ناچتے مور اور دم توڑتے لوگ

تھر کا لفظ نیپالی زبان سے نکلا ہے جس کے لفظی معنیہیں بکری نما جانور۔تھر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں صرف اور صرف ریت ہے جو کہ غلط ہے ۔ تھر کے بارے میں جاننے کے لیے آئیے ! تھر کی سرزمین کا ایک تفصیلی جائزہ لیں ۔ یہ دنیا کا سرواں بڑا صحرا ہے جس کا کچھ حصہ بھارت میں ہے جبکہ کچھ حصہ پاکستان میں ۔ تھر کا وہ رقبہ جو پاکستان میں واقع ہے وہ ۲۲۰۰ مربع میل پر مشتمل ہے۔ تھر کی سرزمین سندھ اور پنجاب میں واقع ہے ۔ یہاں کی آبادی کم و بیش ڈیڑھ کروڑ ہے ۔۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ ہزار سال پرانی تہذیب کا مالک یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے بارے میں لوگ اس حد تک نہیں جانتے جس حد تک اس علاقہ کی تہذیب قابل ِ تحقیق اور قابلِ ستائش ہے ۔ ۔یہاں کے لوگوں کی زبان سندھی ہے اور لوگ بے حد ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں تھر ، برِاعظم ایشیا ء کا وہ واحد ایسا صحرا ہے جہاں انسانی آبادی بڑی تعداد میں موجود ہے ۔

یہاں کثرت سے پایا جانے والا پودا تھوہر اورایسے پودے ہیں جس کی بیرونی سطح سخت اور کانٹے دار ہوتی ہے ۔ یہ پورے مختلف بیماریوں کے علاج کے طور پر استعمال کیے جا تے ہیں ۔ ان کی طب میں ایک خاص حیثیت ہے ۔تھوہر کے علاوہ اس علاقے میں کانٹے دار جھاڑیاں پائی جاتی ہیں جو انواع و اقسام کے جانوروں ، کیڑے مکوڑوں کو پناہ دئیے ہوئے ہیں ۔ یہاں پائے جانے والے جانوروں میں اونٹ سب سے اہم ہے ۔ اس علاقے میں ۱۴۱ نسل کے نایاب پرندے پائے جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اقسام مور کی ہے ۔۔تھر میں پائے جانے والے مور اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔شام ہوتے ہی یہ مور جھاڑیوں سے نکل آتے ہیں اور علاقے میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تھر کو موروں کے ناچنے کی جگہ کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے ۔یہاں کے لوگوں کی گزر بسرکا انحصار ۸۰ فی صد بارش پرہے ۔ زراعت کا شعبہ اس علاقہ میں نہ ہونے کے برابر ہے ، جبکہ زیادہ تر آبادی کا انحصار مویشیوں خصوصا بکری ، بھیڑ اور اونٹ کی افزائش پر ہے۔

اگر موسموں کا ذکر کیا جائے تو اس علاقے میں موسم گرماسخت ترین اور طویل ہوتا ہے جب درجہ حرارت ۵۰سے ۵۵ ڈگری سنٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے ۔ یہاں موسم سرما شدید نہیں ہوتا ۔موسم گرما تو ایک جانب موسم سرما میں بھی تھر کا درجہ حرارت ۲۵ ڈگری سنٹی گریڈ سے کم نہیں ہوتا ۔موسم سرما یا گرما میں اس علاقہ میں قابل ِ ذکر بارش نہیں ہوتی ۔ بارش اس علاقیکو صرف مون سون میں سیراب کرتی ہے ۔مون سون میں ہونے والی بارش کا پانی قدرتی طور پر بنے ہوئے تالابوں اور جوہڑوں میں محفوظ ہو جاتا ہے ۔اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی متبادل ذرائع موجود نہیں یہاں تک کہ تالاب تک پکے نہیں کیے گئے ۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے یہاں قدرتی تالاب اور جوہڑ ہی واحد ذرایعہ ہیں جن میں جب پانی جمع ہو جاتا ہے تو لوگ اہنے گھروں کے استعمال کے لیے ، پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔لوگ دور دراز سے پانی کو جمع کر نے کے لیے ان جوہڑوں اور تالابوں کا رخ کرتے ہیں خصوصا خواتین گھڑے اور گھاگریں اٹھا کر پانی بھرنے کے لیے کوسوں دورجاتی ہیں ۔ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی درجہ حرارت میں اضافہ اس پانی کو بخارات کی صورت میں ہوا میں تحلیل کر دیتا ہے یا ریت اس پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔پانی کی غیر موجودگی نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا با عث بنتی ہے بلکہ اس سے پودوں اور جانوروں کی افزائش بھی رک جاتی ہے ۔الغرض یہ علاقہ ہر پچھلے کئی سالوں سے غذائی قلت اور پانی کے بحران کا شکار رہا ہے ۔انھی جوہڑوں اور تالابوں کے پانی سے انسان اور مویشی دونوں ہی سیراب ہوتے ہیں ۔ ا س پانی کی صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں جس کی جان قحط سالی اور بھوک سے بچ جائے وہ بیماری کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

پانی کی ناکافی فراہمی اور صحت کی ناپید سہولیات اس علاقے میں وسیع پیمانے پر ہونے والی اموات کی بنیادی وجہ ہیں ۔ پچھلے تین سالوں میں ۱۲ سے کم عمر بچوں کی اموات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔ موسم گرما کی شدت اور طوالت کے باعث یہ اس علاقہغذائی قلت ، پانی کی کمی کا شکار رہتاہے ۔آج تک کسی حکومت نے اس علاقے میں پانی کی فراہمی کے نہ تو دوسرے ذرائع مہیا نہیں کیے اور نہ ہی موجودہ پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیرِ زمین کوئی ٹینک یا کاریز بنائے گے ۔ پانی کیبحران کی یہ بنیادی وجہ ہے کہ اس علاقہ میں مون سون کے پانی کو نہ تو صاف کرنے کے کوئی ذرائع موجود ہیں اور نہ ہی محفوظ کرنے کے۔

پانی کا بحران ہو یا صحت عامہ کے مسائل یہ علاقہ حکمران طبقے کی جانب سے مسلسل بے توجہی کا شکار رہا ہے ۔ اس علاقہ میں صحت کی سہولیات بھی نایاب ہیں ۔ اگر کسی شخص کوکوئی بیماری لاحق ہو جائے تو اسے اسی علاقے کے طبیب سے علاج کروانا ہو تا ہے کیونکہ صحت کی سہولیات اس علاقہ سے کسی کوس دور ہیں ۔ ۲۲۰۰ مربع میل کے رقبہ اور ایک کروڑ آبادی کے لیے دور دور تک کوئی سرکاری ہسپتال موجود نہیں ۔ قریب ترین سرکاری ہسپتال بھی تھر سے متصل شہروں میں موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔

تھر وہ علاقہ جہاں کل تک مور ناچا کرتے تھے آج وہاں موت کا رقص جاری ہے ۔موت کے مہیب سائے نہ جانے کتنے ہی سالوں سے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیئے ہوئے ہیں ۔ جس کی بنیادی وجہ ہمارے ملک کی حکومتیں ہیں ۔حکومت چاہے صوبائی ہو یا وفاقی ، جمہوریت ہو یا آمریت اس علاقے کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے ۔ یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ تھر کا وہ علاقہ جسے اگر توجہ دی جاتی تو پوری دنیا کے سیاحوں کی نگاہوں کامرکز ہوتا ، آج وہ ہمارے حکمرانوں کی بے توجہی کی وجہ سے موت ، قحط اور بیماری کی آماجگاہ بن چکا ہے۔تھر صرف قحط ، بھوک اور موت کی بستی نہیں ، یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں کے لوگ محبت سے گندھے ہیں اور اس زمین کے خدوخال اپنی مثال آپ ہیں ۔ان لوگوں کی بحالی کے لیے چند ایک غیر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے علاوہ حکومتی سطح پر کسی قسم کی کوئی عملی سرگرمی نظر نہیں آتی ۔اگرچہ ٹاک شوز میں گھنٹوں اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی ہے ۔ صوبائی حکومت ، وفاق اور وفاق صوبائی حکومت پر الزام دیتا آیا ہے لیکن عملی کوشش کسی نے نہیں کی ۔

المیہ یہ ہے کہ ایک جانب تو ملک میں اربوں ڈالر کی رقوم کے استعمال سے بڑے بڑے ہسپتال ، فلائی اور بنائے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب دم توڑتے ہوئیبچے وفاق ، صوبے ، حکومت اپوزیشن سب کی جانب یہ امید لگائے جان کی بازیاں ہارتے جا رہے ہیں کہ کوئی ان کی جانب توجہ کرے گا ۔ ایک صوبے مں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں دوسرے صوبے میں طلباء کو مفت لیپ ٹاپ دئے جا رہے ہیں ۔ اسی سندھ کے صوبہ میں سندھ فیسٹیول پر کئی کروڑ روپے لگائے جاتے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتیں بے بہا پیسہ لٹا دیتی ہیں لیکن ان بے بس اور لاچار لوگوں کی امداد کرنے کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آتا ۔یہ علاقہ بھی ہمارے ہی ملک کا حصہ ہے ، یہ ہمارے ہی بچے ، ہماری ہی مائیں بہنیں ہیں ہمارے ہی ملک کے جوان ہیں۔ میرا موقف یہ نہیں کہ ملک میں ترقیاتی کام نہ ہو ں بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ ان ترقیاتی کاموں کے بجٹ کا کچھ حصہ ان جانوں کو بچانے کے لیے ، ان پیاس اور بھوک سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیے استعمال کیا جائے ۔اگر حکمران طبقہ ، ملک کا مخیر طبقہ اپنے اخراجات کا کچھ حصہ جان سے ہارتے ہوئے ان بچوں پر لگائیں تو کئی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164628 views i write what i feel .. View More