2جنوری 2016کو سعودی عرب کی شاہی سرکار نے
47مبینہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی۔ یہ تمام لوگ 2002سے 2014کے درمیان
سعودی عرب کے بہت سے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث تھے۔1980کے بعد پہلی
مرتبہ سعودی عرب میں اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی دن میں پھانسی دی گئی ہے جس
کی وجہ سے پوری دنیا اس واقعہ کی جانب متوجہ ہوئی ہے۔پھانسی کے اس عمل کی
طرف متوجہ ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سزا پانے والوں میں سے ایک سعودی
عرب کے معروف شیعہ رہنما باقرالنمر بھی شامل ہیں۔ جن کی پھانسی کو لے کر
ایران کی جانب سے سرکاری طور پر شدید احتجاج کیا گیا اور پوری دنیا کے
شیعوں کو اس احتجاج میں شریک کرلیا گیا۔ اس واقعہ نے سعودی عرب اور ایران
کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات کو مزید ابتر کردیا اور ساری دنیا میں مسلکی
تفریق میں اضافہ کیا۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ پھانسی کی سزا پانے
والے47میں سے 43سنی ہیں جن میں دو غیر ملکی ہیں بقیہ چار سعودی عرب کے شیعہ
باشندے ہیں ان چار میں سے ایک باقرالنمرہیں جن کا نام لے کر پوری دنیا میں
احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے جاری 2جنوری2016کے ایک
بیان میں سعودی پریس ایجنسی نے تفصیلی طور پر اس سزاکے سلسلے میں چارج شیٹ
جاری کی ہے اور سزایافتگان کی فہرست بھی جاری کی ہے۔
سعودی عدالت کے اس فیصلے کے تحت ملک کے بارہ مقامات پر اس سزا کی تعمیل کی
گئی جن میں ریاض،مکہ،مدینہ، مشرقی صوبہ، قصیم، حائل، شمالی سرحد،
اسیر،جوف،نجران اور باحہ شامل ہیں۔43افراد کے سر قلم کئے گئے جب کہ چار
افراد کو گولی مار کرسزا دی گئی۔چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مجرمین
نے تکفیری عقائد اختیار کرلئے تھے اور خوارج کی صورت اپنالی تھی،یہ لوگ
دہشت گرد تنظیموں کے رکن تھے اور سعودی عرب کی مختلف عمارتوں میں بم دھماکے
کئے تھے۔جن میں الحمراء ،وینل، اشبیلیہ ہاؤسنگ کمپلکس ،عربی کمپنی برائے
پٹرول ، پٹرولیم سینٹر کمپنی وغیرہ وغیرہ مقامات پر دھماکے کئے اور وہاں کے
باشندوں اور محافظوں کو قتل کرکے ان کی میّتوں کا مثلہ کیا۔عوامی استعمال
کے پانی کو زہر آلود کیاوغیرہ وغیرہ، جرائم کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے۔
ان میں سے اکثر لوگوں کا تعلق دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے ہے اور کچھ لوگ
داعش کے بھی ہیں۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف موثر مہم
کے تحت اس قسم کی سزائیں دے رہے ہیں انہوں نے دہشت گردی کو خلاف قرآن وسنت
مانا ہے اور اپنے ملک کے باشندوں کی جان ومال اور جائیدادوں کے تحفظ کو
یقینی بنانے کے اپنے عزم کے تحت یہ پھانسیاں دی ہیں۔ساری دنیا نے مختلف
انداز سے اس واقعہ پر رد عمل کا اظہار کیا ہے جہاں ایک طرف خلیجی ممالک کے
آمرین نے اسے حق بجانب قرار دیا ہے وہیں دوسری طرف اقوام متحدہ ، یورپی
ممالک اور ایران وغیرہ نے اسے ظلم سے تعبیر کرتے ہوئے ایک غیر انسانی حرکت
قرار دیا ہے اور اس کے خلاف عوامی تحریک منظم کی ہے جس نے مسلکی رخ اختیار
کرلیا۔حالانکہ بنظر غائر تجزیہ کیا جائے تو یہ معاملہ مسلکی نہیں ہے۔ ایران
کا غیرمعمولی رد عمل حق بجانب معلوم نہیں ہوتاکیونکہ ساری دنیا میں اس
واقعہ کی تشہیر ایرانی ذرائع ابلاغ نے جس انداز سے کی ہے اس سے ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ گویا محض ایک شیعہ عالم کو ہی پھانسی دی گئی ہو،ان کی تشہیر میں
43سنّیوں کے پھانسیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی دیگر تین شیعوں کے
پھانسی کا تذکرہ ہے۔یہ معاملہ سیدھے طور پر سعودی آمریت کے تحفظ کا معاملہ
ہے سعودی ایک غیرجمہوری ملک ہے جس میں شہنشاہیت اپنے تحفظ و بقا کے خاطر
کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے۔ اس غرض سے اسلام کے بنیادی اصولوں وضوابط کو
مسخ کرنا پڑے، عقائد سے صرف نظر کرنا پڑے، غیر انسانی حربوں کا استعمال
کرنا پڑے یا ساری دنیا کی مخالفت مول لینی پڑی ہر قیمت پرشاہی خانوادہ اپنے
اقتدار کی بقا اور تحفظ چاہتا ہے ان کی دوسری ترجیح اپنے قریبی حلیفوں
امریکہ اور اسرائیل کو خوش رکھنا اور ان کی تائید وحمایت کے خاطر اقدامات
کرنا ہے جس سے وہ ایک لمحے کے لئے صرف نظر نہیں کرتے۔ دنیا کی اکثر غیر
جانب دار حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس واقعہ کو اسی نظر سے دیکھا ہے اور
ان پھانسیوں کو امریکہ کو خوش کرنے کی ایک سعی قرار دیا ہے۔ حال ہی میں
القاعد ہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اس واقعہ کو امریکہ کو دیا جانے والا
نئے سال کا تحفہ قرار دیا ہے اور انتقام لینے کی دھمکی دی ہے ظاہر ہے کہ
پھانسی پانے وا لوں میں بڑی تعدادالقاعدہ کی ہے ۔بجاطورپر کہا جاسکتا ہے کہ
مصر کے معزول سنی صدر محمد مرسی بھی اگر سعودی باشندے ہوتے تو سعودی حکمراں
انہیں بھی پھانسی دینے سے گریز نہ کرتے یہ حقیقت اس امر سے بھی واضح ہوتی
ہے کہ مصر میں محمد مرسی صاحب کے انتخاب کو انہوں نے اچھی نظر سے نہیں
دیکھا تھا اور وہاں آنے والے فوجی انقلاب کے بعد فوری طور پر سعودی
حکمرانوں نے مصر کے جابر فوجی حکمراں السیسی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے
ایک خطیر رقم بھی امداد کے طورپر عطاکی تھی۔چنانچہ سعودی عرب کے نزدیک یہ
مسئلہ مسلکی انتقام کا نہیں ہے لیکن اس واقعہ نے ایران کو ایک موقع فراہم
کردیا کہ وہ اسے شیعہ اور سنّی کی بنیادوں پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ علامہ باقر النمر کے اوپر ایسا کوئی بھی الزام ثابت
نہیں ہوا جو انہیں پھانسی کا سزاوار بناتا ہو۔باقر النمر 56سالہ شیعہ رہنما
تھے جو 2003سے ہی سعودی حکومت کے خلاف سرگرم تھے اور سعودی عرب کے مشرقی
خطے میں خطیب جمعہ اور معروف شیعہ رہنما تھے۔سعودی عرب میں 2کروڑ کی آبادی
میں نے تقریبا 20 لاکھ شیعہ ہیں جوزیادہ ترمشرقی صوبے میں آباد ہیں۔
النمران کے رہنما تھے اور شیعہ اقلیت پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز
بلندکرتے رہتے تھے۔ لیکن ان کی یہ تحریک ہمیشہ پرامن رہی انہوں نے معتقدین
کو ہمیشہ یہی تلقین کی کہ بندوق کی آوازوں پر نعروں کی آواز کو تیزکرو۔تشدد
ہمارا کلچر نہیں ہے اور اسلام تشدد سے گریز کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے سعودی
حکومت کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ حکومت اپنے مظالم سے باز نہ آئی تو مشرقی
صوبے کی خود مختادی کے لئے بین الاقوامی تحریک چھڑ سکتی ہے۔ وہ اپنی تحریک
اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ چلایا کرتے تھے اور کسی بھی قسم کے تشدد
کو تحریک کے لئے نقصان دہ مانتے تھے۔2011اور2012میں جب تیونس سے بہارعرب
نامی انقلاب کا آغاز ہوا اور خطے کے مختلف ممالک میں جمہوریت کا مطالبہ شدت
اختیار کرگیا تو انہوں نے بھی سعودی عرب جمہوری انتخابات کے لئے تحریک کا
آغاز کیا جسے حکومت نے کچل دیا۔ اسی موقع پربحرین اور یمن میں اٹھنے والی
تحریکوں کی حمایت انہوں نے کی تھی جس کے پاداش میں 8جولائی2012کو انہیں
گرفتار کرلیا گیا۔حالانکہ پولیس کا دعویٰ یہ تھا کہ انہوں نے پولیس پر گولی
چلائی تھی لیکن حکومت اس دعوے کو ثابت نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس پولیس
کیگولی سے النمر کی ایک ٹانگ زخمی ہوگئی تھی اور ان کی گرفتاری کے خلاف
احتجاجی مظاہر ے میں پولیس کی گولی سے دو لوگ مارے گئے تھے۔النمر نیجیل میں
45 دن اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بھوک ہڑتال بھی کی تھی اور انسانی
حقوق کی ایک تنظیم الشراق نے ا ن کی گرتی ہوئی صحت پر اظہار تشوش بھی کیا
تھا۔15اکتوبر 2014کو انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد سعودی
عرب کے مختلف اداروں میں ا س سزا کے خلاف اپیل بھی کی گئی اور رحم کی
درخواست بھی کی گئی جو ہرجگہ خارج ہوتی چلی گئی۔یہ واقعات صاف بتاتے ہیں کہ
النمرسعودی عرب میں بحالی جمہوریت نیز اقلیتوں کے حقوق کی پر امن تحریک
چلارہے تھے اور اس سلسلے میں متعدد بار وہ جیل گئے لیکن کسی بھی قسم کے
تشدد اور دہشت گردی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا حکومت وقت کے لئے وہ ایک
چیلنج ضرور تھے۔ظاہر ہے کہ مہذب دنیا میں اس قسم کی تحریک چلانے کا حق ہر
ایک کو حاصل ہے حزب اختلاف کو حکمرانوں کی مخالفت کے لئے پھانسی کا سزاوار
قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہی وہ نمایاں فرق ہے جو النمر کو باقی سزایافتگان سے
ممیز کرتا ہے کیونکہ دیگر سزایافتگان میں سے اکثر کے اوپر پر تشدد حملے
کرنے، قتل عام اور اغوا کے معاملات ثابت ہوئے ہیں ایسے میں النمر کو ایک
شیعہ لیڈر بناکر پیش کرنا خود ان کی توہین ہے۔ ایران سے بجا طور پر یہ سوال
کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے دیگر مقامات پر اس طرح کی تحریریکیں چلانے والے
لیڈروں کو جو پھانسی دی گئی ہے اس پر حکومت ایران خاموش کیوں رہی اور ایک
اصولی موقف اختیار کیوں نہیں کیا۔ مثلاً حال ہی میں بنگلہ دیش میں جماعت
اسلامی کے پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دیگر رفقاء کو 1971کے واقعات کے
جھوٹے الزامات میں پھانسی کی سزا دی گئی اور ایران سمیت دنیا کی اکثر
حکومتیں خاموش رہیں۔ اسی طرح مصرکے صدر محمد مرسی کو غیر جمہوری طریقوں سے
معزول کرکے پھانسی کی سزا سنادی گئی مگر حکومت ایران خاموش رہی۔ یہ حیرت کی
بات ہے کہ آج کی دنیا میں اسلامی جمہوری حکومتیں ہوں یا سیکولر جمہوری
حکومتیں شہنشاہیت ہو یا دیگر کوئی بھی نظام حکومت ہر جگہ اپنے خلاف اٹھنے
والی آوازوں کو خصوصاً اسلامی آوازوں کو دبانے کے لئے انتہائی ظالمانہ
طورپر پھانسی دے دی جاتی ہے اور دنیا خاموس تماشائی بنی رہتی ہے۔
عصرحاضر میں عالم اسلام میں مجموعی انداز میں مسلکی طورپر کوئی موقف اختیار
نہیں کیاگیا،ایرانی انقلاب کو عالم اسلام کی اکثریت نے اسلامی انقلاب مانا
اور رہبر انقلاب علامہ خمینی رحمۃاﷲ کو قائد اسلام مانا، ان کے نعرے لا
شیعہ ولا سنیہ، اسلامیہ اسلامیہ کی ہر جانب پذیرائی ہوئی۔اس انقلاب کو
ناکام اور بے اثر کرنے کے لئے عراق کے صدر صدام حسین کی قیادت میں تیس
ملکوں کی اتحادی فوج نے ایران پر حملہ کیا تو زیادہ تر عالم اسلام ایران کے
ساتھ کھڑا تھا۔فلسطین کے معاملے کو علامہ خمینی نے جب ترجیح دی تو ساری
دنیا نے ان کی حمایت شیعہ سنی کے علمبردار کے طورپر علامہ خمینی کی شخصیت
کو تسلیم کیا گیا۔اسی طرح 2006میں جب لبنان کے حزب اﷲ کو اسرائیلکے ساتھ
جنگ کرنی پڑی تو حزب اﷲ کے رہنما حسن نصراﷲ کو عالم اسلام نے شیر عرب کا
خطاب دیا اور ایک لمحہ کسی نے نہیں سوچا کہ وہ شیعہ ہے ۔ان حالات میں آج
علامہ باقر النمر کی شہادت کے نام پر ایک شیعہ تحریک بلندکرنے پر ایران سے
بجا طور پر یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا یہ وہی آیت اﷲ خمینی صاحب کا ایران
ہے یا حسن روحانی کے زمانے کا ایران اپنے اہداف سے بھٹک چکا ہے ۔واضح رہے
کہ باقر النمر بھی حکومت ایران سے کبھی متفق نہیں رہے اور ہمیشہ یہ کہتے
رہے کہ ایران دینی مفادات پرقومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح وہ
بشارالاسد کو ظالم مانتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی مظلوم طبقہ کسی ظالم کی
حمایت کبھی نہیں کرسکتا۔
ایران اور سعودی عرب دونوں نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کو یقین
دلایا ہے کہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ یہ دونوں
ممالک ایک دوسرے سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تعلقات میں کشیدگی
توایک زمانے سے موجود ہے ۔حالیہ ایام میں اس کشیدگی میں مزید اضافہ بھی ہوا
ہے سفارتی تعلقات بھی منقطع ہوئے ہیں مگر ایسا کیا ہے کہ جنگ تو کرنی نہیں
لیکن اختلافات کو مہمیز دے کر عالمی سطح پر وا کرنے کی نوبت آرہی ہے اور اس
کے لئے مسلکی حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔یہ امر واقعہ ہے سعودی عرب اور
ایران آپس میں کبھی جنگ نہیں کریں گے۔کیونکہ اس صورت میں دنیا کی اکثر مسلم
مملکتیں واحد شیعہ مملکت ایران کے خلاف صف آرا ہوجائیں گی ۔ایران خود ایک
ایٹمی طاقت ہے وہ اس کا اعلان کرے یا نہ کرے مگر دنیا جانتی ہے۔ اسی خطے
میں پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور سعودی عرب بھی اسرائیل کے ایٹمی
طاقت کا استعمال کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ طاقت کا یہ وہ توازن ہے جو ان
دونوں کو جنگ نہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔پاکستان کا ذکر یہاں اس لئے کیا کہ
سعودی عرب اور ایران کی کسی بھی متوقع جنگ کی صورت میں پاکستان سعودی عرب
کے ساتھ کھڑا دکھائی دے گا۔ ویسے بھی اس ہفتے دو مرتبہ سعودی وزراء پاکستان
کا دورہ کرچکے ہیں جویہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو رام کرنے کے
لئے کس قدر کوشاں ہے۔34سنّی ممالک کا ایک فوجی اتحاد پہلے ہی قائم ہوچکا ہے
ایسے میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ایران پر ہونے والی کوئی بھی فوج کشی
ایران کے عوام کے لئے سیریا سے زیادہ خطرناک اور طویل ثابت ہوسکتی ہے۔حکومت
ایران خود بھی ان حقائق سے واقف ہے اس لئے فوج کشی کا کوئی سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مسلکی تفریق میں اضافہ دو نوں ممالک کی خواہش ہے
اس لئے دنیا کے کسی بھی ادارے کی جانب سے کی جانے والی مصالحت کی کوئی کوشش
سردست کامیاب نہیں ہوسکتی۔اسلام کے خلاف موجودہ پرآشوب زمانے میں خصوصاً
مغربی ایشیا کے حالات میں مسلکی تفریق صرف دشمنان اسلام کے مفاد ات کی
تکمیل کرسکتی ہیں اور کررہی ہے اور یہ دونوں ممالک نہ اپنے مسلک کے لئے
سنجیدہ ہیں اور نہ اسلام کے لئے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں طنابیں
امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے اور دونوں نے خود کو بزعم خود سنی اور
شیعہ مسلکوں کا رہنما سمجھ لیا ہے ۔ اسلام کو پس پشت ڈال کرعوامی خواہش اور
مرضی کے خلاف مسلکی تفریق کے ذریعے اپنے آقاؤں کی خوشنودی اور اپنے اقتدار
کی بقاء واستحکام کی کاوش میں مصروف ہیں۔عالم اسلام کو عمومااور مسلمانان
ہند کوخصوصاًاس سازش کو سمجھنے اور اس سے دور رہنے کی سخت ضروت ہے۔ |