شام تنہائی .قسط :30

..میں نعمان کے ساتھ کام نہیں کر سکتی ...کون ہوتا ہے یہ میرے کام میں دخل دینے والا' .
پارس .تم بات سمجھنے کی کوشش کرو ...آخر کوئی تو وجہ ہو گی جو میں نے اس کو اپنے آفس میں رکھایہ سب باتیں سمجھنے کی ہیں ...مگر م تو پتہ نہیں کیوں نہیں سمجھتی ...جو بھی ہے .
..میں کچھ نہیں جانتی ...تمہیں اس لڑکے کو ابھی ور اسی وقت یہاں سے نکالنا ہو گا ...
یہ کیا بات وی آخر تمہیں اس لڑکے سے کیا مسلہ ہے ...شاہ زر گھسے اور حیرانی کے ملے جلے احساس سے بولا ...
بس شاہ زر میں کچھ نہیں جانتی ...یہ سب میری برداشت سے باہر ہے ...
شاہ زر پارس کی بات پی الجھ سا گیا ...اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا .. l کہ اس کے لئے پارس اور نعمان دونوں بہت اہم تھے .. اسے کوی ایک فیصلہ تو لینا ہی تھا ..اوکے .تو آج کے بعد تم دونوں اکٹھے کام نہیں کرو گے ....شاہ زر نے اس مسلے کا حل نکالا ...پارس
اب تو تمہیں کوئی پرابلم نہیں ...شا زر نے پارس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ....
بٹ شاہ زر تم اسے نکال کیوں نہیں دیتے ...ای تھنک ...پارس اب تمھیں کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہیے ...
اب تم دونوں کا کام الگ الگ ہے ....میرا نہیں خیال کہ اسے اب کسی بھی وجہ سے یہ جاب چھوڑنے کی ضرورت ہے ...بکوز ای نیڈ ہم ....اب شاہ زر پارس پر سے نظریں ہٹا کر فایل دیکھنے لگا
پارس .خاموشی سے کمرے سے باہر نکل ای ...اب مزید شاہ زر سے کچھ کہنا بے کار تھا ...اس کے لئے یہ ہی بہت تھا کہ اسے اب نعمان ...جسے وہ انتہائی نہ پسند کرتی تھی ...کے ساتھ کام نہیں کرنا پرے گا .... اور وہ یہ سب چھوڑ بھی تو نہیں سکتی تھی
...کیوں کہ اسے شاہ زر سی بہت محبت تھی ....اور شاہ زر کے آس پاس رہنے کے لیے اسے اتنا تو برداشت کرنا ہی تھا .... وہ اب اطمنان سے اپنی سیٹ پہ آ بیٹھی ....اور سامنے پڑی ان فائلز کو کھول کر دکھنے لگی جن پہ نعمان نے کام کیا تھا ....پارس ان پہ کیے گیے کام کو دیکھ کر سمجھ گئی ...کہ شاہ زر نعمان کی اتنی حمایت کیوں کرتا ہے ....تمام کام اس کی بے انتہا ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا ...
حیرانی سے سب کام کو دیکھ رہی تھی ...اس میں اگلے ایک ہفتے کا کام بھی کیا گیا تھا ...
خیر مجھے کیا ....مجھے ہو لڑکا بالکل بھی پسند نہیں ......وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی
.......................................

فرح .پاؤں میں گھنگھرو پہنے طبلے کی تھاپ پہ رقص کر ہی تھی ....اس کے گرد اور بھی لڑکیاں پاس ہی نیچے کارپٹ پہ بیٹھی اس کے پیروں پہ نظریں جماے حویے تھیں ...
فرح کے پاؤں پہ ابھی بھی زخم باقی تھے ...اس کے پیروں کے تلووں پہ چھالے پڑھ ے ہوے تھے ....مگر اب یہ تکلیف اس کے لئے بہت معمولی تھی ...بہت سے ظلم سہنے کے بعد شائد اب وہ کچھ حد تک عادی ہو چکی تھی ....اس کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا ...اپنے نصیب کی حیران کن کتھنایؤن پہ اس نے چپ سادھ لی تھی ...
اب تو وہ زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی ...زندگی کے جس موڑ پہ وہ کھڑی تھی ...اس موڑ پہ کوئی اس کا اپنا موجود نہیں تھا ...وہ چاچو جنھیں وہ سب سے زیادہ پیار کرتی تھی ...جن پہ سب سے زیادہ بھروسہ تھا آج ...انہی کی وجہ سے وہ تنہا ان تکلیف دہ حالات کا سامنا کر رہی تھی ....انسانوں کے روپ میں درندوں کو دیکھ کر اسے انسانوں سے نفرت ہونے لگی تھی ...
کہیں وہ بہت پیار کرنے والا چاچو ...
کہیں وہ عبادت کرتی بوڑھی عورت ....
مگر. مگر ....
وہ سلمان بھی تو تھا ....میرا اپنا ...میرے ہر دکھ ہر تکلیف کو سمجھنے والا ....میرا ساتھ دینے والا ...
میری پیاری سہیلی صائمہ ...مگر نہیں شائد کوئی بھی میرا اپنا نہیں ....کوی بھی نہیں ....وہ گھٹنوں میں سر دیے بے آواز رونے لگی ...
اب دوسری لڑکیوں کی باری تھی پریکٹس کی ....اس نے دیکھا دوسری لڑکیاں بہت اطمنان اور خوشی سی یہ سب کرتی تھیں ....اور رقص میں دلچسپی لیتی تھیں ....شائد ان لڑکیوں نے بھی اپنی قسمت کے لکھے سے سمجھوتہ کر لیا تھا ....

.................................
وہ چاندنی کی بات سن کر تیزی سے کوٹھے کی اندرونی طرف بھاگا ...آج وہ اپنی پوری زندگی میں دوسری بار اس کوٹھے کی اندرونی طرف روشنیوں سے
چمکتے ull
ہوے کمروں کی طرف بڑھا ....سارے
کوٹھے پہ گھمبیر خاموشی کا راج تھا ...وہ کوٹھا جہاں ہر وقت رنگینیوں کی محفل سجی رہتی تھی ...آج اس

کوٹھے کی مالکن کی بیٹی نے اپنی عزت بچانے کے لئے اپنی جان دے دی تھی ...ہر طرف سناٹا تھا .... اس کے پچھے چاندنی بھی بھاگتی ہوئی پہنچی .... کمرے میں جمگھٹا لگا ہوا تھا ....صرف چند لڑکیاں جگن کے گرد بیٹھی آنسو بھا رہی تھیں
اسے .دیکھ .کر .سب .حیران ہوے ...وہ آگے بڑھا اور کارپٹ پہ پڑی جگن کے بے جان وجود کی طرف بڑھا ... اس کے پاس صوفے پہ ستارہ ٹانگ پہ ٹانگ جماے خاموشی سے بیٹھی تھی ...اس نے قہر آلود نظر ستارہ پہ ڈالی ...

اور .نیچے بیٹھ کر جگن کا سر اپنے ہاتھوں میں لیے لیا ....
اسے اس لمحے خود پہ بھی غصہ تھا ...کہ وہ جگن کو کیوں نہیں بچا سکا ....
اس کی آنکھوں کی نمی بڑھنے لگی ...وہ جگن کے چہرے پہ نظریں جماے بیٹھا تھا ...جگن کے چہرے پہ چمک تھی ....نور تھا ....اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے گرنے لگے ....پھر وہ اٹھا اور واپسی کو قدم بڑھے ...
سنو ...چاندنی کی مدھم آواز پہ اس کے قدم تھم گیے ...

وہ پچھے مڑا ....اور چاندنی کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ...یہاں کوٹھے پے کسی لڑکی کا جنازہ نہیں اٹھایا جاتا '' اور نہ ہی کوی سوگ منایا جاتا ہے .......

جگن کی خواہش تھی .''..کہ اسے صرف تم دفن کرو ''...اپنے ہاتھوں سے ..چاندنی آنسو .بھاتے ہویے بولی ....
وہ .حیرانی سی چاندنی کو دیکھنے لگا ...کچھ جواب نہ پا کر چاندنی آہستہ سے چلتے ہویے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی ...
پلیز ....انکار مت کرنا ...''چاندنی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے ...
مگر کیوں ....''
وہ چاہتی تھی اس کی میت پاک ہاتھوں سے دفن کی جائے ''
مگر ...مگر وہ تو مجھے ناپاک کہتی تھی ...''ناپاک تو تم بھی اسے کہتے تھے ...''مگر وہ ناپاک نہیں تھی ...''تمہاری اس بے یقینی نے آج اس کی جان لیے لی ''...
کاش تم اس کی بات سمجھ جاتے مان جاتے ....''
اس کی آخری خواہش سمجھ کر اس کو دفن تم کرو ...''
وہ خاموشی سے پچھے کو پلٹا ....
نجانے
کیوں .آج .جگن جب اس نے ہمیشہ کے لئے چپ سادھ لی تھی ...تو وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کے سامنے بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کرے ....
اور جس چہرے کو اس نے کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا آج اس چہرے سے وہ نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا ....
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ....وہ اسے بہت اپنی اپنی سی لگ رہی تھی ....

...................................
پارس کے پاپا کے بلاے جانے پہ شاہ زر اس لمحے ان دونوں کے ساتھ بیٹھا ڈنر کر رہا تھا ...شاہ زر یہ مٹن پلاو ...بھی لو نہ ''...پارس کے پاپا نے ٹرے شاہ زر کی طرف برھی ...
تھنکس ...''شاہ زر نے مسکراتے ہویے ٹرے ان کے ہاتھ سی لے لی ....
میں تو کہتا ہوں ''..اب تم بھی شادی کر لو ...''
اپنی لائف کے جمود کو توڑو ....''شاہ زر کا ہاتھ کھاتے ہویے رک گیا ....
پارس اور اس کے پاپا شاہ زر کے جواب کے منتظر تھے
...
شاہ زر کو خاموش پا کر پھر سے بولے ....
کیا خیال ہے ''شاہ زر بیٹا ''شادی کا ارادہ ہے ..''یا نہیں ...'' میرے خیال میں اب تمھیں شادی کر لینی چاہیے ''
نہیں انکل ...''میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا ...

''شاہ زر یہ بات کہ کر پھر سے کھانا کھانے میں مصروف نظر آنے لگا ...
پارس کے
چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی ...
اس نے اپنی آنکھوں کی نمی چھپانے کے لئے سر جھکا لیا ...میں تمہارہ انتظار کروں گی ....
وہ ایسا صرف سوچ ہی سکی ....

جاری ہے ......
 
hira
About the Author: hira Read More Articles by hira: 53 Articles with 64040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.