سفر میں نمازِ قصر کا مسئلہ، مسافت نمازِ قصر اور مدتِ قصر

سفر میں نمازِ قصر کا مسئلہ
ازعثمان احمدحفظہ اللہ
September 14, 2014

سوال: سسرال میں قصر نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟
منتقی الاخبار کے مصنف امام عبدالسلام ابن تیمیہؒ نے ج۱ ص ۲۱۶ پر یہ باب قائم کیا۔ سسرال میں قصر کا مسئلہ : حدیث ۱۵۲۸: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں ۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپﷺ نےفرمایا: جب سے میں مکہ میں آیا ہوں تو میں نے نکاح کرلیا ہے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے جو کسی شہر میں نکاح کرلے وہ مقیم جیسی نماز پڑھے (رواہ احمد)
کیا یہ بات درست ہے کہ سسرال میں قصر نماز نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً
(والسلام خرم ارشاد محمدی )

الجواب: منتقی الاخبار والی روایت مسند احمد (۲۶/۱ ح ۴۴۳) و مسند الحمیدی (۳۶) میں “عکرمۃ بن إبراھیم الباھلي: حدثنا عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن أبي ذباب عن أبیہ أن عثمان بن عفان صلی بمنیٰ….”
کی سند سے مروی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا: “فھذا منقطع و عکرمۃ بن إبراھیم ضعیف” پس یہ منقطع ہے اور عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے (معرفۃ السنن ولآثار قلمی ج ۲ ص ۴۲۵، نصب الرایہ ۲۷۱/۳)

عکرمہ بن ابراہیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھئے لسان المیزان (ج۴ ص ۲۱۰) حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا :”وفیہ عکرمۃ بن إبراھیم وھو ضعیف” (مجمع الزوائد ۱۵۶/۲)

اس کے برعکس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنے کے بعد خطبہ میں ارشاد فرمایا :
”یاأیھا الناس إن السنۃ سنۃ رسول اللہ ﷺ وسنۃ صاحبیہ ولکنہ حدث العام من الناس فخفت أن یستنوا”

اے لوگو! سنت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) سے ثابت ہے۔ لیکن اس سال لوگوں کی وجہ سے رش ہوا ہے لہذا مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ لوگ اسے ہی اپنا نہ لیں (یعنی اپنے گھروں میں بھی چار کے بجائے دو فرض پڑھنے نہ لگیں)
[السنن الکبریٰ للبیہقی ج ۳ ص ۱۴۴ و سندہ حسن ، وانظر ،معرفۃ السنن والآثار [۴۲۹/۲

اس سے معلوم ہواکہ سیدنا عثمان نے اس وجہ سے سفر میں نماز پوری پڑھی تاکہ ناسمجھ لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔
یاد رہے کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث و آثارِ صحابہ سے ثابت ہے۔

اگر کسی شخص کا سسرال دوسرے شہر اور کی مسافت پر ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ وہاں قصر کرے لیکن پوری بھی پڑھ سکتا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ (سفر میں) قصر کرتے رہے اور میں پوری (نماز) پڑھتی رہی، آپ نے روزے نہیں رکھے اور میں روزے رکھتی رہی؟

تو آپﷺ نے فرمایا:”أحسنت عائشۃ" رضی اللہ عنہا اے عائشہ! تو نے اچھا کیا ہے۔
(سنن النسائی ج ۳ ص ۱۲۲ ح ۱۴۵۷ و سندہ صحیح، سنن الدارقطنی ۱۸۷/۲ ح ۲۲۷۰ وقال:”وھو إسناد حسن“و صححہ البیہقی ۱۴۲/۳)
اس روایت کا راوی العلاء بن زہیر رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے ۔ اس پر حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے لہذا بعض علماء کا اس حدیث کو “منکر” یا ضعیف کہنا غلط ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ :”أن النبیﷺ کان یقصر فی السفر ویتم و یفطر و یصوم”
بے شک نبی ﷺ سفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے۔ روزہ بھی رکھتے تھے اور نہیں بھی رکھتے تھے”
(سنن الدارقطنی ۱۸۹/۲ ح ۲۲۷۵ وقال : وھذا إسناد صحیح)

اس روایت کی سند صحیح ہے ۔ سعید بن محمد بن ثواب رحمہ اللہ سے شاگردوں کی ایک جماعت روایت بیان کرتی ہے ، دیکھئے تاریخ بغداد (۹۵/۹) حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کرکے کہا :”مستقیم الحدیث” یعنی وہ ثقہ ہے۔
(ج۸ ص ۲۷۲)
حافظ دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کی بیان کردہ سند کو صحیح کہہ کر اسے ثقہ قرار دیا۔ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس سے روایت لی ہے (۱۳۴/۲ ح ۱۰۶۲) لہذا اسے مجہول و غیر موثق قرار دینا غلط ہے۔

تنبیہ: عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ :”ان رسول اللہ ﷺ کان یتم الصلوٰۃ فی السفر و یقصر” بے شک رسول اللہ ﷺ سفر میں پوری نماز بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی کرتے تھے۔ (سنن الدارقطنی ۱۸۹/۲ ح ۲۲۷۶ وقال:”المغیرۃ بن زیاد لیس بالقوي” شرح معانی الآثار ۴۱۵/۱ و مصنف ابن ابی شیبہ ۴۵۲/۲ ح ۸۱۸۷ و سندہ حسن)

مغیرہ بن زیاد رحمہ اللہ جمہور کے نزدیک موثق راوی ہے لہذا اس پر “لیس بالقوي“والی جرح مردود ہے۔
خلاصہ یہ کہ نبی کریم ﷺ سے سفر میں پوری نماز پڑھنے کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں پوری نماز پڑھنا ثابت ہے (مثلاً دیکھئے صحیح بخاری: ۱۰۹۰ و صحیح مسلم : ۶۸۵/۱۵۷۲)
تنبیہ: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں وفات تک قصر کرنا بھی ثابت ہے (دیکھئے صحیح بخاری: ۱۱۰۲ و صحیح مسلم ۶۷۹/۱۵۷۹)

مشہور تابعی ابوقلابہ (عبداللہ بن زید الجرمی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :”إن صلیت فی السفر رکعتین فالسنۃ و إن صلیت أربعا فالسنۃ” اگر تم سفر میں دو رکعتیں پڑھو تو سنت ہے اور اگر چار رکعتیں پڑھو تو سنت ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۴۵۲/۲ ح ۸۱۸۸ وسندہ صحیح)

عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا کہ :اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر چاہو تو پوری نماز پڑھ لو (ابن ابی شیبہ ۴۵۲/۲ ح ۸۱۹۱ و سندہ صحیح)

سعید بن المسب رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر چاہو تو دو رکعتیں پڑھو اور اگر چاہو تو چار پڑھو (ابن ابی شیبہ ۴۵۲/۲ ح ۸۱۹۲ و سندہ صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:”التقصیر رخصۃ لہ فی السفر، فإن أتم الصلوٰۃ أجزأ عنہ” سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور اگر کوئی پوری نماز پڑھے تو جائز ہے (سنن الترمذی: ۵۴۴)

امام ترمذی رحمہ اللہ سے امام شافعی رحمہ اللہ تک، ان اقوال کی صحیح سندوں کے لئے دیکھیں کتاب العلل للترمذی مع الجامع (ص۸۸۹) والحمد للہ (۲۷ ذو الحجہ ۱۴۲۶؁ھ)

مسافتِ نمازِ قصر اور مدتِ قصر
ازعثمان احمدحفظہ اللہ
February 6, 2015

سوال: کیا ۱۲ (بارہ) میل سفر کی نیت سے گھر سے نکلا جائے تو نماز قصر کرسکتا ہے ؟ نیز اگر کسی جگہ پر قیام کی نیت چار دن سے زیادہ ہو تو نماز کو پورا پڑھنا چاہیے یا قصر کرنا چاہئے؟ (ایک سائل)

الجواب: صحیح مسلم میں ہے کہ:
“عن یحیی بن یزید الھنائي قال: سألت أنس بن مالک عن قصر الصلوٰۃ؟ فقال: کان رسول اللہ ﷺ إذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ أمیال أو ثلاثۃ فراسخ۔ شعبۃ الشاک۔ صلّی رکعتین“
یحییٰ بن یزید الہنائی سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کے بار ےمیں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ(نو میل) کے لئے نکلتے تھے تو دو رکعتیں پڑھتے ۔ تین میل یا تین فرسخ کے بارے میں شعبہ کو شک ہے ۔ (ح ۶۹۱)

شک کو دور کرتے ہوئے نو میل کو اختیار کریں جو کہ عام گیارہ میل کے برابر ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم گیارہ میل کے سفر پر قصر کرنا جائز ہے ۔

اگر کسی شخص کی نیت چار دن سے زیادہ ہو تو بھی قصر پڑھے گا تاہم روایت ابن عباس کی رو سے اگر اس کا ارادہ بیس دن یا اس سے زیادہ کے قیام کا ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے ۔ صحیح البخاری میں ہے کہ

“عن ابن عباس قال: أقام النبي ﷺ تسعۃ عشر یقصر فنحن إذا سا فرنا تسعۃ عشر قصرنا و إن زدنا أتممنا“
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک جگہ) انیس دن قیام کیا ۔ آپ قصر کرتے رہے ۔ پس ہم جب انیس دن (قیام) کا سفر کرتے تو قصر کرتے اور اگر اس سے زیادہ (قیام) کرتے تو پوری (نماز ) پڑھتے۔ (ح ۱۰۸۰)

اس کے مقابلے میں تین یا چار دن کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.