حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے فرمایا نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلّم نے شیطان
تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے فلاں کو کس نے پید اکیا، فلاں چیز
کو کس نے پید اکیا پھر کہتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟پھر آپ صلی
اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں یہ بات آئے( یعنی شیطان یہ
وسوسہ ڈالے ) تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائے اور اس خیال کو
ترک کر دے(صحیح بخاری شریف)۔
اس حدیث شریف میں شیطان ابلیس کا مسلمانوں کے دلوں میں ذات باری تعالیٰ کے
بارہ میں وسوسہ ڈالنے کا ذکر ہے کہ شیطان کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے
کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ، فلاں کو کس نے پید اکیاپھر کہتا ہے کہ یہ
سب چیزیں تو اللہ نے پیدا کیں تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ ایک ایسا
شیطانی وسوسہ ہے کہ جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ میں آجانے اور اس سے
رک جانے کی ہد ایت کی گئی ہے۔ یعنی جب بھی ایسا وسوسہ دل میںآئے تو بندہ کو
چاہئے کہ فوراً اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑہے اور شیطان کے وسوسہ سے
رحمٰن کی پناہ میں آجائے۔
یہ وسوسہ ڈالنے سے شیطان کا مقصد یہ ہے کہ خود ذا ت باری تعالیٰ کے بارہ
میں ہی شکوک و شبہات پیدا کر دیئے جائیں اور ایک بے یقینی اور شک کی کیفیّت
پیدا کر دی جائے تاکہ بندہ سکون و دلجمعی کے ساتھ عبادت نہ کر سکے۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا موجود ہے اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اسکی گواہی دے
رہاہے، رہی یہ بات کہ خدا کو کس نے پیدا کیا تو بندہ شرعاً اسکا مکلف نہیں
کہ وہ اس بارہ میں غور وفکر کرے اتنا عقیدہ رکھنا ہی کافی ہے کہ خدا موجود
ہے،زندہ ہے، حی اور قیّوم ہے،قادر مطلق ہے، کائنات کا بلا شرکت غیرے حکمران
ہے اور اسکا علم و صفات لا متناہی و لا محدود ہیں وغیرہم۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’آپ فرما دیجئے ( اے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلّم
)اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا
گیا اور نہ ہی کوئی اسکی برابری کرنے والا ہے‘‘( الاخلاص پ۳۰)
باقی رہا یہ سوال کہ اس کی حقیقت کیا ہے تو اسکا پتہ تو مرنے کے بعد چلے گا
کیونکہ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ جنتیوں کو اللہ تعالیٰ کا
دیدارنصیب ہو گا اور ان کے بارہ میں قرآن پاک سے یہ ثابت ہے کہ وہ جس چیز
کی بھی تمنا کریں گے پوری کی جائے گی اور یہ عام ہے کہ وہ جو بھی چاہیں گے
عطا کیا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے کوئی بادشاہ خوش ہو کر کسی سے کہے
کہ’’مانگو کیا مانگتے ہو!‘‘ تو مانگنے والے کو یہ یقین ہوتا ہے کہ بادشاہ
نے کہا ہے لہٰذا میں جو مانگوں گا مجھے ملے گا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی بادشاہوں کے اختیار میں بھی سب کچھ نہیں ہوتا۔
مثلاً مانگنے والا اگریہ کہے کہ بادشاہ سلامت! مجھے میری گذری ہوئی جوانی
واپس لوٹا دیجئے یا مجھے اور میری فیملی کو ہر مرض سے شفا ملے اور عمر خضر
عطا ہو توبادشاہ یہ کہے گا کہ میاں! یہ میرے اختیار میں نہیں تو تمہیں سونا
چاندی،روپیہ پیسہ یا ڈالر دے سکتا ہوں اور بس! تم اس سے جو چاہے خرید لو۔
مگر جس ذات نے جنتیوں سے یہ فرمایا ہے کہ ’’ تمہیں سب کچھ ملے گا‘‘ وہ
بادشاہوں کا بادشاہ اور بادشاہ گر ہے اور اسکے دائرہ اختیار میں وہ سب کچھ
ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا اگر جنتی لوگ یہ تمنا کریں کہ
باری تعالیٰ ہمیں اپنی حقیقت سے مطلع فرمادیجئے تو امید ہے انکی یہ خواہش
پوری کر دی جائے گی۔
اور اس قسم کی باتیں کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا، اسے سوجھتی ہیں
جوغم روزگار سے آزاد اور بے فکرا ہو
اور اس کے پاس فالتو ٹائم بھی ہو اور جو شخص خدا نخواستہ تنگی معاش میں
مبتلا ہو فاقہ کش ہو تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ
دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ فوراً یہ کہے گا کہ ’’چار روٹیاں‘‘ ایسے میں
اگر اس سے پوچھا جائے کہ یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا تو وہ
یہی کہے گا کہ چھوڑو اس بات کو پہلے مجھے روٹی کھلاؤ!
اسی طرح قرآن پاک میں ایک جہاز والوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جب جہاز
سمندر کی موجوں میں ہچکولے کھانے لگا اور جہاز والوں کو یہ یقین ہو گیا کہ
اب جہاز ڈوب جائے گا تو وہ اس آفت سے بچنے کیلئے فوراً خداکو پکارنے لگتے
ہیں اگرچہ وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہوں مگر انہیں اسکا یقین ہوتا ہے کہ
اس مصیبت و پریشانی سے نجات دینے والا کوئی ہے تو وہی خدا ہے۔ ایسے میں اگر
کوئی ان سے یہ کہے کہ تم خدا کو پکار تو رہے ہو پہلے یہ تو معلوم کر لو کہ
اسے پیدا کس نے کیا ہے؟
تو وہ یہی کہیں گے کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے
پیدا کیا ہے ہمیں تو اس مصیبت سے نجات چاہیئے۔ اور قرآن پاک میں آگے یہ بھی
فرمایا گیا ہے کہ جب وہ بحفاظت کنارے پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے
انھیں کفریہ عقائد کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
لہٰذا ایک مسلمان کیلئے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنی اس مختصر سی زندگی کو اللہ
تبارک و تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کرے جب قبر و آخرت کی زندگی شروع ہوگی تو
اس پر سب حقائق روشن ہو جائیں گے۔ |