سُوۡرَةُ القَمَر
Syeddina Nouh Alaysalam.... NE POKARA
فَدَعَا رَبَّهُ ۥۤ أَنِّى مَغۡلُوبٌ۬ فَٱنتَصِرۡ
(۱۰)
پھر نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں تو مغلوب ہو گیا تو میری مدد کر
------------------------------------
Syeddina Abrahim alay salam ... NE POKARA
سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء
وَإِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِينِ
(٨٠)
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے
سُوۡرَةُ الصَّافات
رَبِّ هَبۡ لِى مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
(١٠٠)
اے میرے رب! مجھے ایک صالح (لڑکا) عطا کر
------------------------------------
Syeddina Ayub Alaysalam ....NE POKARA
سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء
۞ وَأَيُّوبَ إِذۡ نَادَىٰ رَبَّهُ ۥۤ أَنِّى مَسَّنِىَ ٱلضُّرُّ وَأَنتَ
أَرۡحَمُ ٱلرَّٲحِمِينَ
(٨٣)
اور جب کہ ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے روگ لگ گیا ہے حالانکہ تو سب
رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
-------------------------------------------
Syeddina Zikria Alaysalam ...Ne Pokara
سُوۡرَةُ آل عِمرَان
هُنَالِكَ دَعَا زَڪَرِيَّا رَبَّهُ ۥۖ قَالَ رَبِّ هَبۡ لِى مِن لَّدُنكَ
ذُرِّيَّةً۬ طَيِّبَةًۖ إِنَّكَ سَمِيعُ ٱلدُّعَآءِ
(٣٨)
زکریا نے وہیں اپنے رب سے دعا کی کہا اے میرے رب ! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ
اولاد عطا فرما بے شک تو دعا کا سننے والا ہے
----------------------------------------------
سُوۡرَةُ المؤمن / غَافر
وَقَالَ رَبُّڪُمُ ٱدۡعُونِىٓ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ
يَسۡتَكۡبِرُونَ عَنۡ عِبَادَتِى سَيَدۡخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
(٦٠)
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بے شک
جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل
ہوں گے
رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا
(اِنَّ الدُّعَآء ھُوَالْعِبَادَةُ)
''بے شک دعا ہی عبادت ہے۔''(ابودائود' ترمذی:کتاب الدعوات باب الدعا مخ
العبادہ۔ح۔٣٣٧٢)'' ترمذی اور ابن حبان نے صحیح کہا۔
ان آیات کریمہ سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی
مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کرسکتا ہے٬ اور ان کے کام آسکتا اور ان کے
دکھ درد دور کرسکتا ہے۔ اختیار و تصرف کا دائرہ فقط اسی کی ذات تک محدود ہے
اور ساری کائنات کا نظام اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ اور تمام انبیاء
ورسل علیہم السلام نے بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے فقط اسی کا
دامن تھاما اور صرف اسی کے سامنے سر نیاز خم کیا۔۔۔
حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا٬ حضرت نوح علیہ
السلام کا اپنے غرق ہونے والے بیٹے کے لیے رب کائنات سے سے نجات طلب کرنا٬
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صرف اسی سے اپنے لیے بیٹا مانگنا٬ مشکلات و
مصائب میں گھرے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صرف اپنے رب کو پکارنا٬
حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے صرف اللہ
تعالیٰ کے سامنے عجز ونیاز کرنا٬ اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صرف ذات
باری تعالیٰ سے شفا طلب کرنا٬ یہ سارے واقعات اس بات کی واضح اور بین دلیل
ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک ذی اختیار نہیں ہے جو مصیبت رفع کرسکتا ہو
علی ہجویری
یہ وہ بزرگ ہیں جو غزنی، افغانستان سے بسلسلہ تبلیغ لاہور تشریف لائے تھے۔
لاہور ہی میں دفن ہوئے۔ ان کے مزار پر لوگ کئی زیادتیاں کرتے ہیں اور ان سے
کئی امیدیں باندھتے ہیں۔ وہ اپنی مشہور کتاب ”کشف المحجوب“ میں اپنے آپ کو
مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
”اے علی! لوگ تجھ کو گنج بخش کہتے ہیں۔ مگر تیرے پاس کسی کو دینے کے لیے
کوڑی بھی نہیں۔ تو اس پر فخر نہ کر کیونکہ گنج بخش (خزانہ بخشنے والا) اور
رنج بخش صرف اللہ کی ذات ہے ۔ “
مگر اس قوم کا کیا ہوگا جو اصل داتا اور گنج بخش کو چھوڑ کر ان بزرگوں کو”
داتا“ اور ”گنج بخش“ کہہ کر ان کی روحوں کو دُکھ دیتے ہیں۔ یقیناً قیامت کے
روز اللہ ان سے جواب طلبی کرے گا۔ایک کاروبار کی خاطر یہ سلسلہ چلا دیا گیا
ہے۔ علامہ اقبال کھری کھری بات کہنے کے عادی تھے اور کیا کھری بات کہہ گئے
ہیں:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خر من تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے |