کالی موت
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
میں نے اسے کہہ تو دیا’ میں اتنا
بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ کیا آپ کسی اور سے مدد نہیں لیتے؟ آپ کی طرف کافی
امیر ، امیر لوگ رہتے ہیں‘۔ اس نے کہا ’چاچو اور لوگوں سے بھی مدد مانگ
لیتے ہیں ، وہ بھی مدد کر دیتے ہیں۔ آپ میرے ساتھ جا کر خود بھی دیکھ سکتے
ہیں کہ میری ماں فالج میں مبتلا ہے۔ اس کی دوائی لانی ہے۔ ڈاکٹر سات ، آٹھ
سو کی دوائی دیتا ہے۔ گاؤں چَڑے ون سے ہم دوائی لاتے ہیں۔‘ میں نے کچھ دن
پہلے بھی اسے آٹھ سو روپے دیئے تھے لیکن وہ پھر اتنی جلدی پیسے لینے آگیا
تھا۔ مجھے اس کی مالی زبوں حالی کا اچھی طرح ادراک اور احساس تھا۔ تبھی تو
پچھلے کچھ مہینوں سے میں اسے اکثر سو، دو سوروپے دے دیا کرتا تھا۔ لیکن
پچھلے چند ہفتوں میں اس کی ضرورت بڑھ کر سات، آٹھ سو کی بلند سطح کو چھو
رہی تھی، جسے پورا کرنا اپنی جیب میں سوراخ کرنا تھا۔ میں اس کی پریشانی سے
دلی طور پر پریشان بھی تھا۔ اس نوجوان ، اس کے باپ اور اس کی والدہ کی کس
مپرسی میرے لئے اجنبی نہیں تھی۔ لیکن بات یہ تھی کہ میں ان سے دلی ہمدردی
کے ساتھ ساتھ، دو چار سو کی مالی اعانت کا ہی متحمل ہو سکتا تھا۔ ایک ہزا ر
کے قریب روپے یک مشت دیتے رہنا میرے لئے مشکل تھا۔
مجھے اس نوجوان کا نام تو نہیں آتا تھا، لیکن اس کے باپ کو میں کافی حد تک
جانتا تھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے اپنی کم نصیبی کا شکارہوتے دیکھا تھا
۔اور اسی بد نصیبی نے اب اس کے نوجوان بیٹے پر نظریں جما لی تھیں۔اس کا باپ
انتہائی معمولی کام کیا کرتا۔ کبھی کبھی گلی میں ایک پرانی سی،ٹوٹی پھوٹی،
زنگ آلود سائیکل پر لوگوں کے چاقو، چھریاں تیز کرنے والی چھوٹی سی مشین لے
آتا اور صدا لگاتا ہوا گزر جاتا ۔ ایک دفعہ میں نے اس سے ایک چھوٹا سا چاقو
تیز کروایا تھا۔ میں دیکھا کرتا کہ گلی میں اس سے کوئی بھی اپنے چاقو، چھری
تیز نہیں کرواتا تو اس کی دیہاڑی کیسے بنے گی اور اس کے گھر کا گزارا کیسے
چلتا ہو گا۔ وہ شخص رنگت میں کوئلے کا قریبی رشتہ دار لگتا تھا۔ خیر رنگت
کسی شخص کا نصیب تو متعین نہیں کرتی ۔ لیکن بعض اوقات رنگت،تقدیر کی دوات
سے باہر بہہ جانے والی روشنائی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ بظاہر یہی لگتا
ہے کہ کچھ نہیں لکھا ہوا لیکن در اصل کچھ لکھا ہوتا ہے۔ جیسے شودروں ، یا
افریقیوں کی رنگت آج تک قسمت کی ستم ظریفی کی ،حروفِ ابجد کے بغیر، لکھی
گئی تحریریں ہی تو ثابت ہوئی ہیں۔ہاں قدرت اتنی سادہ نہیں کہ ایک بات میں
اپنے آپ کو نہاں کر دے۔ اس کے راز تو پیاز کی چھلکوں کی طرح اترتے ہی چلے
جاتے ہیں۔
وہ کبھی کبھی گلی کے موڑ پر نشانہ لگانے والی چھروں کی بندوق لے آتا اور
چند بچے اس کے آس پاس کچھ وقت کے لئے اکٹھے ہو جاتے۔ غباروں یا چاکوں کو
نشانہ لگایا جاتا ۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اور اس کی وہ دکان نما گاہکوں کی راہ
تکا کرتے۔ اور لوگ اسے دیکھ کر گزرتے جاتے۔ مجھے بار بار خیال آتا کہ وہ
اپناکام بدل کیوں نہیں لیتا۔ کوئی ایسا کام کر لے جس سے دیہاڑی بن جائے۔
اتنے مہنگے زمانے میں اس کا اتنا سستا گزارا کیسے ممکن ہے؟ میری تمام تر
سوچیں اس بات کا جواب تلاش کرنے سے قاصر رہتیں۔ یہی سمجھ آتا کہ بس کسی نہ
کسی طرح گزارا کر ہی لیتا ہو گا۔ وہ بندہ بھی عجیب تھا۔ اتنی شدید غربت بھی
اس کے چہرے سے ملنساری کی مسکراہت چرا نہیں سکی تھی۔ اور نہ ہی اس کی ذہنی
پریشانیوں نے اسے سر کے بالوں کو تیل لگا کر کنگھی کرنے سے منع کیا تھا۔
چہرے پر مسکان اور بالوں میں کنگھی اس کے ایسے خواص تھے جو یہ بات ثابت
کرتے کہ وہ پڑھا لکھا ہے لیکن پتہ نہیں کہ اتنا غریب اور لا چار کیوں ہے؟
اس کی تمام تر ہستی میری سوچوں کا انتشار تھی لیکن ہمیں کسی کے متعلق اتنا
سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ کہ ایسے ہی سوچ سوچ کے ہلکان ہوتے رہیں۔
اس نے پتہ نہیں زندگی کو اتنا سنجیدگی سے کیوں نہ لیا تھا۔اتنی تیز دنیا
میں اتنے سست گھرانے کا گزارا کیسے چلتا ہو گا۔اس نے اپنی فیملی کے لئے
کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کی تھی۔ وہ اپنے نوجوان بیٹے کو بھی اپنی اسی
بے کار سی نشانہ بازی کی دکان کا مالک بنا رہا تھا۔ وہ اپنے لختِ جگر کو
جسے اس عمر میں کسی سکول میں ہونا چاہیئے تھا، اپنے ساتھ بٹھا لیتا ۔ وہ
اسے کیا درس دے رہاتھا ۔ وہ اس کو کسی ہنر مند کا شاگرد کیوں نہیں بٹھا
دیتا کہ کچھ ماہ بعد وہ کچھ کمانے کے قابل ہو جائے۔لیکن اسے تو جیسے اس
دنیا کی سائیکی سمجھ ہی نہ آ رہی ہو۔ وہ بہت مضبوط اعتقاد رکھتا ہے کہ سب
کچھ ہی ٹھیک ہو جائے گا ۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ بلکہ
بہت کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
اس کی مالی حالت ہر چڑھتے سورج کے ساتھ اندھیروں میں ڈوبتی چلی جا رہی تھی۔
اس نے کچھ لوگوں سے مدد مانگنا شروع کر دی تھی۔ اسی بات کا امکان تھا۔ ان
لوگوں میں اس نے پتہ نہیں کس طرح میرا بھی نام شامل کر لیاتھا۔ وہ میرے پاس
بھی آ جاتا لیکن اپنی مجبوری کا واضح اظہار نہ کرتا ۔ اس کے چہرے پر پھیلا
غربت کا نقشہ موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے کم نہ ہوتا۔ لیکن اس کو مسکرانے کی
عادت شاید وراثت میں ملی تھی کہ جاتی ہی نہیں۔ بھلا فقیر بھی ہنس ہنس کے
بھیک مانگتے ہیں؟ با لکل نہیں۔یا شاید اس کی ساری دولت اس کی یہی مسکراہٹ
ہی تھی جو سب کچھ لٹ جانے کے باوجود بھی اس کے پاس بچی ہوئی تھی۔یا کسی چور
کو اس کی مسکراہٹ سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو
اچھے اچھوں کے گالوں سے مسکراہٹوں کے ہار چھین لئے تھے ، لیکن یہ فقیر نما
کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہر وقت مسکراتا کیوں ہے۔ شاید فطرت نے اسے یہ مسکراہٹ
ہی دی تھی۔ اور وہ اپنی اس اکلوتی نعمت سے اسے محرام نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ اب آہستہ آہستہ غائب رہنے لگا تھا۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا زیادہ نظر آنے
لگا ۔ وہ اپنے باپ کا بالکل صحیح جانشین تھا۔ کیوں کہ اس کے چہرے سے بھی
مسکراہٹ کا گہرا رشتہ تھا۔ وہ بھی بات کرتے ہوئے شائستگی کی مسکراہٹ چہرے
پر بکھیرنا کبھی نہ بھولتا تھا۔
وہ گرمیوں میں گول گپے بھی لگاتا تو اکیلا ہی کھڑا رہتا ۔ پتہ نہیں ایسوں
سے لوگ اتنا گریز کیوں کرتے ہیں۔ کوئی چیز لے کے کھانا بھی پسند نہیں
فرماتے۔ اور بہت سوں کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ ضرورت مند ہے۔ لیکن اس کی
بلواسطہ یا بلا واسطہ مدد کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا ۔ اس کی گرمیاں اور
سردیاں اسی آس میں بیت رہی تھیں کہ شاید زندگی میں کبھی بہار بھی آ ئے گی۔
لیکن بہار شاید اس کی قسمت میں تھی ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بارہ سال بعد
تو ’ روڑی‘ کی بھی سنی جاتی ہے ۔ لیکن شاید ’ روڑی‘ کی تو سنی جاتی ہے ،انسان
کی نہیں۔اسے اپنے باپ کا پیشہ ہی پیش آ رہا تھا۔ نہ اس نے کبھی ٹھوس
بنیادوں پر کوئی بیل منڈے چڑھائی اور نہ ہی وہ خود ایسا کچھ کر سکا جسے
زندگی کا روز گار کہا جا سکے۔مانگنے کی اس خاندان کو عادت نہ تھی ورنہ
مانگت تو کسی بھی زمانے میں بھوکے نہیں مرتے۔لیکن جس کیفیت میں یہ خاندان
جا چکا تھا اس میں مانگنا بھی گداگری کے زمرے میں نہیں آتا۔ بال کہ مانگ کر
اپنی یا اپنے جیسے کسی کی جان بچا لینا عظیم ترین نیکیوں میں شمار کیا جا
سکتا ہے۔ لیکن نہیں وہ گداگری کی نسبت مر جانے کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ لیکن
انسانی مروت کی توقع بھی رکھتے تھے۔ اسی بنا پر تو نرم دل لوگوں کے پاس چلے
آتے اور اپنا مسئلہ بیان کر کے ادنیٰ سی رقم جس سے شاید کچھ بہتری ہو سکے
لے جاتے ۔ یا وہ صرف ہوا کھا کر ہی گزارہ کر لیتے۔
دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ایک سال کے اندر تمام تہوار آ کے چلے
جاتے ہیں۔ ان میں لوگوں کے دل بڑی اچھی کیفیت سے مزین ہوتے ہیں۔ وہ مجسم
ہمدردی بنتے ہیں، مقدس رسومات ادا کرتے ہیں۔ بہت بڑی سخاوت کرتے ہیں لیکن
اس خاندان پر کسی کی نظر کیوں نہیں پڑتی۔ اگر پڑتی ہے تو ٹکتی کیوں نہیں۔
وہ اتنے کالے کیوں ہیں کہ کوئی ان کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ چلیں پسند
نہ کرے ناپسند چیزیں بھی تو برداشت کر لی جاتی ہیں۔کون سی تعلق داری بنانی
ہے کہ آدمی اتنا دور رہے۔ بس کچھ مالی امداد کی بات ہے۔ جو کہ بہت سی
عبادات سے زیادہ بڑی ثابت ہو سکتی ہے کہ انسان کی زندگی بچانے سے زیادہ بڑی
عبادت اور کیا ہو سکتی ہے۔ مذاہب کا مرکز بھی تو انسان ہے۔اگر انسان کا دل
خوش ہو گا تو خدا بھی خوش ہو گا اور اگر انسان پر ظلم ہو گا تو خدا کیسے
خوش ہو سکتا ہے۔لیکن یہ بات کون سوچے؟ بس عبادات ہی کافی ہیں۔ خدمت ِخلق تو
جیسے کوئی نیکی ہے ہی نہیں۔ یہ تو سب سے بڑی نیکی ہے۔ لیکن کسی کسی کے لئے
جو اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ اسے کر نہیں سکتے۔
سارا معاشرہ، یا تمام انسان ایک جیسے کہاں کوتے ہیں؟ کہیں بھی نہیں۔ کیا
یہاں کوئی ہمدرد انسان نہیں رہتا ؟ ایسی بات بھی نہیں ۔ لوگ خدا خوفی کرتے
تھے، انسان کی ہمدردی انسان کی سرشت میں ہے لیکن ہمدردی تو ہمدردی ہوتی ہے
،کوئی وراثت نہیں۔ لوگوں نے تو بس تھوڑا کچھ ہی دینا ہوتا ہے ۔ اور بہت کچھ
تو انسان کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ سارا کچھ تو انسان کو خدا بھی نہیں کر کے
دیتا۔ وہ بھی کچھ کرتا ہے اور بہت کچھ انسان سے ہی کرواتا ہے۔ یہ خاندان
بھی تو کچھ کرے۔لیکن وہ کیا کرے، جو بھی کرتے ہیں ناکام ہوتا ہے، کسی چیز
میں کامیابی کا قریب قریب کوئی نشان نہیں ملتا۔ انسان بھی تو آخر انسان ہے
مایوسی کے گھر میں جلدی داخل ہو جاتا ہے۔ مایوسی بھی اسی کی متلاشی رہتی ہے۔
مکان کی حالت ان کی اپنی حالت سے بھی بدتر تھی۔ صدیوں سے مرمت کا بھی کوئی
کام نہ ہوا تھا۔ درزوں سے سیمنٹ نکلتا، نکلتا نکل ہی گیا تھا۔ اینٹیں بھی
کمزور ہی رہی تھیں۔ ان کے تھکے چہروں پر خستہ حالی کے اثرات نمایاں تھے۔وہ
بھی اپنی قسمت پر پریشان ہو ہو کر مطمئن ہو چکی تھیں۔اب انہیں بھی گھر کے
مالکوں کی طرح مایوسی میں قرار آچکا تھا۔ یہ لوگ اپنے دور کی بے ہنگم تیزی
اور مادہ پرستی کے خلاف سراپا اطمینان تھے۔ وہ مر بھی رہے تھے لیکن چہروں
پر سے مسکراہٹ نہیں جا رہی تھی جو آج کے انسان کے نصیب میں کم تھی۔وہ بھوکے
گداگروں کی طرح دامن پھیلانے سے گریزاں تھے اور کیسی بات ہے کبھی قسمت کا
شکوہ تو وہ کرتے ہی نہ تھے۔ لیکن آخر وہ ہیں کیا ؟ مکان کی چھتیں پرانے
انداز کی تھیں اور اب وہ بھی کھڑی کھڑی تھک چکی تھیں اور گر جانے کا بہانہ
ڈھونڈ رہی تھیں۔ کہ کوئی تیز بارش ، طوفان یا زلزلہ آئے اور وہ کسی طرح سے
زمیں سے لپٹ کر خوب رو لیں۔ زمیں آخر ماں جو ہوئی۔
فطرت اگر کسی کوزندگی مرضی کی نہیں دیتی تو موت بھی اس کی نہیں بال کہ اپنی
مرضی کی دیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں زندگی اور موت دونوں قدرت کے ہاتھ میں
ہیں اور انسان کے ہاتھ میں صرف قسمت کی لکیریں ہیں جو کبھی سیدھی نہیں
ہوتیں۔ ہمیشہ قوسوں میں اور آرام وسکون سے کوسوں دور۔ اب تو ان بچاروں کی
ہڈیاں بھی گھلنے لگی تھیں۔ ان کے جسم کمزوری کی انتہائی پستی کو چھو رہے
تھے۔ جہاں سے اوپر آنا محال ہوتا ہے۔ وہ اپنا انجام شاید دیکھ چکے تھے یا
انہیں مرنے سے خوف نہیں آتا تھا۔لڑکے کا باپ تو اب گلی محلے میں نظر ہی
نہیں آتا تھا، لیکن یقیناً وہ ابھی مرا بھی نہیں تھا۔ لڑکا ہمیشہ اپنی ماں
کی بیماری کی دوائی کا کہہ کر ہی کچھ رقم لے کے جاتا تھا۔ اپنے باپ کا وہ
ذکر ہی نہیں کیا کرتا تھا۔ میں بھی اس سے نہیں پوچھتا تھا کہ اس کے باپ کا
کیا حال ہے۔وہ جلدی سے آتا اور مجھے چاچو کہہ کر مخاطب کرتا اور اپنی ماں
کی بیماری اور دوائی کی بات کرتا ۔ میں اپنی جیب سے پوچھ کر اسے کچھ دے
دیتا ۔ میں اسے دے بھی کیا سکتا تھا؟ وہی چار، پانچ سو۔ اور وہ بھی کوئی دو
ہفتوں بعد ، ہر روز میرا نہ حوصلہ تھا اور نہ ہی جیب کی اجازت۔ لیکن وہ جب
بھی آتا میرے ذہن میں سوالوں کا طوفان اٹھا کے چلا جاتا۔ میں کئی ، کئی
گھنٹے اس کے متعلق سوچ بچار میں مبتلا رہتا۔اس سے ہمدردی میں میرا دل پسیچ
جاتا ، لیکن اتنی بھاری ذمہ واری اٹھا نہیں سکتا تھا۔ مجھ سے کئی گنا زیادہ
صاحبِ حیثیت لوگ اس کے محلے میں سکونت پذیر تھے۔ اور کئی ایک بہت دین دار
اور خیرخواہ بھی ۔ میں ایک تنخواہ دار ، نپی تلی زندگی کا عادی ۔ یہ خاندان
چار افراد پر مشتمل تھا۔ ماں، باپ، اور بیٹا۔ غربت ہر روز ان کے دروازے کی
دہلیز پر قبضہ جما کے صبح سے شام براجمان رہا کرتی۔ وہ لوگ ایسے کاموں میں
سارا دن بھی گزار تے جن سے ان کے اپنے گھر کا چولہا جلانے جتنے پیسے بھی
نہیں بنتے۔ غریبوں کو کون سمجھائے؟ وہ کام بھی وہ کرتے ہیں جنہیں کرنے سے
امیر بھی غریب ہو جائیں۔ تو پھر وہ غریب سے امیرکیسے ہو سکتے تھے۔لیکن کچھ
تو کرنا ہی ہوتا ہے۔
ایک دن عید کے موقع پر میرا دل چاہا کہ میں اس کے گھر سے ہو آؤں۔ ان کا حال
احوال پوچھ آؤں۔ ان کا گھر ایک قبر نما کمرہ تھا۔ ٹوٹی، پھوٹی چارپائیاں،
گندے کپڑے ، برا حال ۔ روشنی کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا۔ دن کا اگر یہ حال
ہے تو رات یہاں کتنی زیادہ اندھیری ہوتی ہو گی۔ اور اس اندھیری رات میں موت
کو آنے میں رکاوٹ تو کوئی نہیں۔ تو پھر وہ آتی کیوں نہیں۔ اس نے ان بچاروں
کو اور کتنا ستانا ہے۔ اس کے ماں اور باپ دونوں چارپائی کے ساتھ چارپائی
بنے ہوئے تھے۔ کسی میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ اس کے باپ نے مجھے پہچان
کر ایک مسکراہٹ میری طرف ارسال کی جس کا جواب میں نے بھی ایک مسکراہٹ کے
ساتھ لوٹا دیا۔انہوں نے عید کے اس سالانہ تہوار کے لئے چائے کی عیاشی کا
سامان کیا ہوا تھا۔ وہ لڑکا ایک پیالی میرے لئے بھر لایا ،اس کے باپ نے جو
اسے کہا تھا۔ میاں، بیوی دونوں کے چہروں پر نہ اداسی تھی، نہ پریشانی ، نہ
شکایت۔ ایک قناعت بھری متانت دے کر نصیب نے ان سے سب کچھ چھینا ہوا تھا۔
حال احو ال پوچھنے پر وہ بار بار خدا کا شکر ادا کرنے والے الفاظ ادا کر
رہے تھے۔گھر سے باہر عید اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ محوِ تماشا تھی،
لیکن اس عید کو اس گھر میں آنے سے یا تو ڈر لگ رہا تھا یا وہ اس گھر میں
آنا نہیں چاہتی تھی یا اسے اس گھر کی خبر ہی نہیں تھی۔لیکن عید کو کون
بتائے کہ کوئی کس حالت میں ہے، عید تو خوشی کا نام ہے ۔ وہ خوشی خوشی آتی
ہے اور خوشی خوشی چلی جاتی ہے۔ اسے کسی سے دکھ بانٹنے کی فرصت ہی نہیں
ملتی۔اس میں اس کا قصور بھی کوئی نہیں اس کی مصروفیات ہی ایسی اور اتنی
ہوتی ہیں۔اور یہ بھی کہ عید کو عید منانے کا پورا پورا حق بھی تو حاصل ہے،
اس نے کون سا ہر روز آنا ہوتا ہے۔چائے کی پیالی میں سوائے حرارت کے کوئی
اور ذائقہ محسوس نہ ہونے کا تھا۔ پتی ، چینی، دودھ سب کے سب لگتا تھا کہ اس
چائے میں ڈالے گئے ہیں لیکن حسبِ حال۔
ایک دن پرچون کی دکان پر وہ لڑکا خریداری کرتا پایا گیا تو اس کی شاہ خرچی
پر پھر حیرت گم ہو گئی۔ دس روپے کی چینی،بیس روپے کے چاول، دس روپے کی دال
چنا وغیرہ پر میں انگشت بدنداں نہ ہوتا تو اور کیا کرتا۔ وہ اتنی تھوڑی
مقدار میں چیزوں کا کیا کریں گے اور کب تک گزارہ چلے گا۔لیکن اس کے پاس رقم
تھی ہی اتنی۔ وہ بھکاری پن پسند ہی نہ کرتا تھا۔ تھوڑی پر اکتفا ہی شاید ان
کو لے بیٹھا تھا۔
اسے میرے پاس آئے کافی دن گزر گئے تھے۔ میں اپنے دل میں سوچتا رہا کہ میرے
الفاظ نے شاید اس کا رستہ بلاک کر دیا ہے۔ پہلے وہ بلا تردد آ جاتا تھا۔
میں اسے بغیر کچھ کہے کچھ دے دیتا ۔ اور شاید یہی طریقہ بہتر تھا، لیکن میں
نے اسے آنے سے منع بھی تو نہیں کیا تھا۔ صرف اتنا کہا تھا کہ اتنی جلدی میں
ایک ہزار کے قریب رقم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ۔اس نے کہا تھا کہ جتنے
آسانی سے دے سکتے ہو دے دیں۔ بات کرنے میں لہجے کی تلخی اور ناراضگی بھی
شامل نہ تھی۔ لیکن کہنے والے کو کیا پتہ کہ سننے والے پہ کیا بیت رہی ہے
اگر یہ احساس ہو جائے تو بے شمار جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں جو کہ زبان کی بے
رحمی اور عدم احساس سے ہوتے ہیں۔
اس کے نہ آنے کا مجھے افسوس بھی ہونے لگا اور پریشانی بھی کہ کہیں اس نے
میرے ان الفاظ کا زیادہ ہی برا نہ منا لیا ہو۔مجھے لگتا تو یہی تھالیکن اس
بات کی تصدیق یا ازالہ کیسے کیا جاتا ؟وہ کہیں ملتا ہی نہیں ۔ کہیں نظر ہی
آ جائے تو بندہ اس سے پوچھ لے کہ بھئی کیا مسئلہ ہے۔ کبھی آئے نہیں، کوئی
ناراضگی ہے، کہ تمام ضرورتیں ہی دم توڑ گئی ہیں؟ یہ میرے ذہن کے اپنے آپ ہی
سے سوال و جواب تھے۔
میں آخر ایک شام اس کے دروازے کے باہر کھڑا تھا ۔ اس کا دروازہ اندر سے لگا
ہوا تھا۔ میں نے دستک دی ۔۔تھوڑی دیر بعد اس نے دروازہ کھولا ۔ اس کا چہرہ
پہلے سے بھی زیادہ مرجھا چکا تھا۔ مجھے اس نے ادب سے اندر آنے کی دعوت دی
جو میں نے قبول کرنے میں تاخیر نہ کی۔اس کے ماں ، باپ کی چارپائیاں خالی
تھیں ۔ میں سمجھا کہ شاید صحت یاب ہو گئے ہوں گے ۔ کسی طرف ، کسی کام گئے
ہوں گے۔ لیکن ان کے متعلق پوچھنا میرا پہلا سوال تھا ’ ماں ، باپ کہاں
گئے؟‘ اس کی آنکھوں میں پانی ابھرنے لگا ۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مایوس
مسکراہٹ پھیلی اور بھرائی ہوئی آواز میں اس نے بتایا کہ وہ خدا کے پاس جا
چکے ہیں۔ میرے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ ’ لیکن کب؟ آپ نے بتایا ہی نہیں،
مساجد میں اعلان نہیں کروایا تھا؟‘ میں اسے یوں پوچھنے لگا جیسے میرا ان سے
کوئی قریبی تعلق ہو ۔ لیکن اس کی خاموشی میں مجھے خود ہی محسوس ہو گیا کہ
میں نے کرنا بھی کیا تھا۔وہ بولا ’ چاچو، وہ ایک ہی رات دونوں فوت ہو گئے
تھے۔ جس رات زلزلہ آیا تھا ناں،شدید بارش بھی ہوئی تھی۔وہ سارا کچھ ہمسایوں
نے کر دیا تھا۔ میں آپ کو بتانے گیا تھا ، لیکن آپ گھر پے نہیں تھے۔ اعلان
کروایا تھا ، بس ایک بار ہمارے زیادہ تعلقات نہیں ہیں ناں اس لئے زیادہ
لوگوں کو بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ‘ میں اس کی باتیں سننے کے ساتھ
ساتھ اس کی آواز کے لب و لہجے پر بھی غور کر رہا تھا کہ وہ کس تنہائی میں
گرفتار ہو چکا ہے اور اب اس کی زندگی پہلے سے بھی کتنی زیادہ ادھوری اور
پریشان ہو چکی ہے۔ میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، اس نے بھی اٹھا دیئے۔
کچھ دیر بعد میں اس سے ہمدردی کے الفاظ کہتا ہوا اٹھا اور اس کے کمرے کی
تاریکی پر ایک نظر ڈالی۔ وہ پہلی تاریکی سے بھی بھیانک ہو چکی تھی۔ پہلے تو
وہ اپنے ماں ، باپ کی آواز سننے کے ساتھ ساتھ، ان کے چہروں کو بھی دیکھ
لیتا تھا، لیکن اب اس کے پاس سوائے یادوں کی تنہائی کے اور کچھ بھی نہیں
بچا تھا۔ میں اسے تسلی بی کیا دیتا ۔ پھر بھی میں نے جیب سے چند سو کے نوٹ
نکال کر اس کی دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں تھما دیئے۔ ’ رہنے دیں چاچو، جب
ضرورت ہوئی میں آ کے لے جاؤں گا۔‘ ہاں کیوں نہیں ، جب چاہے آ جانا ۔ میں
اصل میں یہی کہنے آیا تھا کہ جب ضرورت ہو میرے پاس آ جانا ۔میں نے ہمدردی
کی دھیمی آواز میں کہا ۔ لیکن میں دلی طور پر اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے
پاس اس کے سوالوں کے جوابات پہلے بھی نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں۔
میں اس کی کالی صورت میں آنکھوں میں چاندی جیسی سفیدی میں دیکھے جا رہا
تھا۔ اس کے وجود میں اس کے بھوت کا بسیرا ہو چکا تھا۔ وہ بھی آنے والے کچھ
دنوں میں بھوتوں کی دنیا میں جانے کی تیاری میں مصروف ہوا چاہتا تھا۔ میں
اس کو ایسا کرنے سے کیسے روک سکتا تھا۔ میں تو بس ہفتے میں دو، چار سو کا
متحمل ہو سکتا تھا جبکہ اسے کئی ہزار کی یک مشت ضرورت تھی۔ضرورت ایک کالی
موت کی طرح اس کا پیچھا کر رہی تھی اور وہ اسے خوش آمدید کہنے کے لئے تیار
تھا۔
میں اپنے گھر آ کر بھی اسی کے گھر میں تھا۔ اس کی صورت جیسے میرے تصور کا
حصار بن چکی تھی جو مجھے کسی طرف کھسک جانے کی اجازت دینے کا ارادہ نہیں
رکھتی تھی۔ میں بھاگنے کے کئی بہانے تلاش کرتا لیکن سب ناکام۔ وہ مجھے پکڑ
کر اپنے قبر نما کمرے میں لے جاتا ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے خواب بھی اس
کی بھوتی نظر کا شکا ر نہ ہو جائیں۔ مجھے اس سے ہمدردی میں تلخی بھی ہونے
لگی کہ کسی کی ہمدردی کا اتنا بھی استحصال نہیں ہونا چاہیئے۔ آخر اس کی بد
حالی کا باعث میں تو نہیں تھا ۔ لیکن میرے اندر سے بغاوت کی بھنبھناہٹ
سنائی دیتی جو سرسراہٹ سے آہستہ آہستہ طوفانی ہواؤں کی شکل اختیار کرتی جا
رہی تھی۔ میں آخر اس کے پاس گیا ہی کیوں؟ اگر میں اس کا کوئی مسئلہ حل نہیں
کر سکتا تو جھوٹی تسلی ہی کیوں دی یہ بھی تو کتنا بڑا جرم ہے۔ اس کو اپنی
اذیت کا ادراک نہ ہونے دینا بھی تو کسی قسم کی منافقت کے زمرے میں آتا
ہے۔لیکن میں اور کیا کرتا ۔ میں دراصل دو لوگوں کا نقصان کر آیا تھا: ایک
اس کا اور دوسرا اپنا۔ اس کو جھوٹی تسلی اور اپنا سکون برباد۔
کچھ دن بعد پھر مسجد سے اعلان ہوا اور اعلان کرنے والے کی وضاحت نے مرنے
والے کے متعلق جو کچھ بتایا وہ اسی لڑکے پر صادق آتا تھا۔ مجھے دھچکا لگا
کہ جیسے دنیا ختم ہو گئی ، نہیں انسان ختم ہو گیا ، نہیں وہ گھر ختم ہو گیا
۔ کون سا گھر؟ وہی گھر جہاں کالی موت کا پہرہ تھا۔میں اپنے حواس پر اختیار
کھو بیٹھا ۔ کسی کام میں دلچسپی نہ رہی۔اس کی صورت میرے تصور پر قابض ہو
چکی تھی۔ میں بے خودی میں اس کے گھر کو چل پڑا۔ وہاں کچھ لوگ جمع تھے۔ اس
کی چار پائی کمرے کے درمیان میں رکھی گئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک میلی سی
سفید چادر ڈالی گئی تھی۔ چہرے سے چادر ہٹانے کی کوشش کی ، اس کا چہرہ گہری
نیند میں محو نوجوان کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کی سفیدی اب
آنکھوں کے پپوٹوں تلے آ کر گہری تاریکی میں ڈوب چکی تھی۔ اب اس کے چہرے پر
سفیدی کا کوئی نشان نہ رہا تھا۔ اس کا چہرہ اس حالت میں بھی تبسم سے محروم
نہ تھا۔ مجھے غصہ بھی آرہا تھا کہ ظالم اب بھی مسکرا رہا ہے۔ جبکہ کالی موت
نے اس کا سب کچھ، بلکہ اسے بھی لوٹ لیا ہے۔لیکن کسی رخصت ہونے والے کو کیا
مسکرانے کا بھی حق حاصل نہیں۔ اندر سے تو رونا مقدر ہے ہی لیکن باہر سے تو
کچھ پردہ داری کی اجازت رہنی چاہیئے۔سو اسے بھی تھی۔
یہ مسکراہٹ اس بات کی تھی کہ اسے مرنے کا خوف نہیں رہا تھا۔ جو کام کئی بار
کر کے دیکھا ہو اس کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اسے قبر میں اترنے کا بھی ڈر نہ
تھا ۔ یہ ڈر تو اسے ہو جو کبھی قبر میں اترا ہی نہ ہو ، جو رہتا ہی قبر میں
ہو اسے اپنے گھر میں اترنے کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔ اپنے جیسے گھروں سے
انسان جلد مانوس ہو جاتا ہے۔اس لئے اسے قبر کا خوف بھی دامن گیر نہ ہوا
تھا۔جب کوئی خوف نہ ہو اور زندگی کےاس تنگ سے پنجرے سے آفاقی پنچھی کو
رہائی مل جائے تو چہرے پر تبسم آ ہی جاتا ہے۔چاہے کالی موت پاس ہی کھڑی ہو
! |
|