آئی ایس

داعش کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں آئے روز بیانات اور انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔خاص طور پر پنجاب کے وزیر قانون ثنا اﷲ کے بیان کے بعد صورتحال مزید سنجیدگی کا متقاضی ہے کہ اچانک پاکستان اور داعش کے کنکشن کو اتنی ہوا کیوں دی جارہی ہے۔بلا شبہ پاکستان دنیا بھر سے انتہا پسندی تحریکوں کیلئے ایک زرخیز زمین کے طور پر مثالی رہا ہے شاید اس کی وجہ افغانستان میں خلفشار ہو یا پھر شمالی و مغربی سرحدوں کی عسکری نگرانی میں کمی ، لیکن افغان جنگ کے بعد جس طرح عسکریت کو ہوا دی گئی اس سے کوئی بھی نا بلد نہیں کہ مغرب کا اس میں انگلی ہی نہیں بلکہ پورا ہاتھ تھا۔طالبان کی افزائش کے بعد اب داعش کی پشت پناہی بھی پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ داعش کو مخصوص مقاصد کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے ، چونکہ افغانستان تربیت اور اسلام پسندی کے حوالے سے ایک ایسا ملک ہے جہاں جس مسلک کے بھی افراد ہوں پیدائشی جنگجو اور مسلح ہیں اس لئے داعش کی جانب سے امارات اسلامیہ ( افغان طالبان) کی جگہ لینے کیلئے دولت اسلامیہ (داعش) کا مہورت کیا گیا۔پہلے پاکستان کے افغان مہاجرین کے کیمپوں میں اسٹیکر و پمفلٹ تقسیم کئے گئے تو پھر پنجاب میں دیواروں پر اسٹیکر لگی تصاویر نے اس خیال کو واثق کرنے کی کوشش کی کہ داعش کے افراد پاکستان میں بھی داخل ہوچکے ہیں اور اب پاکستان میں داعش، بھرتی کرکے اپنے اراکین کی تعداد بڑھا رہی ہے۔داعش کے بارے اتنی تفصیلات سامنے آچکی ہے کہ با شعور ذہن کی برین واشنگ ممکن نہیں ، لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ویب سائٹ ویکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے ارجنٹائن کے اخبار"پا خینا" کو دئیے گئے انٹرویو میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ داعش کا ابھرنا مشرق وسطی کے بارے میں مغرب کی غیر معقول پالیسی کا نتیجہ ہے۔اسانج کے مطابق شامی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی اور عراق پر ایران کا اثر کم کئے جانے کی کوشش کوئی راز نہیں، سعودی عرب ، قطر اور ترکی خطے میں اپنا اثر بڑھا چکے ہیں اور امریکہ پر اپنا انحصار کم کرچکے ہیں ۔

داعش کے جنگجوؤں نے تاریخی شہروں نمرود اور الحضر کی یادگاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔قبل اسلام دور کے بنائے گئے مجسموں کو تباہ کردیا ۔لیکن یہاں ایک قابل ذکر بات جو سامنے آئی کہ یہ عمل صرف داعش نے نہیں کیا بلکہ رائٹر ایجنسی نے سابق امریکی سفارت کار پیٹر وان بیورین کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں عراق کی تاریخی یادگاروں کو لا تلافی نقصان پہنچانے کے دوسرے واقعات میں امریکی اور عراقی فوجیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مثال کے طور پراپریل2009؁ء میں وہ بغداد کے قریب ایک امریکی فوجی اڈے میں تھے جس کے پاس قدیم بستیوں کی کھنڈارت اور انسانی کھوپڑیاں برآمد ہوئی تھیں ، واب بیورین کے مطابق اکثر ایسا ہوتا تھا کہ امریکی فوجی جیپ موٹر کاروں میں سوار ہوکر تفریح کیلئے نکلتے تھے تو ان کھنڈرات کے قریب جایا کرتے تھے ، بعد میں امریکی فوجی مشقوں کے دوران ان کھنڈرات کو اپنی توپوں کے نشانے بنانے لگے تھے ، علاوہ ازیں 2003؁ء میں عراق میں امریکیوں کی مداخلت کے وقت امریکی فوجیوں نے عالمی شہرت یافتہ قدیم شہر بابل کے کھنڈرات پر ہیلی کاپٹر پلیٹ فارم بنا لیا تھا۔داعش کی حرکات میں امریکی چالبازیاں پوشیدہ ہیں افغانستان میں نائن الیون کے بعد جس طرح نہتے افغانیوں پر بمباری کی گئی اس نے ہیروشیما و ناگاساکی جیسے حملوں کو بھی شرما کر رکھ دیا۔افغانستان میں جارحیت کرنے والوں کے خلاف دفاع کی تاریخ کافی صدیوں سے ہے ۔ پاکستان کا وہ حصہ جو کبھی افغانستان کا حصہ ہوا کرتا تھا آج بھی اپنی روایات و ثقافت کی مماثلت کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

داعش کیلئے افغانستان میں راہ ہمواری کا مقصد واضح طور پر یہی ہے کہ طالبان کو داعش سے لرا کر کمزور کردیا جائے۔اور اب یہ صورتحال افغانستان میں واضح ہوچکی ہے۔ چونکہ پاکستان افغانستان کی ہر مہم میں کسی نہ کسی طور پر حصہ لیتا رہا ہے اس لئے جب ’ سیکرٹ انفارمیشن رپورٹ‘21اکتوبر کو ارسال کی گئی تھی منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس نے دعوی کیا ہے کہ وہ ہنگو اور کرم ایجنسی میں دس سے بارہ ہزار کی بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کو بھرتی کرچکی ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد سمیت چھ اہم کمانڈرز نے داعش کے ساتھ منسلک ہونے کا اعلان کیا تو اسی وقت سمجھ لینا چاہیے تھا کہ داعش کے کیا ارادے ہیں۔

کراچی اور خانیوال میں داعش کے حق میں وال چاکنگ بڑے واضح پیغامات تھے کہ داعش افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان پر مکمل توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ پاکستان میں جہاں تفرقے و مسالک کو فوقیت دی جاتی ہے۔اسلام کی حقیقی تعلیمات سے عام مسلمان کو مکمل آگاہی حاصل نہیں ، مدارس کی ایک بہت بڑی تعداد بھی بند کرائی جا چکی ہے جو حکومت کی نظر میں مشکوک تھے ،ان مدارس میں ایسی کیا کمی ، کامیاں یا سرگرمیاں تھیں جس کے سبب ایک بڑی تعداد مدارس کی بند کرانا پڑی اس کی مکمل تفصیلات سے عوام کو آگاہی حاصل نہیں ہے ۔ سرکاری تعلیمی ادارے ، وڈیروں و خوانین کی اوطاق بن چکے ہیں ، اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے طالب علم کو کیا بنا رہے ہیں اس کی ایک چھوٹی مثال صفورا گوٹھ سانحے کی صورت میں سامنے ٓاچکی ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں بھی شدت پسند عناصر کی چیکنگ کا کوئی بندوبست نہیں۔ نواحی علاقوں میں نت نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں اور معاشی طور پر مضبوط کہلائے جانے والے شہروں میں لینڈ مافیا ایسی جگہوں پر قبضہ کرلیتا ہے جہاں کوئی رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن سالوں سال اس جگہ پر سرکاری کرپٹ سرپرستی میں کام ہوتا رہتا ہے اور مقامی انتظامیہ نتائج سے بے پرواہ ہوکر صرف رشوت کے خاطر لینڈ مافیاؤں کی پلاننگ کو آشیر باددیتے نظر آتے ہیں۔ان غیر آباد جگہوں پر سرمایہ کاری کرکے جہاں اربوں روپے بنا لئے جاتے ہیں وہاں دوسری جانب ایسے عناصر کو محفوظ پناہ گاہ بھی مل جاتی ہے جس میں وہ بلا خوف و خطر اس لئے محفوظ رہ جاتے ہیں کیونکہ ایسی غیر قانونی آبادیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے ہی بنائی جاتی ہیں تو ان آبادیوں کے جلد از جلد آباد کرانے کیلئے اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ یہاں کون آباد ہو رہا ہے اور اربوں روپوں کی یہ سرمایہ کاری کس کے فنڈ میں جا رہی ہے۔

داعش کا وجود ایک حقیقت ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اس کا وجود اثر و نفوذ اس قدر بڑھ کیوں جا تا ہے ایسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔آنکھیں بند کرنے سے خطرات ختم نہیں ہوتے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان معاملات پر بھی نظر رکھیں جس کی مضر اثرات پوری قوم پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ داعش کے وجود سے انکار نہ کیا جائے کہ اس سے خوف پھیلے گا بلکہ یہ وہی عناصر ہیں جو کبھی سیاسی بن جاتے ہیں تو کبھی مذہبی ، کبھی پاکستانی طالبان تو کبھی افغان مجاہدین۔جب عمران خان جیسے تعلیم یافتہ باشعور انسان کے جدید ترین ہسپتال میں طالبان اپنا علاج معالجہ کرا کر جاتے رہے ہوں اور خان صاحب کی مستند انتظامیہ کو خبر اس وقت ہوجب انھیں شکریئے کا خط موصول ہو تو پھر ایسی آبادیاں جس کی بنیاد ہی غیر قانونی ہے اور جیسے کرپٹ عناصر کی سرپرستی حاصل ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کوئی ملک و قوم کا دشمن موجود نہ ہوگا ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.