پہلا سین :
آج رات بہت زیادہ سرد نہیں تھی مگر ٹھنڈی ہوا کچھ زیادہ چل رہی تھی. .
سٹریٹ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے پورے علاقے میں اندھیرا تھا. سردیوں میں تو
ویسے بھی رات جلدی اتر آتی اسی لئے چوک پر موجود دکانیں بھی بند ہو چکی
تھی، رات تقریبآ گیارہ کے قریب کا وقت ہو گا اورباہر کوئی چہل پھل نہیں تھی
مگر ایک بوڑھا آدمی تھا جو سر جھکاے چلا جا رہا تھا، اپنی سوچوں میں گم جس
کے لاٹھی ٹیکنے کی آواز سے تھوڑی تھوڑی گونج پیدا ہو رہی تھی، جسکی منزل اس
ٹھنڈی رات میں روز کی طرح قبرستان تھی...
دوسرا سین :
لاڈو ، ویکھ ذرا کنا سوہنا پتر ہے اپنا ، ہے نا شہزادوں جیسا .....رنگ تو
پورا تیرے پے ہی گیا ہے، گورا چٹا،،،، افضل نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پیار سے
چومتے اور اپنی گود میں بٹھاتے ہوے اپنی بیوی سے کہا.....بس دو سال ہی رہ
گے، پھر اس نے پورے دس سال کا ہو جانا، مولوی جی سے قرآن مجید کی پڑھائی
بھی ختم ہو جانی تو پھر اسے باؤ رشید کی ورکشاپ پر چھوڑ آنا بس....سکوٹر کا
کام سیکھ جائے گا تو بڑا اچھا...اب اکیلا میں کہاں خجل ہوتا پھروں ...کوئی
نہیں لیتا میری قلفیاں اب... میں نے تو تب آرام کرنا اپنے "سلیم" کو کام پر
لگوا کر بس.....
تیسرا سین:
یار تو کیوں بھاگ آیا اپنا شہر چھوڑ کر اس بڑے شہر میں جہاں پہلے ہی اتنے
لوگ روزگار کے لئے دھکے کھا رہے....بس یار اور برداشت نہیں ہوتی تھی بے
عزتی اپنے استاد کی گالیاں سن کر ، مار کھا کر، گھر میں ابا باتیں سناتا
اور دکان پر استاد....بس تبھی پھر ورکشاپ سے ایک پرانی سکوٹر کو کباڑ میں
چوری سے بیچا ، پسے پکڑے اور اسی رات بس پے بیٹھ کر آ گیا یہاں...سنا ہے
بڑا بندہ پرور شہر ہے اور ہر کام کی ذرا تھوڑی آزادی بھی ہے، جیسے وہ دیکھ
اسکو ......"سلیم" نے ایک بند دکان کے تھرے پر بیٹھے ہوے ، سیگرٹ کا کش
لگاتے اور اپنے دوست کو پاس سے گزرتی ایک لڑکی کی طرف آنکھ کے اشارے سے
متوجہ کرتے کرتے ہوے کہا ...
چوتھا سین:
باؤ جی فکر ہی نہ کریں ، مجھے چھوٹے موٹے سارے کام ہی آتے ہیں، میں یہاں
سفیدی ختم کر کے گھر کا چولہا بھی ٹھیک کر دوں گا، کچرا وغیرہ پھنس جاتا ہے
جی برنر میں، اسکے بعد آپ کی پانی والی موٹر بھی دیکھ لیتا کیا مسلہ
ہے.....پکی عمر کے "سلیم" نے دیوار پر سفیدی والا برش مارتے گھر کے مالک کو
کہا جس نے گپ شپ کرتے اپنے دوسرے مسلے بھی بتا دیے تھے...سلیم بھی دل میں
خوش تھا کہ ایک کام کے ساتھ دو تین اور کام بھی کھڑکا دے گا ...ایسے ہی بڑ
ماری تھی اس نے ...کون سا اس نے دوبارہ نظر آنا یہاں...وقتی ٹھیک کر دینے
والا جگاڑ اسے بہت آتے تھے.... مزید چار پیسے تو ہاتھ آ ہی جائیں گے آج
....
پانچواں سین :
چاچا جی، آپ اس عمر میں بھی کام کرتے پھرتے ہیں کوئی پتر نہیں، جو کما کر
کھلائے ....مسجد کے باہر ایک نوجوان نمازی نے باہر کھڑے مسواکیں اور ٹوتھ
برش بیچتے ایک بابا جی سے پوچھا ....پتر میری گھر والی فوت ہو گئی ہے...ایک
پتر تھا مگر نکما نکلا ، گھر سے بھاگ گیا تھا ذرا جوان ہوا تو....بس اکیلی
جان ہوں اب، پیٹ بھرنے کے لئے کچھ تو کرنا پڑتا نا....یہ چیزیں بک جاتی ،
کچھ لوگ ویسے ہی کچھ دے دیتے تو گزارا ہو جاتا.... نام کیا ہے چاچا جی
آپکا...نمازی نے ایک مسواک کو چیک کرتے پوچھا ....پتر میرا نام "سلیم" ہے ،
تھوڑی بوہتی امداد بھی کرتے جانا ،تو اچھا بندہ لگ رہا مجھے .....اچھا چاچا
یہ مسواک دے دو ایک، اور یہ لیں پیسے، باقی کے آپ رکھ لینا...نمازی نے چاچا
سلیم کو پچاس کا نوٹ دیتے ہوے کہا.....
آخری سین:
قبرستان آ ہی گیا تھا اور بابا "سلیم" مختلف قبریں پھلانگتا ایک چار دیواری
کے پاس آیا جس کے اندر تین قبریں تھی اور اوپر سے چھت بھی تھی، اندر آ کر
اس نے لاٹھی نیچے پھینکی اور ایک پکی قبر کے سرہانے بیٹھ کر چاردیواری کے
ساتھ ٹیک لگا لی...یہی جگہ اسکی رات گزارنے کا ٹھکانہ تھی ، نہانا دھونا وہ
قبرستان کے ساتھ بنی مسجد میں کرتا تھا یا گورکن کے پاس جا کر جو اسکا
اکیلا زندہ دوست تھا یہاں ورنہ باقی تو سب مرے ہوے موجود تھے...تھوڑی دیر
بعد اس نے تندور سے لی ایک اخبار میں لپٹی روٹی نکال کر کھانا شروع کر دی
اور ختم کر کے وہیں سو گیا..مگر وہ اخبار کا ٹکڑا جس میں روٹی لپٹی ہوئی
تھی وہ چاردیواری کے اندر پھنس گیا تھا. ہوا سے کبھی ادھر جاتا، کبھی ادھر،
جو کہ کوئی بچوں کا صفحہ لگ رہا تھا جس پر کسی بچے کے شایع شدہ علم کے کچھ
فائدے لکھے ہوے تھے......علم حاصل کرنے سے زندگی سنوارتی ہے..... اولاد کو
تعلیم دلوانا والدین کا بنیادی فرض ہے....علم حاصل کرنے والا معاشرے میں
اچھا مقام پاتا ہے....علم ایک روشی ہے جو غربت کا اندھیرا دور کرتی ہے .علم
سے سوچ میں مثبت تبدیلی آتی ہے...گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرو.... اور
باقی کا صفحہ پھٹا ہوا تھا.....!
|