حق مہر

بیویوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق مہر ہے جو شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے ۔ نکاح کرنے والے مرد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بیوی کو ایک معین رقم ادا کر کے اپنے ذمہ لے۔ اس معین رقم کو ’’مہر ‘‘کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نکاح کا جو شریفانہ طریقہ عربوں میں رائج تھا اس میں بھی مہر مقرر کیا جاتا تھا، اسلام میں اس طریقہ کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ مہر اس بات کی علامت ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے والا مرد اس کا طالب اور خواستگار ہے اور وہ اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اس مہر کا نذرانہ پیش کرتا ہے یا اس کی ادائیگی اپنے ذمہ لیتا ہے۔ مہر کے بارے میں قرآن حدیث کی ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض فرضی اور رسمی بات اور زبانی جمع خرچ کے قسم کی چیز نہیں بلکہ شوہر کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہے، الا یہ کہ بیوی خود ہی وصول نہ کرنا چاہے۔

حق مہر کے بارے میں زمانہ جاہلیت میں کئی قسم کے ظلم ہوتے تھے۔ ایک تو یہ کہ مہر جو لڑکی کا حق ہے اس کو دیا ہی نہ جاتا بلکہ لڑکی کے والدین یا اولیا وصول کر لیتے جو سراسر ظلم تھا۔ دوسرا ظلم یہ تھا کہ اگر کبھی کسی کو مہر دینا بھی پڑ گیا تو بہت تلخی کے ساتھ، بُرا محسوس کر کے اور جرمانہ سمجھ کر دیتے تھے۔ تیسرا ظلم مہر کے بارے میں یہ تھا کہ بہت سے شوہر یہ سمجھ کر کہ بیوی ان سے مجبور ہے، مخالفت نہیں کرسکتی، دباؤ ڈال کر ان سے مہر معاف کروا لیتے تھے، جس سے درحقیقت معافی نہ ہوتی تھی، مگر وہ یہ سمجھ کر بے فکر ہو جاتے تھے کہ مہر معاف ہو گیا۔ ظلم کی ان تمام صورتوں کا خاتمہ قرآنِ کریم نے اس آیتِ مبارکہ کے ذریعے فرما دیا:

ترجمہ: ’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو ‘‘۔

یعنی اس آیت میں تعلیم فرمائی گئی کہ عورتوں کا مہر ایک حقِ واجب ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے ، اور جس طرح تمام حقوقِ واجبہ کو خوش دلی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح مہر کو بھی خوش دلی سے ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ کہ عورتوں پر زبردستی یا دباؤ ڈال کر مہر معاف کروانے سے کچھ معاف نہیں ہوتا، ہاں اگر وہ اپنے اختیار سے اور رضا مندی سے مہر کا کوئی حصہ معاف کردیں تو یا حق مہر لینے کے بعد تمہیں خوش دلی سے واپس کر دیں تو وہ تمہارے لئے جائز اور درست ہے۔

یہ مظالم زمانہ جاہلیت میں بہت زیادہ رائج تھے چنانچہ قرآن کریم نے ان کا انسداد اس آیت میں فرمایا۔ اگر آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ لاعلمی، غفلت اور دین سے دوری کی بنا پر یہ تمام مظالم آج مسلمانوں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں احکامات بالکل واضح ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو کہ کسی شخص کا مال ﴿دوسرے شخص کے لئے﴾ حلال نہیں جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو‘‘ ﴿مشکوٰۃ﴾۔ یعنی اس حدیث پاک میں شریعت کا یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کا ذرا سا مال بھی کسی دوسرے کے لئے حلال نہیں جب تک کہ اس میں دل کی خوشی سے اُس کی رضامندی شامل نہ ہو۔ چنانچہ مہر سمیت تمام معاملات میں اس عظیم اصول کو مدِّ نظر رکھنا چاہئے،

مہر کے سلسلے میں ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات چونکہ اس قدر پیش آتے رہتے ہیں کہ آجکل عورتیں یہ سمجھنے لگی ہیں کہ مہر ملنے والا تو ہے نہیں اور اگر مہر مانگوں یا معاف نہ کروں تو اس سے گھر میں بدمزگی پھیلے گی اور بعض اوقت گھر اُجڑنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے اس لئے وہ نا چاہتے ہوئے بھی حق مہر معاف کر دیتی ہیں۔ لیکن شرعیت کی نظر میں اس قسم کی معافی کا کچھ اعتبار نہیں۔ حکیم الامّت حضرت تھانوی(رح) فرماتے تھے کہ ’’صحیح معنیٰ میں دل کی رضامندی کا پتہ اُس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالے کر دی جائے اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے ﴿واپس﴾ دیدے‘‘۔ حضرت حکیم الامت (رح) نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اس سلسلہ میں طیبِِ نفس کا ذکر ہے طیبِ قلب نہیں فرمایا، اسلئے کہ کسی کا مال حلال ہونے کے لئے اس کے دل کی خوشی کافی نہیں ، جو لوگ رشوت یا سود دیتے ہیں بہت سے ظاہری منافع سوچ کر اور عقلی طور پر آمدنی کا حساب لگا کر خرچ کر دیتے ہیں، مگر یہ خوشی معتبر نہیں اگر نفس سے پوچھا جائے تو وہ اس خوشی پر قطعاً راضی نہ ہوگا، اسی وجہ سے طیبِ نفس کو فیصل قرار دیا گیا‘‘۔

مہر کی دو اقسام ہیں ’’مہر معجّل‘‘ اور ’’مہر مؤجل‘‘۔ ’’مہر مؤجل‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی کے لئے کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو اور جس کی ادائیگی فوراً یا عورت کے مطالبہ پر واجب ہو وہ ’’مہر معجّل‘‘ ہے۔ مہر معجّل کا مطالبہ عورت جب چاہے کر سکتی ہے، لیکن مہر مؤجل کا مطالبہ مقررہ میعاد سے پہلے کرنے کی مجاز نہیں۔ مہر کی ادائیگی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بلا کم و کاست زوجہ کو ادا کر دیا جائے۔ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں عورت کا مہر شوہر کے ذمہ قرض ہے، خواہ شادی کو کتنے ہی سال ہو گئے ہوں وہ واجب الادا رہتا ہے اور اگر شوہر کا انتقال ہو جائے اور اس نے مہر ادا نہ کیا ہو تو اس کے ترکہ میں سے پہلے مہر ادا کیا جائے گا پھر ترکہ تقسیم ہوگا۔

باقی رہا مہر کی مقدار کا معاملہ تو رسول اللہ ﷺ نے مہر کی کوئی خاص مقدار معین نہیں فرمائی کیونکہ نکاح کرنے والوں کے حالات اور ان کی وسعت و استطاعت مختلف ہو سکتی ہے۔ آجکل حبِ جاہ و حب مال کی بدولت یہ فرسودہ رسم بھی رواج پا گئی ہے کہ لوگ زیادہ حق مہر مقرر کرنے کو فخر کی چیز سمجھتے ہیں جبکہ یہ جاہلیت کا فخر ہے۔ بعض اوقات لڑکی کے والدین کی جانب سے اور بعض اوقات لڑکے والوں کی جانب سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کا لحاظ نہیں رکھتے، بلکہ زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات اس میں تنازع اور جھگڑے کی شکل بھی پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بعض موقعوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی جھگڑے میں شادیاں رک جاتی ہیں۔

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، دیکھو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھایا کرو، کیونکہ یہ اگر دنیا میں عزت کا موجب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کی چیز ہوتی تو نبی کریم ﷺ تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے۔ مجھے علم نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی سے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر نکاح کیا ہو، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح اس سے زیادہ مہر پر کیا ہو‘‘۔﴿مشکوٰۃ﴾

بعض اوقات لوگ نمود ونمائش کے لئے بھی حق مہر زیادہ سے زیادہ مقرر کر لیتے ہیں جبکہ ادائیگی کی نیت نہیں ہوتی یہ بات بھی نہایت خطرناک ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں اس حق مہر کی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں ہے تو قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا‘‘۔

ایک کوتاہی یہ بھی بعض حلقوں میں ہوتی ہے کہ وہ سوا بتیس روپے مہر کو ’’شرع محمدی(ص)‘‘ یا ’’مہر فاطمی‘‘ سمجھتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے اور یہ مقدار مہر کی کم سے کم مقدار بھی نہیں بنتی جو امام ابو حنیفہ(رح) کے نزدیک دس درہم ﴿تقریباً دو تولے ساڑھے چار ماشے چاندی﴾ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی صاحبزادیوں کا مہر پانچ سو درہم ﴿ یا اسکے قریب﴾ مقرر فرمایا اور آپ ﷺ کی اکثر ازواجِ مطہرات کا مہر بھی یہی تھا۔ پانچ سو درہم کی ایک سو اکتیس تولے تین ماشے﴿131 ¼ ﴾ چاندی بنتی ہے ﴿بھاؤ کی کمی بیشی کے مطابق اس مقدار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے بہر حال 131 ¼ تولے چاندی کا حساب رکھنا چاہیئے﴾ اسی کو مہر فاطمی کہا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کے سامنے اس سے بہت کم اور بہت زیادہ بھی مہر باندھے جاتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں اور ازواجِ مطہرات والے مہر کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ البتہ بعض اکابر برکت کے لئے ’’مہر فاطمی‘‘ رکھا کرتے تھے۔

الغرض مسلمانوں کے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہی لائق فخر ہونا چاہیے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کسی کی کیا عزت ہے؟ اگرچہ شریعت نے زیادہ سے زیادہ مہر رکھنے کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی، لیکن زیادتی کو فخر کی چیز سمجھنا، اس پر جھگڑے کھڑے کرنا اور باہمی رنجش کی بنیاد بنا لیاتا جاہلیت کے جراثیم ہیں جن سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام معاملات میں شریعت کی پابندی اور حضور اکرم ﷺ کی سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 199122 views A Simple Person, Nothing Special.. View More