سرگوشیاں- قسط 01

یه افسانہ 10سے 15 اقساط پر مهیط هے امید هے کہ آپ اسے پسند کریں گے. یہ افسانہ آپ کو ضرور جهنجهوڑے گا.
شفیق صاحب کو مرے تو کوئی بیس برس بیت چکے ہیں یعنی بڑی بی کو بیوہ هوئے بیس برس ہو گئے ہیں مگر انکی حیثیت گهر کے سربراہ کی سی ہے. انکی ایک بیٹی ہے فاطمہ، جس کا ایک بیٹا ہے ماہد معاف کیجے گا میجر ماہد. بڑی بی کا ایک بیٹا ہے جسکے ساته بڑی بی رہتی ہیں ذولفقار جسکی ماشااللہ دو بیٹیاں ہیں بڑی بیٹی انا اور چهوٹی بیٹی رجا.

فاطمہ کو ناجانے کیا ہوا کہ کراچی آنے کا فیصلہ کر لیا. انہوں نے اپنے بیٹے کو عمر بهر اذولفقار سے چهپا کر رکها. ان کا خیال تها کہ کہیں مروت میں اپنا ہونہار بیٹا انہیں بهائی جان کا داماد نہ بنانا پڑ جائے. اور پهر آج خود ہی اپنی بهابی جان کو فون کر کے کہا کہ ہم کراچی آرہے ہیں.

رافعہ کے تو پیروں تلے زمین کهسک گئی. گهر میں تیاریاں شروع ہو گئیں گویا گهر میں کوئی انسپکشن ٹیم آرہی ہو.

رجا تو سدا کی سست تهی assignment کا بہانہ کر کہ اس نے تو کمرہ بند کر لیا مگر ماں کے ساته ہاته تو بے چاری انا کو بٹانا پڑا'' ارے یہ ماں بیٹیاں کیڑیاں هیں. ہاے میرے الله دو کیڑیاں میرے ہی گهر پیدا کرنی تهیں''

کبهی کہتی''ارے بہو! دیہان کرنا. کہیں گر گرا مت جانا. ویسے بهی آخری بار کام تو تم نے اپنے میکے میں کیا تها''.

انا جوابا منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تهی ''ایک تو کام کرو اوپر سے باتیں بهی سنو.''

اب فاطمہ کو کئ سال بعد اپنے بهائ کا خیال آیا تها. دراصل بات یہ تهی کہ جس کا ڈر تها وہی ہوا. انا کی تصویر ناجانے کیسے ماہد تک پہنچی اور وہ انا کا دیوانہ ہو گیا.

اور شرط رکه دی کہ شادی کرے گا تو محض انا سے ورنہ کسی سے نہیں. جوانی میں اکثر لڑکے یہی ہتهکهنڈا اپناتے ہیں اور مائیں تو سدا سے یونہی بهولی ہیں وه اس چکمے میں آ جاتی ہیں.
خیر ماں کی محبت اسے بهائ کے گهر لے آئ تهی.
(جاری ہے).
 
abdul wadood.
About the Author: abdul wadood. Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.