یادوں کی پرچھائیاں
(Imran Ahmed Rajput, Hyderabad)
گھرکے کاموں سے نڈھال کچھ دیر فراغت کے
لمحات گزارنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ٹی وی آن کیا ہی تھا کہ اچانک ٹی وی
اسکرین پر علی احمد کا نام پڑھتے ہی دل کی خاموش لہروں نے یکدم وجود کے
اندر ایک تلاطم برپا کردیا ۔وہ واقعی شہرت کی بلندیوں کو چھورہا تھا وہ
اپنی بات کا پکا تھا جو ایک بار ٹھان لیتا اُسے پورا کرکے ہی رہتا اُس کی
زندگی بلیک اینڈ وائٹ کی طرح تھی جو یس اینڈ نو کے گرد گھومتی صحیح اور غلط
کے بنیادی اصولوں پر ٹھہری ہوئی تھی ۔ شاید یہی اُسکے اور میرے درمیان
تنازعے کا باعث تھا بلکہ میرے درمیان کیا اُس سے جڑے ہررشتے کے درمیان یہی
تنازعہ حائل تھا اُس کے بنائے خودکار اُصولوں سے مجھ سمیت کسی کو اتفاق نہ
تھا ۔ وہ زندگی کے ہر لمحے کو اُصولوں کے ترازو میں تول کر گزارنے کا عادی
تھا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کے بنائے اُصول حق و صداقت پر مبنی تھے
لیکن شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ آج کے معاشرے میں سچائی کی بڑی بھاری قیمت
چکانی پڑتی ہے ہمارا معاشرہ اِس کا عادی نہیں وہ تو بس بے ہنگم شور وغل میں
بے مقصد زندگی گزارنے کا عادی ہے وہ بھول چکا تھا کہ معاشرتی اختلاف انسان
کو ایسی ویرانیوں میں دھکیل سکتا ہے جس سے باہر نکلنا ناممکنات میں سے ہے۔۔۔
اور پھر اُس کے ساتھ ایسا ہی ہوا ماضی میں اُصولوں کے پابند اور مضبوط
ارادوں کے حامل اِس انسان کو میں نے ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا سخت موقف پر ڈٹنے
والے علی احمد کو میں نے جھکتے ہوئے بھی دیکھا جن آنکھوں نے کبھی نمی کو
محسوس نہ کیا ہو اُن آنکھوں میں اَشکوں کا سمندر بھی دیکھا مسلسل جیتے ہوئے
انسان کو ہارتے ہوئے بھی دیکھا جب اُسے یہ احساس ہوا کہ کچھ رشتے اُصولوں
سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جن سے کنارہ کرنا کسی انسان کے اختیار میں نہیں
ہوتا۔
اولاد نامی انمول رشتے کی سچائی کو نوماہ اپنے وجود میں رکھ کر اِس حقیقت
سے آشنا نہ ہوپائی تھی کہ جس سے شناسائی علی احمد کے ہاتھوں ہوئی اپنے زعوم
میں مبتلا غرور و تکبر سے لبریز چٹان سے زیادہ مضبوط اصولوں پر کھڑا انسان
اولاد کے لئے لمحہ بھر میں ریتلی عمارت کی صورت اختیار کئے اِس طرح زمیں
بوس ہوجائے گا خواب و خیالوں میں بھی نہ سوچا تھا اولاد کی جدائی کے خوف سے
بقول اُس کے مجھ جیسی احمق لڑکی کے ساتھ دوبارہ زندگی گزارنے کو تیار تھا
لیکن جانے یہ میری بدنصیبی تھی یا اُس کی تقدیر میں اولاد کا بچھڑنا لکھا
تھا کہ اُسے رشتوں کا احساس ہونے تک کافی دیر ہوچکی تھی۔وہ طلاق جیسے شبدوں
کو میرے گلے کا طوق بنا چکا تھا۔ بقول اُسکے وہ مجھے نصیحت دینا چاہتا تھا
لیکن اپنے خود ساختہ اصولوں پر کھڑی عمارت کے زعوم میں مبتلا وہ یہ بھول
گیا تھا کہ یہ معاشرہ اُس کی اختیار کی گئی آزاد و ملحدانہ سوچ کی پیروی
نہیں کرتابلکہ طبقاتوں میں بٹا مسلکوں میں جُتہ معاشرہ ایسے موقعوں کی تلاش
میں رہتا ہے اور وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ میرے اور اُس کے درمیان رشتے کی
بنیاد اب صرف نکاح کے تین بولوں سے نہیں دانیال کے وجود سے جڑی ہے ۔لیکن
باوجود اِن سب کے وہ میری ذات پر طلاقن کی مہر ثبت کرچکا تھا۔۔۔۔
کیا قصور تھا میرا ۔۔۔میں آوارہ تھی ، بدچلن تھی، انپڑھ تھی جاہل تھی گنوار
تھی کیا تھی میں۔۔۔۔؟
کیا ذہنوں کا اختلاف اِس قدر سنگین صورتحال اختیار کرجاتا ہے کہ ساتھ ایک
لمحہ گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔
میرے اور اُس کے درمیان اختلاف صرف اتنا ہی تو تھا کہ وہ زندگی کو جینا
چاہتا تھا۔۔۔ اور میں زندگی گزار نا۔
کہنے کو یہ معمولی بات تھی لیکن بات جب الفاظوں میں چھپی حقیقت کو چاک کرنے
کی آتی ہے تواندراختلافات کا کبھی نہ رکنے والا سیلاب اُمڈتادکھائی دیتا ہے
جو ذہنوں کو غارت کرنے میں کوئی قصر نہیں اٹھا رکھتا ۔
میرا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں عورت کو سہاگن بننے سے پہلے باپ بھائی
کی نظریاتی سوچوں کا غلام بننا پڑتا ہے اورسہاگن ہونے کے بعد شوہر کے
اصولوں کا پابند کردیا جاتا ہے ۔بہر صورت عورت کو ایک کٹھ پتلی کا کردار ہی
ادا کرنا ہوتا ہے لہذا ایسی عورت کا شعور سے کیا تعلق ،اُس کا زندگی کے
دلفریب رنگوں سے کیا واسطہ ، اُسے فکرِ نو سے کیوں رغبت ہو ، ایسی باتیں
اُس کے لئے شجرِ ممنوع کی حیثیت رکھتی ہیں لہذا جس نے اِس کا ارتکاب کیا وہ
سنگین جرم کا مرتکب ٹھہرا۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ میری خوش قسمتی تھی یا
بدنصیبی کہ علی احمد جیسا شخص میرے وجود کا حقدار قرار پایاوہ ایک انتہائی
آزاد اور لبرل سوچ کا مالک تھاجو زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ جینا چاہتا تھا
اُس کی نظر میں فرسودہ معاشرتی اقداروں کی کوئی اہمیت ووقت نہیں تھی وہ ہر
شے کو انسانیت کے حقیقی اصولوں پر پرکھنے کا عادی تھا وہ ہر طرح کی تاریخ
سازی کو مسترد کرچکا تھا اُس کی نظر میں پرانی روایات کی کوئی اہمیت تھی نہ
بزرگوں کے قول کا کوئی پاس تھا وہ اپنے آپ پر کسی وجود کا ٹھپا نہیں چاہتا
تھا وہ انتہا کا غیر جانبدار تھا وہ ہررشتے کی اہمیت عمل سے جانچنے کا عادی
تھاوہ مکمل ایک پریکٹیکل انسان تھا۔ ایسے انسان کا اِس مطلب پرست معاشرے
میں کیا کام ۔۔۔۔نتیجہ یہ نکلا نہ معاشرے نے اُس کو تسلیم کیا اور نہ وہ
فرسودہ معاشرتی اقداروں میں خود کو ضم کرپایا ،وہ ہمارے لئے ایک عجوبہ تھا
جو اپنے وجود میں تنہا حالات سے مقابلہ کرتا اپنے اصولوں پر کھڑا تھا۔
چونکہ میری پرورش جھوٹی شان پرکھڑے عدم استحکام کے حامل اِسی معاشرے میں
ہوئی تھی لہذا ہر ممکن کوشش کے باوجود اِس کے سحر سے باہر نہ نکل سکی میں
تو بس زندگی کو ہانڈی چولہے تک محدود کرنے کی اہل تھی لہذا علی احمد کے
آزادنہ خیالات سے چڑ ہونے لگی ،بجائے اِس کے ہم خیال بنتی اُس کے تصورات کی
تضحیک کرنے لگی۔۔۔۔ اُسے اِسی بے محر معاشرے کاحصہ بنانے میں جتی رہی لیکن
وہ کب جھکنے والا تھا ۔۔۔سو ٹوٹنا اُسکا مقدر بنا گردشِ حالات نے سب کچھ
بہا کر آسمان سے زمیں پرپہنچادیاتھا۔
لیکن شایداب وہ حالات سے نبرد آزما ہونے کا فن جان چکا تھا آج ٹی وی اسکرین
پر ڈائریکٹر ،رائٹر،اور ایکٹر کے چلتے ٹریکر پر علی احمد کا نام اِس بات کی
عکاسی کررہاتھا کہ زندگی کسی سہارے کی نہیں بلکہ ارادوں کی محتاج ہوا کرتی
ہے اور یہ اُس نے ثابت کر کے بھی دکھایا ۔ مجھے اب یہ احساس شدت سے ہونے
لگا تھا آج مجھے اُس کی ہر بات میں سچائی کی جھلک نظر آرہی تھی شاید میں نے
خود کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا تھا لیکن کیا اِس نتیجے کی ذمہ دار میں
تنہا تھی یا علی احمد بھی میرے ساتھ شریکِ جرم تھا۔یاپھروہ بھائی جودنیا کے
لئے آخرت کو خراب نہ کرنے کا درس دیتا اچانک اسی سماج کی خاطر اپنے دونوں
ہاتھوں کو میرے پیروں کی زنجیر بنا چکا تھا ۔ ۔۔جس کی چابی حلالہ جیسی
معاشرتی روایتوں کے سِرہانے پڑی تھی۔۔۔۔جو علی احمد کو کسی طور قبول نہ
تھاوہ تو تجدیدِ نکاح کی گنجائش جیسے صاف سھترے راستے کا قائل تھا۔۔۔۔
پتا نہیں آج علی احمد کو ٹھکراکر فردوس کو پانے کا سودا بھلا رہا یا برا
۔لیکن میں اتنا ضرور جان چکی ہوں کہ آج سب اپنی اپنی جنتوں میں خوش ہیں
جہاں تک علی احمد کی بات ہے تو وہ جنت دوزخ کے تصور سے آزاد اپنی جنت آپ
پیدا کرنے کے اصول پر کاربند نظر آتا ہے ۔ جہاں تک بھائی کی بات ہے وہ میرے
چہرے پر اُمڈتے سوالوں سے نظریں چرائے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی جنت نمائی
میں مگن ہے جبکہ میں مایوسیوں کے گھپ اندھیروں میں پتھرائی آنکھوں کے ساتھ
آسمانوں سے نبردآزماں کبھی اپنی جنت کو تلاشتی ہوں توکبھی نظریں جھکائے
خاموش بیٹھی اپنے اصل دشمن کوکھوجتی رہتی ہوں۔۔۔شاید یہی میرا مقدر ہے جس
کے سہارے مجھے اب زندہ رہنا ہے ۔آج اگرعلی احمد سے تعلق جوڑنے کاکہوں بھی
تو وہ مجھے کبھی نہیں اپنائے گا کیونکہ اُس کے اصولوں کی پٹاری میں ہرغلطی
کی معافی ہے لیکن بے وفائی کی نہیں۔۔۔! |
|