پاکستان میں ٹی وی میڈیا سے وابستہ کچھ صحافیوں کی عمر وقت کے آگے نہیں بڑھ
سکی جیسے رک سی گئی ہے یوں کہیں کہ ابھی ان کی عمر سکول و کالج کی عمر کے
نوجوان کے جیسی ہے اس عمر میں جوش و جذبہ کی کمی نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ
کر یہ کہ اس عمر میں خواہشات زیادہ اور تواقعات تو اس سے بھی بڑھ کر دل میں
موجزن ہوتی ہیں۔ جوانی کے قصے جب بڑی عمر کے لوگ سناتے ہیں ساتھ میں ہنس
بھی رہے ہوتے ہیں کہ اس وقت وہ کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔ قانون و قاعدے اصول
و ضوابط اور مقصدیت کے بغیر نوجوان بہت کچھ اس عمر میں کرتے ہیں۔ ناز نخرے،
عجت تمام، ضد باضد ،فرمائیش ، تقاضا ، مطالبہ، شوق ، چاہت ، ہزاروں
خواہیشیں۔ وغیرہ وغیرہ ،یہ رویہ اور انداز ہوتا ہے کچی عمر میں۔
پاکستان کے ایک مشہور صحافی کی بھی عمر شاہد رک سی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل
غور ہے کہ عمر دراصل ماہ سال کے گرزنے کا نام نہیں بلکہ دماغی طور پر پختگی
کوعمر میں بالغ عمر کہا جاتا اور ذہینی طور پر بھی وہ پختہ ہو تو مکمل
طورپر اس کو بالغ عمر یا پختہ عمر ذہین ،سمجھ دار کہا جاتا ہے۔ بقول شیخ
سعدی ۔بزرگی بہ عقل است- نہ بہ سال (بڑائی کا تعلق عقل سے ہوتا ہے نہ کہ
عمر سے)موصوف نے اپنے ویب پیچ پر ایک نیوز اپ لوڈ کی جس میں وہ پاکستان کے
چیف ایگزیکٹو اور آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے خبر دے
رہے ۔وہی بات کہ خواہشات ، تواقعات ، تقاضے ، فرمائیش یا شاہد مراعات کی
بات زیادہ کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ایسے غیر ملکی دوروں پر یا کسی
بھی ایونٹ پر صحافی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ صرف اور صرف نیوز یا اہم
نیوز سٹوری۔
موصوف کی بھی نیوز اسٹوری اس دورہ کے حوالے آئی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے
کہ کہ ہم نے نفسیاتی اور سماجی سطح پر جتنا والہانہ پن سعودی عرب میں دیکھا
اتنا ہمیں ایران میں نظر نہیں آیا‘ سعودی عرب نے پاکستانی قیادت کے اعزاز
میں شاہی عصرانے کا اہتمام کیا اور اس میں ملک کے تمام اہم لوگوں کو مدعو
کیا تھا‘ سعودی افواج کے سربراہ بھی لنچ پر موجود تھے‘ وفد کے تمام ارکان
کو محل میں بھی لے جایا گیا‘ ہم لوگ شاہ کے قریب تک پہنچ گئے‘ میں نے ان کے
سامنے کھڑے ہو کر ”سیلفیز“ بنائیں اور کسی نے مجھے منع نہیں کیا‘ ہم لوگ
میٹنگ کے دوران محل کے مختلف کونوں میں بیٹھے رہے اور محل کا عملہ ہماری
خدمت کرتا رہا‘ سعودی حکومت نے ہمیں شاہی ہوٹل میں بھی ٹھہرایا جبکہ اس کے
مقابلے میں ایران کا رویہ سخت تھا‘ اب ان سے کوئی پوچھے کہ حضرت آپ وہاں
اپنی خدمت کرانے گئے تھے۔ یا یہ کہ آپ سیلفیز“ بنانے گئے تھے یا یہ کہ آپ
کا بڑا مقصد محل میں گھومنا تھا۔ موصوف لکھتے ہیں کہ ہم لوگوں نے سعودی عرب
کو زیادہ مہمان نواز‘ حلیم اور گرم جوش پایا جبکہ اس کے مقابلے میں
ایرانیوں کا رویہ سخت‘ سرد اور غیر سفارتی تھا‘ ایران کے سیکورٹی اہلکاروں
نے بھی ہمیں دوست کی طرح ”ٹریٹ“ نہیں کیا۔ اب ان کے الفاظ کا انتخاب دیکھیں
کہ ”ٹریٹ“ نہیں کیا گیا واہ کیا بات ہے جناب صحافی صاحب! آپ ہماری حکومت
اور قوم کے باکل برعکس جارہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور پاکستانی پوری قوم دونوں اسلامی ممالک کے درمیان صلح
کی خواہیش مند ہے اور ممالک کے درمیان جوکہ ہمارے لیے دونوں مقدم ہیں کے
بارے زاتی رائے کی آڑ میں قوم کوکیا پیغام دے رہے ہیں کہ ایک ملک کا رویہ
سفارتی ہے اور دوسرے کا غیر سفارتی۔
موصوف مشہور صحافی کی پوسٹ کی گ ¾ی اصل نیوز بھی پڑھیں۔
اسلام آباد(نیو زڈیسک)سینئر صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے اپنے
دورہ ایران سے متعلق لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے نفسیاتی اور سماجی سطح پر
جتنا والہانہ پن سعودی عرب میں دیکھا اتنا ہمیں ایران میں نظر نہیں آیا‘
سعودی عرب نے پاکستانی قیادت کے اعزاز میں شاہی عصرانے کا اہتمام کیا اور
اس میں ملک کے تمام اہم لوگوں کو مدعو کیا تھا‘ سعودی افواج کے سربراہ بھی
لنچ پر موجود تھے‘ وفد کے تمام ارکان کو محل میں بھی لے جایا گیا‘ ہم لوگ
شاہ کے قریب تک پہنچ گئے‘ میں نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ”سیلفیز“ بنائیں
اور کسی نے مجھے منع نہیں کیا‘ ہم لوگ میٹنگ کے دوران محل کے مختلف کونوں
میں بیٹھے رہے اور محل کا عملہ ہماری خدمت کرتا رہا‘ سعودی حکومت نے ہمیں
شاہی ہوٹل میں بھی ٹھہرایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کا رویہ سخت تھا‘
ائیرپورٹ پر پروٹوکول کی گاڑیاں بھی کم تھیں‘ ہمیں ملاقات سے پہلے شہر میں
ایک ایسے ہوٹل میں لے جایا گیا جس کا پورچ بہت چھوٹا تھا چنانچہ وزیراعظم
کے سوا وفد کے تمام ارکان سڑک پر گاڑیوں سے اترے اور پیدل چل کر لابی تک
پہنچے‘ ان میں آرمی چیف بھی شامل تھے‘ ایرانی حکومت اگر چاہتی تو اس سے
بہتر انتظام کر سکتی تھی‘ یہ وفد کو سٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی لے جا سکتی تھی‘
سٹیٹ گیسٹ ہاؤس صدارتی محل کے قریب بھی تھا اور یہ وفد کےلئے باعث عزت بھی
ہوتا‘ پاکستانی وفد نے آدھ گھنٹہ نائب صدراسحاق جہانگیری سے ملاقات کی اور
ایک گھنٹہ صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات ہوئی‘ ملاقات کی صرف چھ لوگوں کو
اجازت دی گئی‘ باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہا‘ اس دوران
ایران کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار دنیا ٹی وی کے اینکر پرسن وجاہت سعید خان
کا کیمرہ بھی چھین کر لے گئے‘ یہ کیمرہ بعد ازاں طارق فاطمی اور ایرانی
وزیر خارجہ کی باہمی کوشش سے واپس ملا لیکن اس سے میموری کارڈ غائب تھا‘ یہ
سلوک دنیا کے کسی ملک میں صدر یا وزیراعظم کے وفد میں شامل سینئر صحافیوں
کے ساتھ نہیں ہوتا‘ ہم کیونکہ چند گھنٹوں کے وقفے سے ریاض سے تہران پہنچے
تھے چنانچہ ہمیں اس رویئے سے زیادہ تکلیف ہوئی‘ ہم لوگوں نے سعودی عرب کو
زیادہ مہمان نواز‘ حلیم اور گرم جوش پایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایرانیوں
کا رویہ سخت‘ سرد اور غیر سفارتی تھا‘ ایران کے سیکورٹی اہلکاروں نے بھی
ہمیں دوست کی طرح ”ٹریٹ“ نہیں کیا۔ |