سابق جنرل پرویز کیانی پر الزامات
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
فوج کو اس معاملے میں اس امر کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ اپنا احتساب کرنے کا عمل شروع کرنے کے باوجود آئینی طور پر وہ سول اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی تاہم فوجی جرنیلوں کا احتساب سیاسی حکومتوں پر ایک اخلاقی دباو کا باعث ضرور بنے گا۔ |
|
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
بدعنوانی کا مرض سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے، یہ موذی مرض نہ صرف ہمارے
سیاستدانوں، فوجی اداروں، سرکاری اداروں بلکہ عام لوگوں میں بھی سرایت کر
چکا ہے۔بدعنوانی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً مالیاتی بد عنوانی، فیصلہ کرنے
میں بدعنوانی، اختیارات اور مراعات کا غلط استعمال، سفارش، رشوت، دھوکہ دہی
وغیرہ۔ بدعنوانی کی یہ تمام صورتیں ہم روزانہ دیکھتے ہیں اور ان سے متعلق
خبریں بھی سنتے ہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی کی وجوہات میں کمزور سول
سوسائٹی، احتساب کا ناقص اور کمزور نظام اور سیاسی عزم کی کمی شامل ہیں۔
بدعنوان افراد سرکاری اور نجی املاک، سرکاری رقوم اور اپنے اختیارات میں ہر
قسم کی دھوکہ دہی میں ملوث ہیں اور غریبوں، بیواوں اور یتمیوں کا مال ہڑپ
کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ لاہور کے ڈی ایچ اے سکینڈل میں گرفتار ایک
معروف تعمیراتی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو حماد ارشد کے خلاف احتساب عدالت میں
جمع کرائی گئی رپورٹ کے ذریعے جو اہم انکشافات سامنے آئے ہیں اس کے مطابق
ملزم حماد ارشد نے فوجی جوانوں اورشہداء کو اُن کے جائز حق سے محروم کیا۔
اُس پر الزم ہے کہ اس نے سترہ ارب روپے کا فراڈ کیا،اس کے خلاف نیب کو
گیارہ ہزار سات سو پندرہ شکایات موصول ہوئیں۔ ملزم حماد ارشد نے معاہدے کے
تحت ہاوسنگ سوسائٹی کےلیے 25 ہزار کنال اراضی حاصل کرکے تعمیراتی کام
کروانے تھے مگر حماد ارشد نے مختلف ٹکڑوں میں تیرہ ہزار کنال اراضی حاصل کی
اور ترقیاتی کام بھی نہ کروائے۔ نیب رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ
حماد ارشد نے قوم کے شہداء اور فوجی جوانوں کو اُن کے جائز حق سے محروم
رکھا۔ ایک اطلاع کے مطابق ملزم حماد ارشد کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد
چوہدری کا قریبی عزیز بتایا جاتا ہے۔
ڈی ایچ اے سکینڈل میں ایک اور ملزم کامران کیانی ہیں جو سابق آرمی چیف
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق اُن کی گرفتاری کے
لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ کامران کیانی کے ایک اور بھائی بریگیڈئر
ریٹائرڈ امجد کیانی کے مطابق کامران کیانی دبئی میں ہیں اور وہ کسی قسم کی
کرپشن میں ملوث نہیں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 17 ارب روپے کےاس گھپلے
میں ابڈن گروپ کے حماد ارشد اور ایلیسیم سویڈنگ کے کامران کیانی نے شہداء
اور فوجیوں کے خاندانوں اور عام لوگوں کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا۔ ڈی
ایچ اے منصوبے کا بنیادی مقصد شہداء کے لواحقین اور جنگ زدہ زخمی فوجیوں کے
خاندانوں کو چھوٹے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے ذریعے مادر وطن کے لیے ان کی
بہترین خدمات کا اعتراف کرنا تھا تاکہ ان کے لواحقین اور خاندان مناسب قیمت
کی ادئیگی کے بعد اپنے گھروں میں باعزت طور پر زندگی گزار سکیں۔ بدقسمتی سے
کرپٹ مافیا نے شہداء کے خاندانوں کو بھی نہیں بخشا۔ اس فراڈ کیس سے 26 ہزار
کے قریب افراد متاثر ہوئے ہیں، چھ برس گزرنے کے باوجود فوجی شہداء اور
زخمیوں کے لواحقین اور دیگر افراد اپنے حق کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکریں
کھا رہے ہیں۔
جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی 2007ء میں فوج کے سربراہ تعینات ہوئے۔ فوج کی
سربراہی ملنے سے قبل وہ وائس چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ اس سے پہلے ڈی جی
آئی ایس آئی تھے، اس سے پہلے ڈی جی ایم او تھے، ساتھ ساتھ پنڈی کے کور
کمانڈر بھی تھے، یہ ساری اثرورسوخ والی تقرریاں تھیں۔ جنرل (ر) کیانی کے
تین بھائی ہیں، ان میں بریگیڈیر (ر) امجد کیانی ، میجر (ر) بابر کیانی اور
کامران پرویز کیانی شامل ہیں۔ بابر کیانی اور کامران کیانی کاروبار سے
منسلک ہیں اور ان پر یہ الزامات لگے کہ اُنہوں نے اپنے بھائی کے عہدے کا
ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، سرکاری ٹھیکے حاصل کیے۔ کامران کیانی نے 1999ء
میں کام شروع کیا، یہ وہ وقت ہے جب جنرل (ر) کیانی طاقتور یا بااثرشخصیت
بننا شروع ہوئے، ترقی کرتے رہےاور پھر جب 2007ء میں جب جنرل (ر) کیانی
آرمی چیف بنے تو کامران کیانی چھ سات ارب روپے کے کام کرچکے تھے۔ جن دنوں
مذکورہ بالامنصوبے کا آغاز ہوا کامران کیانی کے بھائی سابق آرمی چیف جنرل
اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف تھے اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ انہوں
نے اپنے بھائی کے اثر و رسوخ اور منصب سے بھی فائدہ اٹھایا ہوگا۔ یہی وجہ
ہے کہ چھ برسوں کے دوران منصوبہ کاغذوں میں ہی رہا اور لوگوں کی رقوم سے
مخصوص افراد فائدہ اٹھاتے رہے۔ جنرل کیانی کے بھائی کے ملوث ہونے کے
الزامات پر بھی تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے۔
جنرل (ر) کیانی کے عہدے کی معیاد، پیپلز پارٹی کی حکومت نے تین سال بڑھا دی
تھی، اور اسی دور میں ان کے خاندان پر بدعنوانی کے الزامات سننے میں آئے۔
یہی نہیں، بلکہ جب نواز شریف کے سامنے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آیا، تو
ذرائع کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی ایک اور معیاد بڑھائے
جانے کے امیدوار تھے، چاہے وہ بطور آرمی چیف ہوتی یا چئیر مین جوائنٹ چیفس
آف اسٹاف کمیٹی کے۔ لیکن وزیر اعظم نے اس امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے،
نہ صرف اپنی مرضی کا آرمی چیف چنا بلکہ جنرل (ر) کیانی کے تجویز کردہ آرمی
چیف کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کرکے جنرل (ر) کیانی کی
بات نہ ماننے سے صاف انکار کردیا۔چھ سال تک پاکستان کے ڈی فیکٹو حکمران
رہنے والے اس طاقتور جرنیل کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ
پر بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وہ آسٹریلیا جارہے تھے،
جہاں انہیں کچھ کاروباری معاملات نبٹانے تھے۔ جب وہ امیگریشن کاوٗنٹر پر
پہنچے تو انہیں وہاں موجود حکام نے مہذبانہ طریقے سے آگاہ کیا وہ بیرو ن
ملک نہیں جاسکتے، کیونکہ یہ ہدایات وزارت داخلہ کی جانب سے آئی ہیں۔ جنرل
(ر) کیانی کے بھائی کامران کیانی کی کنسٹرکشن کمپنی کے پاس لاہور رنگ روڈ
کی تعمیر کا ٹھیکہ تھا۔ جنرل (ر) کیانی کے زمانے سے ہی قومی ذرائع ابلاغ کی
نظریں اُن کے بھائیوں اور اُن کی املاک پر مرکوز ہوگئیں۔ بعدازاں کامران
کیانی اپنے بھائی کی ریٹائرمنٹ کے بعد فیملی سمیت دبئی منتقل ہوگئے جس پر
ان افواہوں کو اور تقویت ملی کہ وہ بھاری رقم لے کر بیرون ملک منتقل ہوگئے
ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ، کرپشن کے یہی الزامات، جنرل (ر) کیانی کے بیرون
ملک روانگی میں حائل ہوئے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیر (ر) لیاقت طور کا کہنا تھا "سابق آرمی چیف جنرل
(ر) اشفاق پرویز کیانی کے خلاف کچھ وجوہات کی بنا پر فوج میں منفی تاثر تو
موجود ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کااین آر او سے وجود میں آئی حکومت سے اپنی مدت
ملازمت میں توسیع حاصل کرنا تھا، جسے بہت اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔
دوسری جانب اُن کے بھائیوں پر کرپشن کے الزاما ت بھی ان کی شہرت کے لیے
اچھے ثابت نہیں ہوئے ۔ سب جانتے ہیں کہ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے،
پھر ان کے بھائیوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، یہ سوچنے کی بات ہے"۔
گیارہ جون 2015ء کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز سندھ نے ایک رپورٹ پیش کی
جس کے مطابق سالانہ 230 ارب روپے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا انکشاف ہوا
ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ کی بریفنگ میں اُن تمام اداروں کی نشاندہی کی گئی
جہاں جہاں سے رقم حاصل کی جارہی تھی۔ ڈی جی رینجرز کی بریفنگ کے جواب میں
آصف زرداری نے اپنے جیالوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجہ
اپنایا اور کہا کہ سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ورنہ
اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، دو یا تین دن کے بعد وہ دبئی چلے گے،اب تک وہیں
قیام پذیر ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین جو سابق صدر آصف زرداری کے 1990ء سے بہت
قریبی دوست ہیں وہ پیپلز پارٹی کے دور میں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے
وزیرتھے۔ اس عرصے میں وہ مبینہ طور پر سی این جی اسٹیشنوں کے غیر قانونی
پرمٹ جاری کرنے کے علاوہ دیگر بدعنوانیوں میں شامل رہے۔ ان کے مخالفین اُن
کے کردار پرتنقید کرتے رہے ہیں۔ چھبیس مئی کو ڈاکٹر عاصم حسین اور ڈپٹی
مینجنگ ڈائریکٹر سوئی سدرن گیس کمپنی شعیب وارثی کو حراست میں لے لیا گیا
ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے اوپر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے
کروڑوں روپے کمائے ہیں۔
قومی احتساب بیورو کی عدالتوں کےلیے ڈاکٹر عاصم حسین جو سابق صدرآصف
زرداری کے دوست ہیں اور کامران کیانی جو سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق
پرویز کیانی کے چھوٹے بھائی ہیں، جبکہ ملزم حماد ارشد سابق چیف جسٹس افتخار
محمد چوہدری کا قریبی عزیز بتایا جاتا ہے، ان تینوں ملزمان کے خلاف مقدمات
نیب کی کارکردگی، اہلیت اور دیانت جانچنے کے لیے آزمائشی مقدمات ہیں۔ کیا
قومی احتساب بیورو سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شہداء اور فوجیوں کے
خاندانوں اور عام لوگوں کو انصاف ملے گا اورملزمان کو اُن کے جرائم کی سزا
ضرور ملے گی۔ اس مرتبہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے احتساب کا عمل فوج سے
شرع کیا ہے اگر ایسا ہوا تو متاثرین یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اُنہیں اُن سے
کیے جانے والے وعدے کے مطابق پلاٹ فراہم کیے جائیں گے۔ عام طور پر بعض
سیاسی رہنماوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ملک میں کسی کو مقدس
گائے نہ سمجھا جائے اور سب کا احتساب کیا جائے۔ حال ہی میں چیئرمین نیب نے
بھی اس ضمن میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ کسی استثنیٰ کے بغیر
سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کا تو احتساب ہوتا ہے مگر جن کے سر پر
عسکری اسٹیبلیشمنٹ کا دست شفقت ہے ان کا احتساب نہیں کیا جاتا۔ ملک میں
کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے سب کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔
قطع نظر اس کے کہ سابق جنرل کیانی بدعنوانی میں ملوث تھے یا نہیں ان پر
سنگین الزامات لگائے گئے ہیں اور یہ فوج کے لیے ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ
جنرل مشرف کے خلاف مقدمات کی طرح جنرل کیانی کے معاملے کو بھی اپنی اناء
اور آن کا مسئلہ بنا کر ان الزامات کی تحقیقات کی راہ میں روکاوٹ بن جائے
گی یا پھر ایک مثال قائم کرے گی۔ فوجی قیادت کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ماضی
میں نیشنل لاجسٹک سیل میں بدعنوانی کرنے والے فوجی افسران کو جس طرح مجرم
ثابت ہونے کے باوجود "چھوٹ" دی گئی اس مرتبہ ایسا نہ ہو۔ سب سے اہم سوال یہ
ہے کہ فوج کس بنیاد پر ڈی ایچ اے جیسے ادارے چلارہی ہے اور کیا فوج کے زیر
انتظام چلنے والے تجارتی اور کاروباری ادارے واقعی ہر قسم کی مالی
بدعنوانیوں سے پاک ہیں؟ ان منصوبوں اور اداروں کی شفافیت مشکوک ہے اور فوج
کو ایسے ادارے چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
فوج کے پاس اس تاثر کو رد کرنے کا یہ ایک عمدہ موقع ہے کہ وہ ایک جانب تو
اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی حکومتوں اور سول اداروں کا احتساب
کرنا چاہتی ہے اور دوسری جانب اپنے احتساب کو تیار نہیں۔ فوج کو اس معاملے
میں اس امر کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ اپنا احتساب کرنے کا عمل شروع کرنے
کے باوجود آئینی طور پر وہ سول اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی
تاہم فوجی جرنیلوں کا احتساب سیاسی حکومتوں پر ایک اخلاقی دباو کا باعث
ضرور بنے گا۔ سول اداروں اور سیاسی جماعتوں کوجس میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا
پڑتا ہے شاید فوج کو اتنے دباو کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن لوگ انگلیاں ضرور
اٹھائیں گے۔ بہر طور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اس موقف میں وزن ہے کہ
محض چند جماعتوں اور ان کے کارکنان کا احتساب احتساب نہیں سیاسی انتقام کا
نشانہ بنانا ہے، فوج اگر احتساب میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے ہاں موجود
بدعنوان افسران کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی، ان کے خلاف بھی جو مالی
بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے خلاف بھی جو آئین کی خلاف ورزی کے
مجرم ہیں۔ احتساب کے اس عمل میں فوج کو نہ صرف اپنے افسران کے خلاف
کارروائی کرنا ہو گی بلکہ سول اداروں کے معاملات میں مداخلت سے بھی گریز
کرنا ہو گا۔ |
|