حنظلہ: ایک خوب صورت نوجوان، حس
وزیبائی کا گل رعنا اور عشق و ایمان کا ایک دہکتا ہو لالہ اپنے قبیلے میں
ہر شخص کا محبوب نظر تھا۔ بار حیا سے پلکیں جھکی رہتی تھیں، شوق شہادت میں
آنکھوں سے کوثر کی شراب ٹپکتی۔ عالم تنہائی میں بھی بے داغ جوانی کے انگ
انگ سے کردار کا تقدس جھلکتا تھا۔
ایک حنظلہ اپنے قبیلے کے جمالستان میں ہزاروں آرزوؤں کی امید گاہ بن گئے
تھے۔ انہیں خود خبر نہیں تھی کہ تصورات کی کتنی انجمنوں میں ان کی یادوں کے
چراغ جل رہے ہیں ان کی پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
گزری اور ہر وقت ان پر جان نثار کرنے کو تیار رہتے، اسی رنگ و نور کے
پاکیزہ ماحول میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے دن گزرتے گئے۔ عمر کا کارواں
آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ جب ان کے حسن وشباب کا وقت قریب پہنچ گیا۔ تو
ماں نے ایک دن اس آرزو کا بیٹے سے اظہار کیا،"میرے بیٹے!تمہاری شادی کے لئے
قبیلے کے ممتاز گھرانوں سے بہت سے پیغامات آرہے ہیں۔ اجازت دو تو مناسب
پیغام قبول کر لوں " بیٹے نے ماں کے قدموں کا بوسہ لیتے ہوئے جواب دیا میری
زندگی کو اسیر شوق بنانے کے لئے وہی زنجیر کافی ہے جس کا نام اسلام ہے۔ ابد
کا کوئی گوشہ التفات غیر کے لئے خالی نہیں ہے، چراغ قدس کے پرونے کو اس
شبستان میں رہنے دو ماں!جہاں دونوں جہان کی فراغت نصیب ہے۔"بے نیام تلواروں
اور لالہ کی طرح سرخ میدانوں سے زندگی کی رفاقت کا عہد کرنے والوں کو اب
اور کسی پیمان وفا کی طرف مت لے جاؤ۔
شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منادی کب آواز دے دے کسی کو کیا
معلوم؟ ایک کفن بردوش کو ہر وقت گوش بر آواز رہنا چاہئے۔" ماں نے چہرے کی
بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ لیکن بیٹا !رشتہ ازدواج بھی تو اسی شہنشاہ کونین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ جس کے حکم پر گوش پر آواز رہنے کے لئے تم
زندگی کی فراغت چاہتے ہو۔
ماں نے سمجھاتے ہوئے فرمایا اپنی زندگی کی فصل بہار پر میرے مقدم ارمانوں
کا کچھ بھی حق تسلیم ہو تو اجازت دو کہ میں تمہاری پیشانی پر مسرت و شادابی
کا ایک مہکتا ہو چمن آباد کروں۔ بیٹے نے بڑے ہی ادب کے انداز میں سرجھکاتے
ہوئے جواب دیا۔ اب میرے اندر مزید انکار کی جرات نہیں ہے۔ ماں میں آپ کی
خواہش کے احترام میں سر تسلیم کرتا ہوں۔ آپ کی آنکھیں جس طرح بھی ٹھنڈی ہو
سکیں میری طرف سے اجازت ہے۔ چناچہ چند ہی دنوں بعد قبیلہ کے ایک معزز
گھرانے کا رشتہ منظور کر لیا گیا۔
حضرت حنظلہ (رض) جیسے خوبصورت نوجوان کو پانے کے لئے جہاں بہت سے ارمانوں
کا خون ہوا وہاں ایک آرزو پروان چڑھی قبیلے کی سب سے حسین اور جمیل دوشیزہ
حضرت حنظلہ (رض) کے لئے منتخب کر لی گئی۔ بالآخر ایک دن بڑی سادگی سے نکاح
ہوا اور دونوں کی شادی ہو گئی۔
آج شادی کی پہلی رات تھی دو دھڑکتے ہوئے دل ہنگامہ شوق کے ایک نئے عالم میں
داخل ہو رہے تھے۔ زندگی میں پہلی بار ایک پارسا نوجوان کی نگاہ حسن و
زیبائی کی نکھری ہوئی چاندنی میں خیرہ ہو کے رہ گئی تھی ہر طرف ارمانوں کے
ہجوم کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ دوعفت ماب روحوں کی ملاقات کا عالم کیا تھا۔ کون
بتائے؟
البتہ تاریخ کے حوالے سے اتنا ضرور سراغ مل سکا کہ رات ڈھل جانے کے بعد پس
دیوار اچانک کسی منادی کی آواز فضا میں گونجی۔ اور حنظلہ چونک اٹھے۔ نشاط و
طب کے شوق انگیز لمحوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ چہرے پر ایک گہرے تجسس کا نشان
ابھرا اور شدت اضطراب کے عالم میں میں کھڑے ہو گئے دیوار سے کان لگا کر
اعلان کے الفاظ کو دوبارہ غور سے سنا۔
دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منادی آواز دے رہا تھا۔ کفر کی
یلغار اسلام کی فصیل کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے۔ ناموس حق کے پرونے بغیر کسی
لمحہ انتظار کے رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرکار میں حاضر ہو جائیں
مجاہدین اسلام کا صف شکن قافلہ تیار کھڑا ہے صبح سحر سے پہلے پہلے میدان
جنگ کی طرف روانہ ہو جائے گا۔
اعلان کے الفاظ سینے میں ترزو ہوگئے۔ اب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ
میں نہیں تھے۔ فرض نے ان کو مشکلات کے گھنے اندھیرے میں پکارا تھا۔ بیخودی
کی حالت میں ایک بار اپنی نئی نویلی دلہن کی طرف دیکھا۔ حسرت ناک قرب کے
ساتھ بڑی مشکل سے یہ الفاظ منہ سے ادا کر سکے۔
جان آرزو میدان جنگ سے اسلام نے آواز دی ہے۔ اجازت دو کہ مجاہدین کی قطار
میں بڑھ کر شامل ہو جاؤں۔ جو رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرکار میں
کھڑی ہے۔ زندگی نے اگر وفا کی اور معرکہ کار زار سے بخیر و سلامت واپس لوٹ
آیا تو پھر تمہاری زلفوں کی مہکتی ہوئی رات کا خیر مقدم کروں گا اور اگر
خوش بختی سے میری زندگی کام آگئی اور میرے جگر کا خون اسلام کی بنیاد میں
جذب ہوگیا تو پھر قیامت کے دن شہیدان وفا کی صفوں میں تمہیں کہی نہ کہی
ضرور ملوں گا۔ اچھا اب اجازت دو وقت بہت نازک ہے۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے جیسے ہی قدم باہر نکالنا چاہتے تھے کہ بیوی نے دامن تھام لیا۔
اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بمشکل تمام چند یہ جملے ادا کر سکی۔۔۔۔۔
میخانہ کوثر کی طرف بڑھتے ہوئے کو کون روک سکتا ہے۔ زحمت نا ہو تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم ناز کی امان میں مجھے بھی لیتے چلو۔
کنیزان بارگاہ کی آخری صف میں بھی جگہ مل گئی تو میں اپنی خوش نصیبی پر تا
ابداں رہوں گی۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے دو لفظوں میں جواب دیا۔ تمہاری کیا یہ قربانی
کم ہے کہ تم نے اپنے عیش و آرام اور اپنی زندگی کے دلفریب لمحوں کو اسلام
کے نام پر قربان کر دیا۔۔۔
یقین رکھو! گلشن جاوید کی طرف میں تنہا نہیں جا رہا۔ تمہارے ارمانوں کا
کارواں بھی میرے ہمراہ ہے۔ اچھا اب اجازت دو۔ اللہ عزوجل تمہارے صبر و شکیب
کی عمر دراز کرے۔۔۔
یہ کہتے ہوئے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ گھر سے باہر نکل پڑے۔ جب تک نظر آتے
رہے عقیدت بھری نگاہ اُٹھتے قدموں کو بوسہ دیتی رہی۔ ۔۔
رات کے پچھلے پہر جانثاروں کا لشکر دعاؤں کے ہجوم میں اپنی منزل کی طرف
روانہ ہوگیا۔ جان رسالت تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناقہ پر
سوار آگے آگے چل رہے تھے۔ پیچھے پیچھے پروانوں کی قطار چل رہی تھی۔ سرکار
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ زیبا کی تنویر سے مجاہدین کے سینوں میں
فاتحانہ شوکتوں کا چراغ جل اٹھا تھا۔۔۔
میدان جنگ میں پہنچ کر سرفروشان اسلام کی صفیں آراستہ ہو گئیں۔ کفار کے
لشکر نے بھی اپنا مورچہ سنبھال لیا۔۔۔ دوسرے دن صبح کے وقت طبل جنگ بجتے ہی
گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی ۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے دیکھا
کہ وہ بچھڑے ہوئے شیر کی طرح دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان کی تلوار
بجلی کا شرارہ معلوم ہو رہی تھی۔ ان کے بے دریغ حملوں سے لشکر باطل میں ہر
طرف ایک شور قیامت برپا تھا۔۔
علام جاوید سے اب چند ہی قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔۔۔اور زہر میں بجھا ہوا
ایک تیر ان کے جگر میں آکر پیوست ہو گیا۔ لہو کے اڑتے ہوئے فوارے سے سارا
پیراہن رنگین ہو کے رہ گیا۔ جب تک رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی رہ
گیا تھا۔ کلمہ حق کی سربلندی کے لئے فولاد کی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ جب
رگوں کی آگ بجھ گئی تو گھائل ہو کر زمین پر گر پڑے۔ اور چند ہی لمحے بعد
روح عالم بالا کو پرواز کر گئی۔۔۔
دوپہر ڈھلتے ڈھلتے کفار میدان چھوڑ کر بھا گئے۔ مسلمانوں کو کھلی فتح نصیب
ہوئی۔
جنگ ختم ہونے کے بعد جب زخمیوں کو اکٹھا کیا گیا اور شیہدوں کی لاشیں اکٹھی
کی گئیں تو حضرت حنظلہ کی لاش کی تلاش شروع ہوگئی۔ ان کی گمشدگی پر سارے
لشکر کو حیرت تھی جب وہ کہیں نہیں ملے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت میں اطلاع پہنچائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند لمحے توقف
فرمانے کے بعد آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے ارشاد
فرمایا۔۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو عالم بالا میں فرشتے اٹھاکر لے گئے ہیں
وہاں ان کو غسل دیا جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ
کی لاش سامنے موجود تھی۔ بال بھیگے ہوئے تھے اور خون آلودہ پیراہن سے پانی
کا قطرہ ٹپک رہا تھا۔
مدینہ پہنچ کر جب گھر والوں سے ان کے حالات دریافت کئے گئے تو معلوم ہو کہ
رات کو گھر سے چلتے وقت ان پر غسل فرض ہو چکا تھا۔ اضطراب شوق نے ان کو فرض
اتارنے کی بھی مہلت نہ دی۔ غسل جنابت کا وہ فرض عالم بالا میں فرشتوں کے
ذریعے اتارا گیا۔
اسی دن سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا کقب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
سے ''غسیل الملائکہ'' قرار پایا۔
جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خرید کر انمول کر دیا |