بے بسی اور بے حسی؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
شیخ جاوید بہاول پور کے مقامی صحافی
ہیں، وہ قومی اور مقامی اخباروں میں کام کرتے رہے ہیں، صحافت کے میدان میں
اترے انہیں اٹھائیس برس ہورہے ہیں۔ چھبیس سال سے وہ بہاولپور پریس کلب کے
ممبر ہیں۔ وہ آج بھی کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں، ان کی دو بیٹیاں ہیں۔
کوئی پانچ برس قبل ان کی اہلیہ کے پیٹ میں شدت سے درد اٹھا ،ٹیسٹ کے بعد
ڈاکٹروں نے بتایا کہ بڑی آنت میں ٹیومر ہے، دو سال تک اس کا علاج ہوتا رہا،
افاقہ نہ ہوا۔ کسی نے شوکت خانم کا مشور ہ دیا، وہاں جاکر لاکھوں روپے کے
ٹیسٹ کروائے گئے، مفت علاج کی بابت معلوم ہوا کہ اگر ہم مریض کو داخل کریں
گے تو علاج مفت شروع ہوگا۔ تاہم نہ داخلے کی صورت بنی اور نہ ہی مفت علاج
کا موقع آیا، رپورٹوں کی روشنی میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ کینسر آخری سٹیج پر
ہے، ہم صرف ابتدائی سٹیج پر ہی علاج کرتے ہیں۔ چنانچہ مریض کو لاعلاج قرار
دے کر واپس بھیج دیا گیا۔ بہاول پور واپس آکر کچھ صحافی دوستوں نے ’بینو‘
میں علاج کروانے کا مشورہ دیا، اور مفت علاج کا خاکہ ذہن میں تیار کیا، مگر
ڈائریکٹر صاحب نے مفت علاج سے معذرت کرلی اور بتایا کہ ان کے اختیارات میں
صرف یہی ہے کہ ہسپتال کے اندر کے ٹیسٹ پچاس فیصد رعایت پر کردیئے جائیں گے۔
شیخ صاحب نے لاکھوں روپے علاج پر لگا ئے ۔
علاج مہنگا تھا اور وسائل نہ ہونے کے برابر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ صاحب نے
باوسیلہ اور بااختیار لوگوں کے در پر دستک دینے کا آغاز کیا، بہاولپور کی
حکومتی پارٹی کی ایم این اے پروین مسعود بھٹی کے پاس گئے، ٹیسٹ دکھائے،
فائل دی اور ڈھیر سارے وعدوں اور امیدوں کے ساتھ واپس لوٹے، مگر دن ہفتوں
میں اور مہینے سالوں میں بدل گئے، درخواست خادمِ پنجاب تک پہنچی یا نہیں،
کوئی جواب نہ آیا۔ پریس کلب کے سابق صدر شاہد بلوچ نے ذاتی کوششوں سے ٹیسٹ
اور ادویات فراہم کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کی کوششیں بھی اتنے مہنگے
علاج میں دب کر رہ گئیں، انفارمیشن عابد رضوی کے بھی ذاتی کوششیں اور وعدے
کئے، مگر مقتدر اور مختار لوگوں کو زیادہ متاثر نہ کرسکے۔ عزیز رشتہ داروں
سے مسلسل قرض لیا جاتا رہا۔ امید دلانے والے ہر کسی سے توقعات بڑھ جاتیں،
وہی مسیحا دکھائی دینے لگتا، اسی کے پیچھے ہو لیتے ۔ گرتے پڑتے، ٹیسٹ
کرواتے رہے، کچھ دوائیاں لیتے رہے۔ ٹیومر بڑھ گیا، حالات مزید خراب اور
مایوس کن ہوگئے، مگر امید کی کرن اس وقت پیدا ہو گئی جب ڈاکٹروں نے ٹیومر
نکال دیا ، مگر امید کا یہ دیا زیادہ دیر روشنی نہ دے سکا کہ کینسر نے جاتے
جاتے جگر پر بھی اپنے اثرات چھوڑ دیئے تھے۔ علاج کی اسی کشمکش میں مریضہ کی
آنکھوں پر بھی بہت برا اثر پڑا پانچ برس میں چار مرتبہ آنکھوں کا آپریشن
کروانا پڑا۔ شیخ صاحب کی مالی حالت حد سے زیادہ کمزور ہو چکی تھی اور مریضہ
کی حالت بھی کمزوری کی حدوں کو چھو رہی تھی۔ آخر ایک دن مریضہ پانچ برس
کینسر سے لڑنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئی۔
اب شیخ صاحب اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں، ایک
بیٹی کی تعلیم تقریباً مکمل اور دوسری کی ادھوری ہے، بچیوں کی ماں کا سایہ
سر سے اٹھ چکا ہے،بیٹیاں اگرچہ محبت باپ سے زیادہ کیا کرتی ہیں، مگر فطری
رازداری اپنی ماں سے ہی کرتی ہیں۔ اب شیخ صاحب کے سر پر دو بچیوں کے مستقبل
کا بوجھ بھی ہے اور ان کی ماں کے علاج پر خرچ ہونے والے لاکھوں روپے کے
ادھار کا قرضہ بھی۔ آمدنی نہایت محدود اور قرضہ لامحدود ہے۔ وہ کس کی طرف
دیکھیں، کس سے امید رکھیں، حکمرانوں کو تو پروٹوکول اور مراعات کے بغیر ایک
قدم چلنا محال ہے، اور کون نہیں جانتا کہ حکمرانوں کا ایک ایک دن لاکھوں
روپے کھا جاتا ہے۔ خادم اعلیٰ کی نظر میں جو آجائے اس کے تو وہ گھر پہنچ
جاتے ہیں، مگر پیچھے پلٹ کر کوئی نہیں دیکھتا۔ انتظامیہ وغیرہ کو اس قسم کے
مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ این جی اوز کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں مگر
ان کی ترجیحات اپنی ہوتی ہیں۔ مخیر حضرات بھی اپنا حساب کتاب کرکے ہی خرچ
کرتے ہیں۔ اخبار مالکان کو بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت
ہے۔ صحافیوں کی تنظیموں کو نہ جانے کیا مصروفیات ہیں، وہ کن کے مفاد کے لئے
کام کررہی ہیں، پریس کلب کے ممبران کو اپنے اٹھائیس برس کے رفیق کی رفیقہ
حیات کے جناز ے میں شرکت کی توفیق بھی نہ ہوئی۔ حکومت پنجاب، اخبار مالکان،
صحافتی تنظیموں، پریس کلب ، مخیر حضرات اور پورے معاشرے کے لئے یہ لمحہ
فکریہ ہے کہ ایک غریب صحافی لاکھوں کے قرضوں کے بوجھ سے کیسے چھٹکارا پائے
گا؟ اس بے بسی کے سامنے بے حسی زیادہ طاقتور دکھائی نہیں دیتی؟ |
|