراسفر سائے میں گزرتا تھا، اب
میلوں کے میل کوئی درخت نہیں، درخت خشک ہوتے گئے، بیماری تھی تو کوئی علاج
نہ ہوا، ناقابل علاج تھی تو نئے درخت نہ لگائے گئے، جو درخت خشک ہوگئے،
متعلقہ محکمہ سے ملی بھگت کے ساتھ یار لوگ اکھاڑ کر لے گئے۔ جنگلوں کی بات
کریں تو کوئی بات کرنے کے لئے بچتی ہی نہیں، کیونکہ جنگلوں کو بھی محکمہ
جات دیمک کی طرح کھا رہے ہیں، جنگل بھی کم ہورہے ہیں۔ شجر کاری کی بات کی
جائے تو حکومت ایک نہیں دو مہمات چلاتی ہے،’’ شجرکاری‘‘ سال میں دو مرتبہ
ہوتی البتہ ’’شجر اکھاڑی‘‘ کی مہم سارا سال سرکاری سطح اور نجی سطح پر جاری
رہتی ہے۔ کیا درخت نہ لگانے یا اکھاڑنے پر ایک سال کی سزا سب پر لاگو ہوگی؟
گھروں میں قانونی طور پر درخت لگوانے کی حکومت کوشش اچھی ہے، مگر دوسری اہم
اور ضروری جگہوں پر درخت لگوانا اور انہیں پروان چڑھانا بھی حکومت کا ہی
فرض ہے۔ |