حضرت ربیع بن سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں کوفہ قیام کیا۔
وہاں ایک عورت کو دیکھا جو مردار کے جسم سے گوشت کاٹ رہی تھی۔ شکو ک و
شبہات نے جنم لیا تو اس عورت کے پیچھے ہولیے۔ اب اس عورت کی کہانی پڑھیے وہ
ایک خستہ مکان کے اندر داخل ہوگئی۔
حضرت ربیع بن سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دروازے کے سوراخ میں سے اندر
جھانک کر دیکھا ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس عورت کے پاس چار لڑکیاں آکر بیٹھ
گئیں جن کے چہرے سے غربت عیاں تھی۔ عورت نے ان لڑکیوں سے کہا یہ گوشت پکا
کر کھا لو۔ حضرت ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہ منظر دیکھ کر
کانپ گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور اس عورت سے کہا یہ گوشت مت پکانا میں ابھی
آیا۔ خود بازار کا رخ کیا حج کے لیے جو پیسے اکٹھے کیے تھے۔ ان سے کچھ آٹا
اور کپڑا خریدا اور باقی کی رقم بھی سامان میں چھپا کر سامان انہیں دے کر
واپس آگئے۔ اس کے بعد حضرت حضرت ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خود کوفہ میں ہی
رہے۔ اور حاجیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کا انتظار کرنے لگے۔ جب حاجی
لوٹے تو حضرت نے گرمجوشی سے استقبال کیا اور حج کی مبارکباد دی تو ساتھی
حیران ہوئے اور گویا ہوئے کہ آپ تو یوں مبارکباد دے رہے ہیں جیسے آپ نے حج
نہیں کیاحالانکہ آپ ہر جگہ ہمارے ساتھ تھے۔ ان میں سے ایک حاجی نے ان کو
روپوں کی تھیلی دیتے ہوئے کہایہ آپ کی امانت آپ نے فلاں جگہ میرے حوالے کی
تھی۔ بہت حیران ہوئے مگر تھیلی لے لی۔ اسی سوچ میں کہ ماجرا کیا ہے نیند کی
آغوش میں چلے گئے۔ نصیب چمکے خواب میں نبی رحمت شفیع امت محبوب رب اکبر ﷺ
کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایاـ’’ اے ربیع اپنے حج کے کتنے
گواہ چاہیے تمہیں تو مانتا ہی نہیں کہ تو نے کتنے حج کیے ہیں سن اصل بات یہ
ہے کہ جب تو نے اپنے حج کے لیے جمع شدہ رقم غریب عورت کے لیے ایثار کردی
تھی تو تب میں نے اﷲ سے تمہیں اس کا نعم البدل دینے کا سوال کیا تھا تو اﷲ
پاک نے تمہاری شکل کا ایک فرشتہ بنا کر اس کو حکم دیا کہ وہ ہر سال تمہاری
جانب سے حج کیا کرے گا اور وہ چھ سو درہم جو تو نے خرچ کیے وہ دنیا میں ہی
اس تھیلی کے ذریعے لوٹا دیئے‘‘ (کتاب آؤ حضور کی زیارت کریں ازپروفیسر محمد
رفیق)
یہ تو بن دیکھے بن سوچے سودے ہیں۔ اس واقعہ کو میں شامل بحث نہ کروں گی اور
اس واقعہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ جو میں بات کرنا چاہ رہی ہوں اس
پر اگر کوئی فرض عبادت یا اس جیسا فتوی لگانا چاہے تو اس واقعہ کو مدنظر
رکھیں۔
گفتگو کو نیا رخ دیتے ہیں اک اور منظر پیش خدمت ہے ۔ گلاب کے پھولوں سے لدے
ایک صاحب سفید سوٹ پہنے بڑی سی توند کے ساتھ اسٹیج پر براجمان تھے۔ اور
سینکڑوں دیہاتی پھٹے پرانے اور گندے کپڑوں کے ساتھ پنڈال میں عقیدت و محبت
کا پیکر بنے بیٹھے تھے۔ ان دیہاتیوں میں سے ایک دیہاتی اپنے ساتھی کو بڑے
وثوق اور عقیدت سے حاجی صاحب کے قصے سنا رہا تھا کہ حاجی صاحب پانچویں
مرتبہ حج کو جارہے ہیں 20بکروں کی قربانی دی ہے آج انہوں نے۔ اور جب واپس
آئیں گے تو کھجوریں اور زم زم بھی بانٹیں گے۔ اورنذیر یہ سب باتیں بہت شوق
اور انہماک سے سن رہا تھا۔ ابھی یہ گفتگو چل رہی تھی کہ وہ اٹھا اور ایک
کونے میں جاکر بیٹھ گیا۔ شاید عقیدت اور محبت سے حج کے ارمان مچل رہے تھے
سر جھٹکتے ہوئے اس نے پاس پڑا اخبار اٹھایا اور پڑھنے لگا۔ خبر تھی باپ نے
اپنے بچوں سمیت خود کشی کرلی باپ غربت کے ہاتھوں مجبور تھا۔ نوکری مل نہیں
رہی تھی اور اپنے معاشرے کے رویوں سے دلبرداشتہ تھا۔ شعور اسے چودہ صدیاں
پیچھے لے گیا۔ حجتہ الوداع کا دن حضور ﷺ اپنے امتیوں کے جھرمٹ میں کعبہ سے
مخاطب تھے۔ (مفہوم) اے کعبہ ! میرے ہر امتی کے جان و مال عزت و آبرو کی
حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔ جس کی حرمت کعبے سے زیادہ ہے اس نے توکل بھوک ، پیاس
سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ حضرت ربیع بن سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تو بات
چھوڑیں حاجی صاحب کا دوسرا حج لازمی تھا؟ باپ نے بچوں سمیت خود کشی کرلی۔
گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو اس گناہ کا سبب بنے کیا روز
قیامت ان سے پوچھ ہوگی؟ علماء کرام سے میں نہایت ادب سے اک سوال عرض کروگی
کی ننگے ، بھوکے، بلکتے اور سسکتے بچوں میں جب کوئی توند والا حاجی آکر حج
سے لدے ہوئے تحفے بانٹے گا تو کیا وہ جنتی ٹھہرے گا؟ قیامت کے روز وہ معصوم
بچوں کی روحیں کیا ہم سے نا پوچھیں گی؟ بتاؤ ہمارا قصور کیا تھا؟ جب وہ
توند والے حاجی رب کائنات کے حضور پیش ہونگے تو کیا ان سے نہ پوچھا جائے کہ
جب میں بھوکا تھا مجھے تو نے کھانا نہ کھلایا
میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا
میں بیمار تھا تو میری عیادت کو نہ آیا
اور پھر کیا یہ جواب ان سب سوالات کے جواب میں کہ ’’ مولا میں تیرے گھر
اتنی مرتبہ تیری عبادت اور تیرے گھر کی زیارت کو آیا‘‘ کافی ہوگا؟ کیا یہ
حج اور عمرے مقبول ہونگے؟ سوچئے گا ضرور۔ |