کتے کی دم کبھی سیدھی ہو نہیں سکتی !پاکستان
اور بھارت کے تعلقات میں معلوم نہیں کس سؤر کا بال ہے کہ یہ اچھے ہو کر
نہیں دے رہے ۔ تقسیم ہندوستان کے وقت جو نسل بلوغت کی حدوں کو پار کرچکی
تھی یا جسے قدرے شعور تھا کوئی ان سے پوچھے کہ تقسیم برصغیر کے وقت نفرت کی
بے رحم آگ نے پاکستان اور بھارت سے مسلمانوں اور ہندؤں یا سکھوں کی نقل
مکانی نے لاکھوں خاندانوں کو کس کرب اور اذیت سے دوچار کیا۔ لیکن بہت کم
ہیں جو اس وقت موجود ہیں اور ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے
زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ تقسیم کے بعد بھی پینسٹھ کی جنگ ستمبر تک حالات
کچھ بہتر رہے ، دونوں ملکوں میں آنا جانا اتنا مشکل نہ تھا اور پاکستان میں
بھارتی فلمیں بھی باآسانی میسر تھیں ظاہر ہے پاکستانی فلمیں بھی امرتسر
اوردلی کے بازاروں میں مل جاتی ہوں گی ۔ عرصہ ہوا جانا نہیں ہوا لیکن ایک
وقت تھا کہ لاہو رکے انارکلی بازار کی پان گلی میں بھارتی مصنوعات کچھ
مہنگے داموں ہی سہی آرام سے مل جاتی تھیں ۔کبھی جنرل ضیاء الحق میچ کے
بہانے بھارت جا نکلتے تھے اور کبھی راجیو گاندھی اسلام آباد کا چکر لگا
لیتے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نازک طبع پر گراں گزرنے والے کشمیر ہاؤس
کے بورڈ اتار لیے گئے ۔ وقت نے کروٹ بدلی اور دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت
نے سمجھداری کا مظاہر ہ کیا لیکن ایک’’ بہادر کمانڈو‘‘ کی کھوپڑی میں معلوم
نہیں کیا سمایا کہ بغیر کسی منصوبہ بندی اور ما بعد اثرات کا اندازہ کئے
بغیر کشمیر کو آزاد کرانے چڑھ دوڑا۔ تاریخ کا جبر تھا یا قدرت کی سزا اسی
کمانڈ و کو خود آگے بڑھ کر اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملانا پڑا لیکن بعد
میں وہ آگرہ سے نامراد واپس آیا کہ اسے عوام کی حمایت یا ہمسائے کا اعتماد
کچھ بھی میسر نہ تھااورحالات نے جو الٹا موڑ لیا ا سے دونوں ملک آج تک بھگت
رہے ہیں۔ گویا ۔ ۔ ۔۔۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کراچی کی بیرک سے’’فاتح کارگل ‘‘اب بھی کبھی کبھار بولتا ہے لیکن مقام عبرت
ہے کہ اب اس کے کہے کو اہمیت دینے والے ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں
۔ میاں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی نے دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے
کو امن اور خوشحالی کے جس راستے پر ڈالنے کا خواب دیکھا تھادونوں ملکوں کی
عوام اب بھی اسے حقیقت بنتے دیکھنا چاہتی ہے ۔دونوں ملکوں میں آر پارآنے
جانے والوں سے پوچھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت میں احترام او ر
محبت کی فضا اب بھی موجود ہے رہنماؤں کو مگر ہوش کیوں نہیں آجاتا؟۔
صرف تین ہفتے گزرے ہیں جب نریندر مودی لاہور آئے تو دنیا بھر کے میڈیا میں
ایک ایسا بھونچال آیا جس کے جھٹکے بہت دیر تک دنیا بھر میں محسوس ہوتے رہے
۔ بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ امن کی گاڑی اب ٹریک پر چل نکلی ہے اور
نریندر مودی ، اٹل بہاری واجپائی کی بصیرت کو لے کر اپنا نام تاریخ میں
لکھوا لیں گے ۔ناچیز نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ یہ ایک اچھا آغاز تو
ہوسکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔(اورآج حالات یہ ہی ثابت کر رہے ہیں)
دنیا بھر سے تمام حلقوں نے نریندر مودی کے اس ڈرامائی دورے کا خیرمقدم کیا
تھا لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کی نحیف آواز کے مقابلے میں نریندر مودی
کو بھارت میں اس دورے کی وجہ سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اس
دورے سے پھوٹنے والی امید کی کرن صرف دو ہفتے ہی ٹمٹما سکی اور پوری طرح
روشن ہونے سے پہلے ہی یہ چراغ گل ہو گیا۔
خیریت گزری کہ پٹھان کو ٹ کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت نے
ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ماحول کو مزید بگاڑنے سے بچائے رکھا اور دونوں
ملکوں کے مشیر قومی سلامتی بھی آپس میں رابطے میں رہے ۔اب لیکن ،چار دن تک
چار دہشتگردوں کے ہاتھوں تگنی کا ناچ ناچنے والا منوہر پاریکر کہتا ہے کہ
پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ارے بھائی !آپ نے کیا کیا؟ آپ پر وحی اتری ہے کہ
پٹھان کوٹ پر حملہ جیش نے کیا ؟پٹھانکوٹ کے فضائی اڈے پر ہونے والا حملہ
ابھی پسپا نہیں ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا گاؤں کی پھاپھے کٹنیوں کی طرح
پاکستان پاکستان کی دہائی دینے لگ گیا تھا۔ کس نے فیصلہ کر لیا کہ یہ جیش
کی کارروائی ہے یا اس میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز ملوث ہیں؟کن ثبوتوں
کی بنیاد پر ؟مارے جانے والوں کی لاشیں کدھر ہیں؟کوئی تصویر ا ب تک میڈیا
کو جاری کیوں نہیں کی گئی ؟مرنے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کیا کہتے ہیں؟
پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے کی سرکس پر بیس روپے کی ٹکٹ کس نے اور کیوں لگائی
؟ائیربیس کے نواح کی دکانیں غیر معمولی طورپر خلاف معمول وقت سے پہلے کیوں
بند کروا دی گئیں ؟گرفتار سکھ ایس پی سلوندر سنگھ اور میجر سے کیا تحقیقات
ہوئیں ؟کسی کو کچھ نہیں پتہ ۔کل ملا کہ صرف دو عدد موبائل نمبرزہیں بھارت
کے پاس ،کیا سمجھتے ہیں آپ کہ دنیا اندھی ہے؟دنیا کے کسی بھی قانون یا
اخلاقیات کی بنا پر آ پ کیسے کسی تحقیق کے بغیر مسعود اظہر کو چار دن میں
پھانسی چڑھا دیں؟بمبئی حملوں کے ملزموں کی خلاف عدالتی کارروائی ایک آزاد
نظام انصاف کے معیار پر کسی طور پورا نہیں اترتی ، اور سمجھوتہ ایکسپریس کے
شہیدوں کی بات کیوں نہیں کرتے آپ؟اس لئے کہ اس میں بھارت کے نان سٹیٹ ایکٹر
زنہیں بلکہ بھارتی فورسز کے حاضر سروس اعلیٰ افسران براہ راست ملوث ہیں
؟آئی ایس آئی کی بھار ت میں طلبی کا خواب بھی پاکستانی ریاست نے بہت حکمت
سے چکنا چور کیا۔پاکستان سے جانے والی تحقیقاتی ٹیم کو اگر ائیر بیس میں
داخلے کی اجازت نہیں ملے گی ،جائے وقوعہ کا معائنہ وہ نہیں کر سکے گی
،بھارتی ایجنسیوں یا پولیس نے جو تحقیقات کیں ہیں ان تک پاکستانی ٹیم کو
رسائی نہیں دی جائے گی تو کیا پاکستانی ٹیم بھارتی لالے کی دکان سے برفی
کھانے جائے گی؟ایک بات جوسمجھ سے باہر ہے وہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان
میں جیش کے دفاتر کی بندش کی خبریں ہیں ،تعجب ہے!لوگوں کے بیڈ روم تک کی
خبریں لانے والا میڈیا یہ نہیں بتا سکا کہ جیش کا کون سا دفتر کس شہر میں
بند ہوا؟؟ارے کوئی ہوتا تو بند ہوتا !اور اگر بندہوتا تو بال کی کھال
اتارنے والا میڈیا ایک پریس نوٹ کو بریکنگ بنانے کی بجائے اس کی تصاویر یا
ویڈیو بھی جاری کر چکاہوتا۔
امن کے لئے جامع مذاکرات کی ہانڈی ایک بار پھر چڑھ نہیں پائی ۔ کبھی کبھی
میں سوچتا ہوں پاکستان اور بھارت کے عوام وسائل کے اعتبار سے مالا مال ہونے
کے باوجود کس قدر بد نصیب ہیں ۔ان دونوں ملکوں کے لہلہاتے کھیت جو سبز سونا
اگلتے ہیں دنیا میں شائد ہی کوئی دھرتی اگاتی ہو،کون سی ایس معدنی دولت ہے
جو ان کو میسر نہیں ، دنیا بھر میں دلکش مانی جاتی اور بلند ترین پہاڑیاں
،جنت نظیر سیاحتی مقامات ،گہرے سمندر اور ان میں قدرت کا انعام رنگ رنگ کی
سمندری خوراک،دنیا کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے لئے دنیا بھر میں تسلیم
کئے جانے والے بہترین انسانی دماغ ،خوبصورت بچے ،وجیہہ اور کڑیل جوانوں کے
ساتھ ساتھ نسوانی حسن سے مالامال دوشیزائیں لیکن یہ سب مل کر امن ،خوشحالی
اور رومانس کا سا ماحول نہیں بناتے،کوئی محبت کا نغمہ نہیں گنگناتے بلکہ جس
شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں ۔ہم دونوں سے تو چار فٹ کے
بنگالی اچھے جو ایک طرف بیٹھے باہمی جھگڑوں کے باجود کچھوے کی چال سے ہی
سہی ترقی او ر استحکام کے راستے پر گامزن ہیں ۔
واﷲ عالم باالصواب |