گناہوں سے بچیں

لا اِلٰہ الااللہ محمد الرّسول اللہ کا اقرار کرنا مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔ اگر ہم غور کریں تو کلمہ طیبہ کی ابتدا نفی سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے لا الٰہ سے تمام جھوٹے معبودوں اور شریکوں کا انکار کروایا اور پھر الااللہ کے ذریعے اپنی وحدانیت اور معبودِ برحق ہونے کا اقرار کروایا۔ یعنی مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اللہ کے سوا ہر جھوٹے معبود کا انکار کرو پھر صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واحد کو ہی خالق و مالک اور عبادت کے لائق سمجھو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کو تو معبود تسلیم کیا لیکن دوسرے جھوٹے معبودوں کو نہ چھوڑا تو یہ ایمان قابلِ قبول نہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی اُس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک عبادات و اعمالِ صالحہ کے ساتھ اُن تمام اعمال سے اجتناب نہ کیا جائے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ جن کو گناہ کہتے ہیں۔

آجکل اکثر نیک اور صالح ہونے کا معیار صرف عبادات کو سمجھا جاتا ہے۔ دین دار بننے کے لئے صرف نماز، روزہ اور ذکر اذکار کو کافی سمجھ لیا گیا ہے اور دین کے باقی اوامر و نواہی کی طرف کسی کی توجہ مشکل سے ہی ہوتی ہے۔ بلا شبہ عبادات دین کا لازمی حصہ اور باعثِ اجرو ثواب ہیں۔ لیکن اسلام دوسرے مذاہب کی طرح صرف عبادات پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہم شریعت کے احکام کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اسلام میں نیکی اور برتری کا معیار تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے"﴿ذاریات ۵۱﴾۔تقویٰ یا پرہیزگاری کا مطلب ہے اُن تمام باتوں سے رُک جانا جن سے شریعت ہمیں روکتی ہے۔ جس طرح انسان خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچا بچا کر چلتا ہے اسی طرح دنیا میں جگہ جگہ گناہوں اور فتنوں کے جوکانٹے بکھرے ہوئے ہیں، ہمیں ان سے خود کو بچا بچا کر چلنا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کو بچا بچا کر بچا بچا کر بس قبر تک لے جاؤ، آگے پھر انشااللہ آسانی ہی ہے۔ تو جہاں طاعات و عبادات ضروری ہیں وہاں گناہوں سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے اور اگر نماز روزہ بھی جاری ہے لیکن ساتھ ساتھ جھوٹ، غیبت، رشوت، سود وغیرہ ہر طرح کے گناہ بھی ہو رہے ہیں تو پھر اِن عبادات کے بھی وہ انوار و برکات حاصل نہیں ہوتے۔ اور اگر عبادات میں ریا کا گناہ شامل ہو جائے تو ثواب کی بجائے اُلٹا گناہ حاصل ہوتا ہے بلکہ بات شرک تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ ریا بھی شرکِ خفی ہے۔ آجکل ہم نے اللہ تعالیٰ کے مبارک نام اور کلامِ پاک اور حضور ﷺ کے نامِ مبارک اور ارشادات کو بھی محض دنیاوی مقاصد تک ہی محدود کر رکھا ہے اور خیرو برکت کے لئے دیوار پر آویزاں کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کا حق ادا ہوگیا اور حقیقت میں تو ہم ان عظیم ناموں کے احترام کا حق بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ گھروں میں اور باہر بہت سی جگہوں پر یہ شرمناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ ایک طرف تو اللہ اور رسول ﷺ کا نامِ پاک یا کلامِ پاک آویزاں ہے اور ساتھ ہی ٹی وی پر یا حقیقت میں نہایت بیہودہ اور فحش کلام و افعال جاری ہیں اور کھلے عام اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کی اور حضور ﷺ کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اور اس کے باوجود بھی ہمارے دل میں ذرا سا شائبہ بھی نہیں گزرتا کہ ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں اور نہ کوئی شرمندگی ہوتی ہے۔ اب ہم ذرا خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک مسلمان کو یہ زیبا ہے اور ایسی صورت میں جبکہ ہم ادب و احترام کی بجائے درِ پردہ کلامِ پاک کی معاذاللہ توہین کے مرتکب ہورہے ہوں، کیا ہم اس کے انوار و برکات حاصل کرنے کے مستحق ہیں۔ یہ تو میں نے صرف ایک مثال بیان کی ورنہ ہمارے گھروں میں، دکانوں میں، بازاروں میں ایسی بیشمار مثالیں نظر آئیں گی۔ بلاشبہ قرآنِ پاک کا ایک ایک لفظ اپنے اندر انوار و برکات لئے ہوئے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے کلام کا احترام بھی ہم پر واجب ہے اور ہمیں اس مقصد کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے لئے قرآنِ پاک نازل ہوا یعنی انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے۔ اللہ پاک نے فرمایا "یہ ﴿قرآن﴾ لوگوں کے لئے بیان صریح اور اہلِ تقویٰ کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے" ﴿آلِ عمران ۸۳۱﴾۔ یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت پر تقویٰ کی شرط لگائی۔

بزرگ فرماتے ہیں کہ ولی اللہ بننا بہت آسان ہے اس کے لئے بہت زیادہ عبادات کرنا شرط نہیں بس فرائض، واجبات اور سنت مئوکدہ ادا کرو اور گناہوں سے بچو۔ قرآنِ پاک میں جابجا مختلف انداز میں گناہوں کی ممانعت اور ان پر عذاب کی وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بے شک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے، وہ تم کو خوب جانتا ہے۔ جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے، تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیز گار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے" ﴿نجم ۲۳﴾۔ "کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے"﴿اعراف ۳۳﴾۔

ظاہری او ر باطنی دونوں قسم کے گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں بیشمار احکامات موجود ہیں اس لئے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے گناہ چھوڑنے ضروری ہیں۔ بعض صرف ظاہر کو ٹھیک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور باطن کی فکر نہ کرنے کی وجہ سے ریا، غرور، تکبر، حسد، کینہ وغیرہ جیسے گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنے اعمال برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ جملہ بھی اکثر سننے میں آتا ہے کہ بھئی دل صاف ہونا چاہیے ظاہر سے کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی شیطان کی ایک چال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کا باطن ٹھیک ہو اُس کا ظاہر خراب نہیں رہ سکتا اور جس کا ظاہر درست نہ ہو اُس کا باطن مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ یعنی اگر ظاہر ٹھیک نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ باطن بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر دنیاوی معاملات میں ظاہر کی اتنی فکر کیوں ہوتی ہے کہ کپڑے اچھے ہوں، جوتا اچھا ہو، بال ایسے ہوں، چال ایسے ہو، بات ایسی ہو، لوگ کیا کہیں گے بلکہ اکثر اوقات تو پسند میں بھی خود پر دوسروں کی پسند کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے احساسات کا جائزہ لے کہ اگر ہم کسی بڑی محفل میں پھٹے پُرانے کپڑے پہن کراور خستہ حال ہو کر جائیں تو ہم کیسا محسوس کریں گے، اس کے برعکس اگر بہت اعلیٰ اور خوبصورت کپڑے پہن کر جائیں تو ہمارے احساسات کیا ہوں گے یقیناً دونوں صورتوں میں ہمارے احساسات مختلف ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ظاہر کا اثر باطن پر ضرور پڑتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم دنیاوی معاملات میں تو اپنے ظاہر کو ٹھیک کرنے کا اتنا اہتمام کریں اور دین کے معاملے میںکہہ دیں کہ بس دل صاف ہونا چاہیے۔ یہ تو خیر عقلی دلیل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا تو پھر کسی چیز کا اختیار نہیں رہتا کہ "ظاہری اور باطنی ﴿ہر طرح کا﴾ گناہ ترک کردو، جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے"﴿انعام ۰۲۱﴾۔

اگر گناہوں پر کسی عذاب کا ڈر نہ بھی ہوتا تب بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور احسانات کا حق یہ تھا کہ ہم ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی نہ کرتے اور اب جبکہ گناہوں پر ناصرف آخرت میں عذاب کی وعیدیں ہیں بلکہ دنیا میں بھی گناہوں کے بے شمار نقصانات ہیں، چند نمونے کے طور پر عرض کرتا ہوں: انسان گناہوں کے باعث مصائب کا شکار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا " جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے"﴿شوریٰ۰۳﴾۔ شیطان مسلّط ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے "میں تم کو بتاؤں کہ شیطان کس پر اُترتے ہیں۔ ہر جھوٹے گنہگار پر اُترتے ہیں"﴿شعرائ ۱۲۲-۲۲۲﴾۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم رہتا ہے جیسا کہ فرمایا "بے شک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا" ﴿زمر ۳﴾۔ "حضور ﷺ نے فرمایا بے شک آدمی محروم ہو جاتا ہے رزق سے گناہ کے سبب ، جس کو وہ اختیار کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں ہیں، میں خدا سے پناہ چاہتا ہوں کہ تم لوگ ان کو پاؤ، جب کسی قوم میں بے حیائی کے افعال علی الاعلان ہونے لگیں گے وہ طاعون میں مبتلا ہوگی، ایسی بیماریوں میں گرفتار ہوگی جو اُن کے بڑوں کے وقت میں کبھی نہیں ہوئیں اور جب کوئی قوم ناپنے تولنے میں کمی کرے گی قحط اور تنگی اور ظلمِ حکام میں مبتلا ہوگی، اور نہیں بند کیا کسی قوم نے زکوۃ کو مگر بند کیا جاوے گا اس سے بارانِ رحمت، اگر بہائم ﴿جانور﴾ بھی نہیں ہوتے تو کبھی بارش نہ ہوتی اور نہیں عہد شکنی کی کسی قوم نے مگر مسلّط فرما دے گا اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو غیر قوم سے پس بجبر لیں گے وہ اس کے اموال کو"۔ اس کے علاوہ، اللہ تعالیٰ سے دوری، علم سے محرومی، طاعات سے محرومی، قلب میں تاریکی، ایمان کی حلاوت سے محرومی، حیا و غیرت جاتی رہتی ہے، گناہ کرنے سے حضور ﷺ کی لعنت میں شامل ہوجا تا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے بہت سے گناہوں پر لعنت فرمائی مثلاً سود لینے، دینے، اسکے لکھنے اور اس کے گواہ پر، حلالہ کرنے اور کروانے والے پر، چور پر، شراب پینے، پلانے، نچوڑنے، نچڑوانے، بیچنے، خریدنے، اس کے دام کھانے، اس کو لاد کر لے جانے اور منگوانے والے پر، ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کریں۔ جو دین میں کوئی نئی بات نکالے، تصویر بنانے والے پر، جو کسی مسلمان کو ضرر پہنچائے یا فریب کرے، ان عورتوں پر جو قبروں پر جائیں وغیرہ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُس پر لعنت فرمائی جو زمین میں فساد مچائے، قطع رحمی کرے، اور اللہ یا رسول ﷺ کو ایذا دے، جو احکامِ خداوندی کو چھپائے، جو رشوت دے اور جو لے اور جو درمیان میں پڑے۔ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے افعال پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ اگر گناہ کا کوئی اور نقصان نہ بھی ہو تو کیا یہ تھوڑی بات ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی لعنت کا مورد ہو گیا ﴿نعوذباللہ﴾۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کا سبب بنتا ہے یہاں تک کے عاصی گناہوںمیں گھر جاتا ہے پھراس کو چھوڑنا دشوار ہو جاتا ہے، توبہ کا ارادہ کمزور ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا اُمید ہو جاتا ہے اور بے توبہ مرتا ہے۔ ﴿اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے﴾۔

کچھ گناہ تو ایسے ہیں جن سے کوئی ظاہری فائدہ یا نفس کو حرام لذت حاصل ہوتی ہے جبکہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کوعاصی بغیر کسی فائدے یا لذت سے بھی کرتا ہے اور مفت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے مثلاً غیبت، گالی گلوچ، عیب جوئی وغیرہ۔ انہیں میں بعض ایسے بھی ہیں جو انسان محض دوسروں کی رضا کے لئے یا صرف عادتاً کرتا ہے مثلاً داڑھی منڈانا، ٹخنے چھپانا ، غیر شرعی لباس پہننا وغیرہ۔ یہ گناہ انسان صرف شیطان کے بہکاوے میں آکر اور نفس کے دھوکے سے کرتا ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے داڑھی رکھ لیں، ٹخنے کھول لیں تو کچھ عرصہ بعد ان گناہوں کے کر نے کا سوچ کر ہی اس سے کہیں زیادہ تکلیف ہوگی جتنی آج انہیں چھوڑتے ہوئے ہوتی ہے۔ یہاں گناہوں کی تفصیلات کی گنجائش نہیں اس لئے نمونے کے طور پر چند گناہ لکھتا ہوں جن پر عذاب کی وعیدیں ہیں: حقارت سے کسی پر ہنسنا، طعن کرنا، بُرے لقب سے پکارنا، کسی کا عیب تلاش کرنا، چُغلی کھانا، دو رویّہ ہونا یعنی اِس کے منہ پر ایسا اور اُس کے منہ پر ویسا، تہمت لگانا، دھوکہ دینا، عار دلانا، کسی کے نقصان پر خوش ہونا، تکبّر و فخر کرنا، ظلم کرنا، باوجود قدرت کے مدد نہ کرنا، بڑوں کی عزت نہ کرنا، بھوکوں اور ننگوں کی حیثیت کے موافق خدمت نہ کرنا، کسی دنیاوی رنج سے بولنا چھوڑ دینا، جاندار کی تصویر بنانا، ہٹّے کٹّے کا بھیک مانگنا، داڑھی منڈانا یا کٹانا، کافروں یا فاسقوں کا سا لباس پہننا، عورتوں کو مردوں اور مردوں کو عورتوں کی وضع بنانا ۔ خاص طور پر ٹی وی دیکھنا، گانا بجانا اور بدنظری جو کہ آجکل کے بہت بڑے فتنے ہیں۔

اور ٹی وی تو بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے اور اس بیماری نے تو ہماری نسلیں بھی ہم سے خرید لی ہیں۔ ٹی وی کی شکل میں ہم اپنے بچوں کو ایک ایسا استاد فراہم کرتے ہیں جو اُنہیں گھر میں ہی دنیا بھر میں ہونے والی بُرائی سکھاتا ہے۔ یہ بچے جب بولنا سیکھتے ہیں تو ان کی زبان پر کلمہ طیبہ کی بجائے گانے ہوتے ہیں اور اس پر بھی والدین شرمندگی کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بچے جب بڑے ہو کر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے کی ہر برائی کو اپنانے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد کے لئے یہ وراثت چھوڑ کر والدین نہ صرف اُن کے حق میں بُرا کرتے ہیں بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں اولاد جو برائی بھی کرے گی اس کا گناہ والدین کے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا، اِسی طرح جیسے اولاد کے نیک اعمال کا ثواب والدین کو ملتا رہتا ہے۔ اس لئے اگر کسی نے خود کو ٹی وی سے بچا لیا توآدھا میدان مار لیا۔ اللہ سب کو توفیق دے﴿آمین﴾۔ سب گناہوں سے بچنا چاہیے اور کبھی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے" ﴿آلِ عمران ۵۳۱﴾۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ گناہ پر اصرار بہت خطرناک ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ ہو جاتا ہے، پھر اگر توبہ و استغفار کر لی تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر ﴿گناہ میں﴾ زیادتی کی تو وہ ﴿سیاہ دھبہ﴾ اور زیادہ ہو جاتا ہے سو یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ہرگز ایسا نہیں ﴿جیسا وہ لوگ سمجھتے ہیں﴾ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمالِ ﴿بد﴾ کا زنگ بیٹھ گیا ہے"۔ اور اسی زنگ کی وجہ سے گناہ کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی مکمل طور پر گناہوں سے پاک نہیں ہو سکتا لیکن اگر ہم اپنی طرف سے گناہوں کے بچنے کا مکمل اہتمام کریں تو انشااللہ ہماری نادانستہ خطائیں بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا "اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے ﴿چھوٹے چھوٹے﴾ گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے" ﴿نسا ۱۳﴾۔

اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ایک بار پھر ماہ رمضان بے شمار رحمتیں اور برکتیں لئے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے ۔ یہ مہینہ بھی اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی کی مشق کے طور پر عطا فرمایا ہے۔اس میں ہمارا ایک دشمن شیطان تو قید کر دیا جاتا ہے اور رہا نفس تو وہ بھی کمزور پڑ جاتا ہے اور آسانی سے مغلوب ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی رحمت اس ماہِ مبارک میں نازل ہوتی ہے اور اعمال کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ آیندہ یہ مہینہ نصیب ہو یا نہ ہو اس لئے اس کو غنیمت جانیے۔ اگر ہم اس ماہ میں گناہوں سے مکمل اجتناب کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی برکت سے انشااللہ پورا سال ہی گناہوں سے بچا لیں گے۔تو آئیے ہم سب تقویٰ اختیار کرنے کا عہد کریں اور اپنے رب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا " خدا پرہیزگاروں کا دوست ہے" ﴿جاثیہ۹۱﴾ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ظاہری و پوشیدہ ہر قسم کے گناہوں سے بچنے اور رمضان المبارک کے انوار و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ﴿آمین﴾۔
ہم ایسی لذّتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں
کہ جن سے رب میرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 199119 views A Simple Person, Nothing Special.. View More