مضایا۔ Madaya

شام کی تین سالہ خانہ جنگی میں45لاکھ آبادی کچھ ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے ان میں سے چار لاکھ افراد ایسے 15محصور علاقوں میں رہتے ہیں جہاں فوری ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت رہتی ہے ، مضایا ان میں سے ایک ایسا ہی قصبہ ہے جہاں سرکاری حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ، اس علاقے کا محاصرہ کئے ایک سال کا عرصہ گذار دیاہے اور وہاں کی آباد ی خوراک نہ ملنے کے سبب شدید غذائی قلت کا شکار ہوچکی ہے۔ خوراک کی کمیابی کو پورا کرنے کیلئے یہاں کی آبادی نے اپنے کتے ، بلیوں کے ساتھ ساتھ پالتو جانور اور گھاس پھونس پر گذارا کرنا پڑ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا تھا کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت نے دارلحکومت دمشق کے نواحی علاقے مضایا سمیت تین مقامات پر کئی ماہ سے محصور خاندانوں تک امدادی سامان پہنچانے کی اجازت دینے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔ شامی حکومت نے مضایا ، الفوعہ اور کفریا کے مقامات میں محصور شامی خاندانوں تک امدادی قافلوں کو رسائی دینے کی رضامندی ظاہر کی تھی۔ مضایا اور دوسرے شامی قصبات پر شامی فوج اور اس کی حامی اسد نواز ملیشیا حزب اﷲ نے ان علاقوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے، جس کے سبب امدادی سامان پہنچانے میں شدید رکاؤٹ ہے گذشتہ دنوں ریڈ کراس کی جانب سے مضایا کے تین قصبات میں امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ ریڈ کراس کے ترجمان کے مطابق امدادی سامان لیکر یہ قافلے لبنان کی سرحد کے قریب مضایا اور ترکی سرحد کے ساتھ واقع قصبوں الفوعہ اور کفریا میں داخل ہوئے۔مضایا سے ترجمان نے بتایا کہ’ یہاں پہلا تاثر بہت ہی دل شکن ہے آپ کو سڑکوں پر بہت سے لوگ نظر آتے ہیں بعض مسکرا کر ہاتھ ہلارہے ہیں لیکن بہت سے انتہائی کمزور حالت میں اور تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں‘۔

چالیس ہزار سے زائد افراد محاصروں کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہیں ۔ اسد نواز ملیشیا اور شامی حکومت کی جانب سے سال بھر ہونے کو آیا ہے کہ مضایا کی ناکہ بندیوں اور محاصرے کے نتیجے میں چالیس ہزار افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں انھیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر گذشتہ سال اکتوبر میں امداد پہنچائی گئی تھی ۔ لیکن اب یہاں کے لوگ ملنے والی امداد کو ناکافی سمجھتے ہیں ۔ اس لئے وہ لوگ سردی ، فاقوں اور تھکن کی وجہ سے ان محاصروں سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن کامیاب نہیں ہو رہے کیونکہ شامی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف گھیرا سخت تنگ کیا ہوا ہے۔شامی حکومت اور اس کے اتحادی اس بات سے قطعاََ انکاری ہیں کہ انھوں مضایا کے راستے بند کئے ہیں لیکن ’ فداح‘ اسے بالکل جھوٹ قرار دیتی ہے کہ یہ انتہائی غلیظ جنگی حربہ ہے۔’ فداح ‘ کے مطابق مضایا شام کا واحد قصبہ نہیں ہے بلکہ کئی علاقوں کی یہی صورتحال ہے جو شام میں گذشتہ دو سالوں سے اپنائی گئی ہے۔ ‘اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے مضایا میں لوگوں کے فاقوں سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت یہاں امدادی سامان پہنچانے میں تعاون کررہی ہے۔‘ لیکن اقوام متحدہ ادارے ان کی تصدیق کرتے نظر نہیں آتے ، اقوام متحدہ نے بتایا کہ انھوں نے مضایا میں موجود چالیس ہزار افراد کو امداد فراہم کی تاہم ادارے کے مطابق وہاں لوگ بھوک کیوجہ سے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور زندہ رہنے کیلئے پالتو جانور اور گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں۔کفرایہ اور فواہ میں بیس ہزار افراد کو بھی گذشتہ دن پیر کو امداد پہنچائی گئی جہاں حالات مضایا سے بھی زیادہ تشویش ناک ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس ( آئی سی آر سی کے ترجمان پاول کریز ائیک نے اقوام متحدہ ، شام کی ریڈ کراس اور اپنے ادارے کی جانب سے مضایا کو امدادی کھپ پہنچانے کی تصدیق کی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے المضایا میں محصور شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کیلئے ان کی ہنگامی امداد کی جائے انٹرنیشنل میڈیا نے وہاں کی عوام کی حالت زار پوری دنیا کو دکھائی کہ دمشق کے نواحی علاقے مضایا کی بڑی آبادی گھاس پوس ، پتے سمیت کتوں اور بلیوں کا گوشت کھا رہے ہیں ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک یاد داشت پر دستخطی مہم بھی شروع کی ہے جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے وہ مضایا کے متاثرین کی فوری امداد کو یقینی بنائے۔سماجی کارکنوں نے بھوک سے نڈھال ایک روتے بلکتے اور زندگی و موت سے لڑتے ایک کم سن بچے کی ویڈیو فوٹیج پوسٹ کی جس میں معصوم نہونہال کی دل دہلانے والی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، ایسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ روح کو چھلنی کرنے والے ایسی کئی ویڈیوز کے مناظر دیکھنے کے بعد زندگی سے ہی نفرت ہوجاتی ہے کہ انسان ہونا بھی کس قدر عظیم جرم بن گیا ہے۔

اجرتی قاتلوں کی جانب سے مقامی آبادیوں کو جھکانے کیلئے سخت قسم کی شرائط عائد کی گئی ہیں اسی وجہ سے مضایا اور اس کے قرب و جوار کی آبادی کو عالمی برادری کوئی امداد نہیں پہنچا سکی۔ایک لیٹر دودھ کی قیمت سو ڈالر سے زائد ہے ، ایک ویڈیو میں ایک ماں کے سات ماہ کے معصوم بچے کو دکھایا گیا جو مقامی شفا خانے گئی جب اس سے پوچھا گیا کہ آخری بار دودھ کب پلایا تو ماں نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے۔ماں نے بتایا کہ وہ دودھ کے بجائے بچے کو پانی اور نمک دیتی ہے جبکہ ڈائپرز کے بجائے پلاسٹک کی تھلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔طبی امداد کی بین الاقوامی تنظیم ’ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ‘ مضایا میں ہسپتال چلا رہی ہے اس کی ایگزیکٹو ڈائیریکٹر وکی باکنز کہتی ہیں کہ ’ لوگ حقیقتاََ موت کا شکار ہو رہے ہیں۔جس شفا خانے کا انتظام چلانے میں ہم مدد کر رہے ہیں وہاں اب تک بچوں سمیت 23اموات ہوچکی ہیں۔‘وکی باکنز کہتی ہیں کہ محاصرہ کئی ماہ سے بہت تنگ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے قصبے میں کسی چیز کی رسائی نہیں ، نہ یہاں ایندھن ہے نہ لوگوں کے پاس جلانے کیلئے لکڑیاں ہیں ، نہ خوراک ، نہ ادویا اور صورتحال تباہ کن ہوچکی ہے۔‘اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان اڈریان ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ یہاں امدادی قافلہ بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔جشن الفتح کے عسکریت پسند مضایا کے مسلمانوں کا محاصرہ ختم کروانے کیلئے اسد نواز ملیشیا پر راکٹوں سے حملے تو کر رہی ہے لیکن اس کا نشانہ بھی عام لوگ بن رہے ہیں۔ مضایا کا محاصرہ ختم کرانے کیلئے عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک تو ہے ہی بلکہ مسلم ممالک کی بے بسی بھی قابل مذمت ہے کہ اب انسان کی انسانیت اتنی گر چکی ہے کہ فرقہ واریت کی اس جنگ میں مضایا ہو کہ کفریا و فوعا ، صرف عام انسان اس لئے ظلم کا نشانہ بنتا ہے کیونکہ بشار الاسدکی حکومت کی حامی یا مخالفین ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ شام میں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے فرقہ واریت کے عفریت نے وہاں کے مسلمان کہلانے والے انسانوں سے انسانیت ختم کردی ہے ۔ فرقہ واریت کا یہ پہلو اس قدر ہیبت ناک ہے جس کا ذکر کرتے انگلیاں کانپ جاتی ہیں ، الفاظ ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اے مسلمان کہلانے والوں ، فرقہ واریت سے اسلام کو اس قدر تو بد نام نہ کرو کہ اسلام کا پیروکار کہلانے میں بھی شرم محسوس ہو۔ زمین کے ایک ٹکڑے کیلئے ، اپنی حکومت کی مضبوطی کیلئے کونسا اسلام نافذ کیا جارہا ہے ، مجھ جیسے نا سمجھ کو سمجھ نہیں آتی ، میں نہ شیعہ ہوں ، نہ سنی ہوں ، ایک سیدھا پختون مسلم ہوں ، میری بس یہی پہچان ہے لیکن اسلام کے نام پر فرقہ واریت کی ایسی پہچان اسلام کا چہرہ مسخ کر رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے سفارتی تعلقات استعمال کرنے چاہیں ۔
ایران کو شامی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ بربریت کی وہ مثالیں قائم نہ کرے ۔ مضایا میں انسان اپنی جان بچانے کیلئے کتے بلیوں اور پالتو جانوروں کا گوشت کھا رہے ہیں ، وہاں انسان بستے ہیں، جہاں گھاس پھونس کھائے جا رہے ہیں۔ مضایا میں انسان بستے ہیں جہاں کے شرخوار دودھ کے بجائے نمک ملا پانی پیتے ہیں۔ مضایا میں انسان بستے ہیں ، مضایا میں انسان بستے ہیں، کچھ دیر کیلئے بھول جاؤ کہ وہاں کوئی شیعہ ہے وہاں کوئی سنی ہے ، بس کچھ دیر کیلئے انھیں انسان سمجھ کر انھیں خوراک اور ادویات دے دو ، بچوں کو دودھ پینے دو ، انھیں سسک سسک کر مت مارو ، انھیں مسلمان بھی نہ سمجھو بس ایک لمحے کے لئے انسان سمجھ کر ان کی امداد کرو ، اگر دنیا بھر کے مسلم کہلانے والے ملک کچھ نہیں کرسکتے ، اقوام متحدہ کچھ نہیں کرسکتی ، عالمی برادری کچھ نہیں کرسکتی تو پھر کم ازکم یہ بتا دو کہ تم کر کیا سکتے ہو ؟
 
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666268 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.