سعودیہ ایران تنازع: پاکستان کا مصالحتی مشن....مثبت پیش رفت کا امکان

وزیراعظم محمد نوازشریف سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کے خاتمے اور ثالثی کے لیے متحرک ہوگئے۔ پاکستان کی ثالثی کی کوششوں سے دونوں برادر اسلامی ممالک میں سفارتی تعلقات معمول پر آنے کا امکان ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور پاکستانی بری فوج کرسربراہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے سفارتی مشن پر ہیں۔ پیر کے روز وزیراعظم نواز شریف اور سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے کنگ سلمان ایئر بیس پہنچے، جہاں ریاض کے گورنر نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف شاہی محل روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے سعودی فرما روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی ، اس موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ریاض میں سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن راحیل سے بھی ملاقات کی ہے، ملاقات کے دوران خطے کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور اس سے عالم اسلام میں پڑنے والے اثرات پر بھی بات چیت کی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف سعودی عرب کے بعد ایران جائیں گے، جہاں وہ ایرانی صدر حسن روحانی سے ون آن ون اور وفود کی سطح پر ملاقات کریں گے۔ ذرایع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب اور ایران کے مابین امن مشن پر اپنے ساتھ دونوں ممالک میں مصالحت کے لیے ٹھوس تجاویز لے کر گئے ہیں۔ بعض ذرایع سے پتہ چلا ہے کہ اگر دونوں ممالک نے دشمنی کو فوری طور پر روکنے اور جنگ بندیوں کے حوالے سے مخصوص معاملات پر اتفاق کیا تو او آئی سی ممالک کی ایک چھوٹی سربراہی کانفرنس بلائی جاسکتی ہے۔ ایران سعودی عرب تعلقات تو کافی عرصے سے کشیدہ ہیں، لیکن اب کشیدگی انتہا تک سعودی عرب میں شیعہ عالم دین نمرباقرالنمر کی سزائے موت سے بڑھی ہے۔ گو ایران اور سعودی عرب کے معاملات بہت مخدوش ہو چکے ہیں، مگر حالات ہنوز پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں پہنچے۔ نمر کی پھانسی اور اس پر ایران کے شدید ردعمل کے فوری بعد ایران اور سعودی عرب کی سفارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ان دنوں سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان طے تھا جو موخر کر دیا گیا تاہم چند روز بعد وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے اوپر تلے پاکستان کا دورہ کیا۔ ایرانی سفیر بھی متعلقہ پاکستانی حکام سے ملتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی طرف سے عندیہ پا کر ہی وزیر اعظم نواز شریف نے مصالحت اور ثالثی کی کوششیں شروع کی ہیں،جو کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ذرایع کے مطابق ریاض اور تہران سے اعلیٰ سطحی رابطوں میں ملنے والے مثبت اشاروں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف دونوں ملکوں کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ ذرایع نے باور کرایا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے مصالحتی مشن پر فوراً جواب دیا، جبکہ تہران اپنی بین الاقوامی مصروفیات اور یورپ و امریکا میں اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے کچھ تامل کے بعد رضامند ہوا۔ اگرچہ ایران کی جانب سے اس مشن پر رضامندی دیر سے موصول ہوئی ہے، لیکن دونوں دارلحکومتوں نے اسے خوش آمدید کہا ہے۔ ادھر چینی صدر ژی جن پنگ بھی آج سے دونوں ممالک کے دورے پر جارہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری جنہوں نے ہفتے کو ویانا میں اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی، وہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں، جبکہ ان کے بعد کئی دیگر یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی سعودی عرب کا دورہ کریں گے، ان سب کا مقصد خطے میں موجود کشیدگی کا خاتمہ کرنا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے مسلسل بڑھتے ہوئے اختلافات نے اہل پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ کئی عرب ملکوں تک وسیع ہوجانے والی اس کشیدگی کے نتائج امت مسلمہ کے لیے جس قدر تباہ کن ہوسکتے ہیں، اس کا تصور بھی لرزہ خیز ہے۔ پوری پاکستانی قوم کی خواہش تھی کہ پاکستان ایران و عرب دنیا میں مصالحت کرانے کے لیے بھرپور طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما پاکستان کی ثالثی کے حوالے سے بیانات بھی دے چکے ہیں۔ وزیراعظم کے خارجہ امور کے لیے مشیرسرتاج عزیز نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے ایک گفتگو کے دوران خیال ظاہر کیا تھا کہ فی الوقت پاکستان کے لیے یہ کردار ادا کرنا موزوں نہیں ہوگا، وقت آنے پر پاکستان اس کے لیے آمادہ ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف ایک سے زیادہ مرتبہ دونوں برادر ممالک کے درمیان مناقشے کے حو الے سے بے چینی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف دونوں ملکوں کو باور کرچکے ہیں کہ ان کی باہمی کشیدگی سے پوری امت مسلمہ شدید فکرمندی اور اضطراب کا شکار ہے اور صورت حال مثبت طور پر تبدیل نہ ہوئی تو مسلم دنیا ناقابل تصور انتشار اور تباہی کا ہدف بن سکتی ہے، لہٰذا دونوں ملکوں کو باہمی کشیدگی کے خاتمے کے لیے پرامن اور بامقصد بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے، جس کے لیے پاکستان کوششیں کرنے کو تیار ہے۔ پاکستانی قیادت کی یہ جدوجہدبار آور ہوئی اور دونوں برادر ملکوں کی جانب سے پاکستان کو ثالث کے کردار کی ادائیگی کے لیے گرین سگنل مل گیا۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی اور سعودی و ایرانی قیادت کی جانب سے اس کی پذیرائی ہوشمندی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ حکومت پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کے باعث سعودی عرب اور ایران نے وزیراعظم نوازشریف کی ثالثی کو قبول کیا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تنازع پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ایک ”صفحہ“ پر ہے، جس کے باعث وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ فوج کے سربراہ سعودی عرب اور ایران گئے ہیں۔ قومی حلقوں میں وزیراعظم نوازشریف کے سعودی عرب اور ایران دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی ختم کرانے میں کردار کو سراہا گیا ہے۔ وزیراعظم نے پچھلے ہفتہ عشرہ کے دوران ”خاموش سفارتکاری“ سے دونوں ملکوں کی قیادت کو باہمی تنازعات ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ سعودی عرب اور ایران سے گرین سگنل موصول ہونے پر ہی وزیراعظم نوازشریف نے دونوں ملکوں کا ہنگامی بنیادوں پر دورہ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔

سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی تو کافی عرصے سے چل رہی ہے مگر سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر سمیت 47افراد کو سزائے موت دینے اور ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے کو چلانے کے بعد کشیدگی میں مزید اضا فہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس چپقلش سے مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی خطرناک حد تک بڑھی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہو نے سے اس اندیشے نے سر اٹھایا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی پراکسیز کو مزید فعال کر دیں گے، جس سے مشرق وسطیٰ کی پہلے سے خراب صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے اور پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کے اس حالیہ بحران نے پاکستان کو بھی ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ذرایع کے مطابق ملک میں فرقہ وارانہ اختلاف اور سعودی عرب، ایران پراکسی وار کے خدشے نے پاکستان کو دونوں ممالک کے مابین ثالثی پرمجبور کیا۔ ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ذرایع کو بتایا کہ ہم سعودی عرب اورایران کے تنازع میں شائد فریق نہ ہوں، مگر اس کے اثرات ہمارے لیے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اگر سعودیہ ایران تعلقات اسی طرح خراب رہے تو پاکستان پراکسی وار کا میدان بن سکتا ہے۔ ایک اہلکار نے ذرایع کو بتایا کہ اس صورتحال میں ہمارے پاس دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ملک ممتاز تجزیہ نگاروں اور سابق سفارتکاروں نے وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ سعودی عرب اور ایران کو دونوں برادر مسلم ممالک کے مابین کشیدہ صورتحال کو ختم کرنے اور مسلم امہ اور پورے خطہ کے اتحاد اور یکجہتی کی جانب دلیرانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری دنیا کی نظریں علاقائی ا ور بین الاقوامی امور پر اپنا اثرو رسوخ رکھنے والے مسلم امہ کے ایک بڑے ملک پرمرکوز تھیں۔ وزیراعظم نے دونوں اہم اسلامی ممالک کی قیادت سے ملاقات کرکے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے پر آمادہ کرنے کا اہم قدم اٹھایا ہے، جس کی اشد ضرورت تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا یہ اقدام مثبت قدم ہے جس سے خطہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ختم ہوگی۔ پاکستان کا یہ بروقت فیصلہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ پاکستان کو خطہ میں امن واستحکام لانے کے مقاصد کے حصول کے لیے مستقبل میں دیگر علاقائی ممالک میں بھی اپنا کردار کر سکتا ہے۔ پاکستان کی مصالحتی کوششوں سے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے میں مفید ثابت ہوگا اور دورے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان نے مسلم ملکوں کے مابین اتحاد قائم کرنے کی غرض سے مصالحتی کردار اپنا کر صحیح اور مثبت جانب قدم اٹھایا ہے۔ ان کوششوں سے امت مسلمہ کے مابین اختلافات ختم ہوںگے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.