اندھے قانون کی اندھی پولیس

 خبرہے کہ گوجرانوالہ میں کرائم ریٹ ایکدم بڑھ گیا ہے اور چوری ،راہزنی ،ڈکیتی و قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اعلیٰ پولیس افسران کے لئے موجودہ صورتحال درد سر بن گئی ہے یہ بات اپنی جگہ کتنی ہی درست کیو ں نہ ہو لیکن بجائے اسکے کہ’’ پولیس اور مجرم گٹھ جوڑ ‘‘توڑنے اور جرائم کی سر پرستی روکنے کے لئے پولیس افسران اپنی منجی تلے بھی ڈانگ پھیر نے کی زحمت کر تے اس صورت حال کا واحد حل یہ نکالا گیا ہے کہ ریکارڈ یافتہ مجرموں جن میں سے کئی توبہ کر چکے اور کئی اپنی سزائیں بھی بھگت چکے ہوں گے کو پکڑ کر’’ کٹاپا ‘‘ چڑھایا جا رہا ہے اور تھانوں سے چیخوں بھری’’ موسیقی‘‘ کی صدائیں بلند ہو نا شروع ہو چکی ہیں ، گوجرانوالہ میں تعینات پولیس افسران عام طور پر بہت اچھے مقررین اور دانشور بھی ہوتے ہیں اور شہری بھی انکی مداح سرائی میں کو ئی کمی نہیں رکھتے اورتعریفوں کے پل باندھنے والوں میں ہمارے تاجر اور صنعتکار بھائیوں نے بھی کبھی کنجوسی نہیں دکھائی انکی تقریروں سے گاہے بگاہے پتا چلتا رہتاتھا کہ پولیس اب جدید انداز میں تفتیش کرتی ہے اور یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ پولیس میں اب اوپر کی سطح پر پڑھے لکھے افسران کے آجانے سے بہت تبدیلی آگئی ہے اوریہ کہ تفتیش کے پرانے طریقوں کو ترک کر کے معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور ان مجرموں تک رسائی کے لئے جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر موبائل ڈیٹا کا سہارا لیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ، موجودہ سٹی پولیس افسر وقاص نذیر کے بارے میں میری بھی اچھی رائے رہی ہے کہ پولیس افسر ہونے کے باوجود اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن انکی قیادت میں اب پولیس خود شہر بھر میں ڈاکوؤں کی طرح دندناتی پھر رہی ہے اور نجانے ریکارڈ یافتہ مجرموں کے نام پرکس کو کس کیس میں پکڑ کر کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے کچھ پتا نہیں چل رہا ، آپ ذرا اس شخص کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیں جو اپنے حالات یا ہوس زر یا کسی بھی اور وجہ سے کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھا ہو اور اسکی سزا بھگت چکا اور اب جرم سے توبہ کر کے اپنی زندگی شرافت سے گذار رہا ہو اسے دن دیہاڑے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی لے جائے اور تفتیش و چھان بین کے نام پر ما ر مار کر ادھ موا کر دے ،نالائقی اور جہالت کی انتہا ہے کہ ہماری پولیس کے پاس اب بھی مار پٹائی کے علاوہ اقبال جرم کا کوئی اور طریقہ نہیں، پولیس کے یہ وہ مظالم ہیں جو اچھے بھلے انسانوں کو پکے مجرم بناتے اور خود کو بم باندھ کر پھاڑ دینے پر مجبور کرتے ہیں ،جیلوں میں پڑے ہزاروں بے گناہ قیدی اندھی پولیس کی اس گندی تفتیش کی نذر ہو چکے ہیں جسکا پرلے درجے کا بدتمیز اے ایس آئی اپنی موٹی توند کو بھرنے کے لئے چند ٹکوں کے عوض بکتا ہے اور اسکے قابو میں آنے والا ملزم تمام عمر کے لئے چور ڈکیت یا فراڈیئے کا لیبل لگو اکرجیل چلا جاتا ہے جہاں سے سزا ختم ہونے کے بعد بھی گوجرانوالہ پولیس کے حالیہ ایکشن کی طرح کبھی بھی دوبارہ دھر لیا جاتا ہے ، آخرپولیس اپنا رویہ بہتر کیوں نہیں کرتی ؟بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات پولیس کا پیٹ بھرنے کے لئے ناکافی کیوں ہیں موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے نوجوانوں کو کاغذات چیک کرنے کے بہانے گھیر کر انکی عزت نفس مجروح کر کے حکومت اورریاست کے خلاف انکے دماغوں میں زہر بھرنے والی اس پولیس کے مسٹنڈے خود سارا دن سڑکوں پر بغیر نمبر پلیٹوں کی موٹرسائیکلوں ہی نہیں موبائیل گاڑیوں پر بھی گھومتے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اندھے قانون کی اندھی پولیس کی ناک تلے جوئے کے اڈے چل رہے ہیں ،گوجرانوالہ کی پولیس آج تک شریف پور ہ سے منشیات اور جسم فروشی کے اڈے ختم نہیں کر سکی ۔۔۔کیوں ؟ ماڈل ٹاؤن میں ایک تگڑے ایس ایچ او تعینات ہوئے ہیں لیکن اب بھی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ تھانے سے ملحقہ محلے کی کئی گلیوں میں سر عام ’’پڑیاں‘‘ بکتی ہیں ۔۔۔؟جاہ و جلال والی پولیس کی نظریں تھانے کے ہمسائے محلے پر کیوں نہیں پڑتیں؟ (جار ی ہے)
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 82120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.