طلحہ السیف
حضور اکرم ﷺ کی اخبار صادقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دجّال‘‘ قرب قیامت میں
ظاہر ہوگا۔ وہ زمین پر اترنے والے فتنوں میں سب سے بڑا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ اس
کو استدراجاً یہ قوت عطا فرمائیں گے کہ مردوں کو زندہ کر دیا کرے گا۔ سخت
قحط کے زمانے میں رونما ہو کر امت کے ایمان کا امتحان لے گا اور اپنے ماننے
والوں پر بارش برسائے گا، زمین سے اناج اگائے گا اور رزق کی بارش کر دے گا
جبکہ منکرین﴿مومنین مخلصین﴾ پر تنگی کر دے گا۔ اس کے ساتھ جنت ہوگی جو
درحقیقت جہنم ہوگی جو اس کی جنت کی لالچ میں کافر ہو کر اس میں داخل ہو گا
گرمی اور جلن محسوس کرے گا اور جو اس کی جہنم سے نہیں ڈرے گا اور ایمان پر
قائم رہے گا وہ اس جہنم میں ڈالے جانے پر آرام وسکون پائے گا۔ زمین پر اس
کا قیام چالیس دن کا ہوگا جن میں سے پہلا دن ایک سال کے برابر، دوسرا ایک
ماہ اور تیسرا ایک ہفتے کے برابر ہوگا پھر ایام اپنی اصل حالت پر آجائیں گے۔
اس کے علاوہ اور کئی نشانیاں ہیں جو اکابر علما کرام نے ہر زمانے میں بیان
فرمائیں اور اپنی کتابوں میں لکھیں۔
دجّال کے حوالے سے ہمارے ہاں آج کل تین نقطہائے نظر یا تین رویّے موجود ہیں۔
﴿۱﴾ کچھ لوگ دجال کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ کسی شخصیت کا نہیں
ایک نظام کا نام ہے جو کفر کو پھیلانے کے لئے دنیا میں رائج کیا جا رہا ہے
اور اسی کی انتہائی طاقت کو دجال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس بے دست وپا
نظرئیے کے حاملین اس کے حق میں سائنسی توجیہات کا انبار لگاتے ہیں اور ساتھ
ہی ان کے خیال میں اس کی سب سے مضبوط’’عقلی‘‘ دلیل یہ ہے کہ کسی شخص میں
ایسے اوصاف کا جمع ہونا اور اس کا اس قدر طاقتور ہونا عقلاً ممکن نہیں۔ اس
نظرئیے کے ابطال کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں صرف وہ احادیث مبارکہ جن
میں دجال کا آنااور فساد پھیلا کر حضرت عیسیٰ علی نبیناو علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے ہاتھوں قتل ہونا وارد ہے اس نظریئے کے بطلان کی کافی دلیل ہیں۔
حضور ﷺ نے اتنے کامل انداز میں اس شخص کا ذکر فرمایا ہے کہ اس کے ماں باپ
کا حلیہ، اس کی قومیت، عادات، جسمانی ساخت، حرکات اور مقتل تک کے بارے میں
اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔ اس لئے دجال کی شخصیت کا انکار درحقیقت ان تمام
احادیث کا انکار ہے. ہم یہاں اس نظریئے سے زیادہ بحث نہیں کرتے۔
﴿۲﴾ دجال اور قرب قیامت کے دیگر احوال کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا عمل یہ
تھا کہ آپ ﷺ نے ان واقعات واحوال کو تفصیل کے ساتھ امت کے سامنے رکھا، ہر
بات کھول کھول کر بیان فرمائی، ہر فتنے کے مضمرات اور اس سے بچاؤ کا مکمل
نصاب ارشاد فرمایا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا بھی اس
حوالے سے یہی طرز عمل رہا اور ان کے بعد کے زمانے کے علما کا بھی، مگر آج
کے زمانے میں علما کرام و خطبا عظام کا عمومی طرز عمل یہ ہے کہ منبر ومحراب
ان فتنوں کے تذکرے سے خالی ہیں، عوام کی اکثریت دجال کے نام سے ہی واقف
نہیں، انہیں قطعاً علم نہیں کہ اس فتنے کے خدوخال کیا ہیں اور اس سے بچاؤ
کی تدابیر کیا ہیں؟ دجال کس طرح ایمان خطرے میں ڈالے گا، اس کے ہاتھوں
پہنچنے والے مصائب کے وقت مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا وغیرہ۔
غالباً علما کرام کے خیال میں دجال کی آمد کا وقت دور ہے اس لئے اس موضوع
کو زیادہ زیر بحث نہیں لایا جارہا تو یہ سوچ بھی درست نہیں، نبی کریم ﷺ کو
یقینی طور پر علم تھا کہ دجال آپ ﷺ کی موجودگی میں نہیں آسکتا۔ یہ خبر بھی
آپ ﷺ نے اپنی جماعت کو ارشاد فرما دی تھی کہ دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ
ہو سکے گا مگر پھر بھی آپ ﷺ نے صحابہ کرام(رض) کو دجال سے اس قدر ڈرایا اور
ایسے انداز میں اس کا تذکرہ فرمایا کہ عورتیں گھروں میں آٹا گوندھنا بھول
گئیں۔ تو آج کے دور میں اس بیان سے غفلت اور پہلو تہی کس طرح روا ہو گی
جبکہ فتنے اس طرح نازل ہو رہے ہیں جس طرح آسمان سے بارش اترتی ہے۔
﴿۳﴾ تیسرا طرز عمل بعض ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دجال، یہودیت اور ان سے
متعلقہ مباحث کو اپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا ہے۔ ہمارے خیال میں اس
حد تک تو یہ محنت بہت مثبت اور اچھی ہے کہ اس سے دجال کا تعارف اور فتنہ
دجال کے خدوخال لوگوں کے سامنے آرہے ہیں مگر اب بعض اطراف سے اس باب میں اس
قدر غلو سامنے آرہا ہے کہ دنیا میں ہونے والا ہر کام دجال اور یہودیوں کے
کھاتے میں ڈال کر ان کی طاقت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر امت کے سامنے لایا
جارہا ہے کہ لوگ عمل سے معطل ہو کر چھپنے اور ان سازشوں کے آگے سرنگوں ہونے
کے خیالات میں مبتلا ہیں۔
بزدلی اور کم ہمتی مسلمانوں کا اس زمانے میں شعار بن چکی ہے، امریکہ کی
طاقت، ٹیکنالوجی کی پراسرار دنیا اور خصوصاً اپنی طاقت کے بارے میں امریکہ
اور یورپ کے جھوٹے پروپیگنڈے نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس اچھی طرح
بٹھا دیا ہے کہ ان کا مقابلہ مسلمان کے بس کی بات نہیں۔ مسلمان یہ سوچ کر
جہاد اور جدوجہد سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں دنیا میں ہونے
والے ہر کام کے پیچھے’’دجال‘‘ کی آنکھ اور یہودیت کی تکون زبردستی دکھائی
جائے تو ان کی رہی سہی ہمت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ ہمارے خیال میں ایسا کرنے
والے اس امت کو سوائے چند لفظی مباحث اور گرما گرم معلومات کے کوئی فائدہ
تو نہیں پہنچا رہے ہاں نقصان کافی کر رہے ہیں۔ ہم نے اب تک جتنے لوگوں کو
اس’’دجالیت جدیدہ‘‘ کے بارے میں زیادہ معلومات والا دیکھا ہے اسے ’’کام‘‘
سے معطل ہی پایا ہے۔
کفر کی طاقت کے بارے میں قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ اہل
ایمان کو یہ طاقت کمتر کر کے دکھاتے ہیں۔
ان کیدا لشیطان کان ضعیفاً
ذلکم وان اﷲ موھن کید الکافرین
ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین
اﷲ تعالیٰ نے یہود کو کس انداز میں خطاب فرمایا جب انہوں نے مسلمانوں کو
چیلنج کیا کہ انہیں مشرکین کی طرح کمزور نہ سمجھا جائے وہ جب میدان جنگ میں
آئیں گے تو اور ہی منظر دکھائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اور
انہیں بھی بدر کی طرف متوجہ فرمایا۔ آپ قرآن کریم کے تمام جہادی واقعات،
مباحث اور تمام آیاتِ جہاد کو بغور پڑھ کر دیکھ لیجئے، احادیث مبارکہ کے
ابواب الجہاد پرکھ لیجئے کہیں بھی اسلام آپ کو کفر کی طاقت، اس کی سازشوں
کے جال کی وسعت اور ہمہ گیری کے گن گاتا یا سناتا نظر نہ آئے گا اور اسلام
کا یہ اسلوب یہ بات اچھی طرح سمجھا رہا ہے کہ اﷲ رب العزت مسلمانوں کے
اذہان کو باطل کی قوت، طاقت اور وسائل سے پھیرنا چاہتے ہیں اس لئے ان کی
کمزوریوں کا بیان تو ہر جگہ ملے گا طاقت کا نہیں۔ اس کے برخلاف یہ طرز عمل
کہ ہر کام، ہر واقعہ ہر تبدیلی کے پیچھے کانی آنکھ اور تکون ڈھونڈی جائے
اور پھر اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جائے مسلمانوں کے ذہنوں میں مزید پستی اور
کمزوری لانے کا یقینی سبب بن رہا ہے۔ اﷲ رب العزت تو یہ فرمائیں کہ کافر
کچھ نہیں کر سکتے اور ہم یہ کہتے پھریں کہ سب کچھ کر ہی وہ رہے ہیں، دنیا
میں جو کچھ ہو رہا ہے ان کی مرضیات اور’’پروٹوکولز‘‘ کی روشنی میں ہو رہا
ہے آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ یہ طرز عمل اور زاویہ فکر قرآن کے موافق ہے
یا مخالف؟
جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا کہ قیامت تک آنے والے فتنوں سے عوام کو
آگاہ کرنا خصوصاً دجال کے فتنہ کبریٰ سے آگاہی دینا علما کرام کا فریضہ ہے
جس سے غفلت خطرناک نتائج لارہی ہے اور یہ بھی عرض کیا کہ علما ربانیین کی
ہر زمانے اس فتنے کے بارے میں زبانی وقلمی خدمات موجود ہیں مگر کیا ہمیں
سلف میں بھی اس باب میں یہ طرز عمل ملتا ہے کہ ان لایعنی مباحث پر زور بیان
و زور قلم صرف کیا جائے کہ دجّال کہاں ہے؟ برمودا کیا ہے؟ سمندر میں کبھی
جہاز اور کبھی ان کی سواریاں کون غائب کرتا ہے؟ بیت المقدس پر قبضے کے لئے
فری میسن نے کیا کردار ادا کیا؟ کبالہ کیا ہے اور اس کی کیا خدمات ہیں؟
وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا خیال بلکہ یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اب تک جو کچھ
بیان کیا جاتا رہا احادیث مبارکہ کی ضوئ میں ہوا، ترجمہ یا کچھ تشریح۔ تو
آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ اسلاف کے طرز عمل سے ہٹا ہوا یہ کام امت کو کچھ دے
سکتا ہے یا رہا سہا بھی لے جائے گا؟
اہل یورپ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کا جھوٹا پروپیگنڈا بہت کرتے
ہیں اور جس نظرئیے کو زمانے میں پھیلانا چاہیں میڈیا کا ہتھیار استعمال کر
کے اسے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں۔ مقصد اس سے ان کا یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں
کو ذہنی طور پر مرعوب کیا جائے اور انہیں پست ہمت بنایا جائے۔ امریکہ اور
یورپ اپنے اسلحہ کے بارے میں جو لکھتے اور لکھواتے ہیں یہ 90فیصد جھوٹ ہوتا
ہے، سیٹلائٹوں کی جو طاقت بتاتے ہیں حقیقت میں اس کا نصف بھی ان کو حاصل
نہیں۔ یہ1996 کی بات ہے ، ہم تربیت کر رہے تھے، ہمارے استاد ایک انگریزی
کتاب لائے جو ایک امریکی بحری جہاز سے متعلق تھی۔ یہ جہاز امریکہ نے بنالیا
تھا مگر سمندر میں نہ اتارا تھا۔ کتاب میں لکھا تھا کہ اس جہاز کا دفاعی
نظام اس قدر طاقتور اور جدید ہے کہ اگر اس پر بیک وقت سو میزائل آسمان سے
یا سمندر کے اندر سے فائر کئے جائیں تو یہ ان سب کو ناکارہ بنا دے گا اگر
ایک سو ایک ہوں گے تو صرف ایک اس تک پہنچ پائے گا، اور بھی کئی باتیں تھیں
ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اتنے ممالک نے امریکہ کو اس جہاز کی تیاری کا آرڈر دے
دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد’’یو ایس ایس کول‘‘
نامی اس جہاز کو سمندر میں اتارا گیا اور چند ہی دن بعد دو عرب مجاہدین نے
ایک کشتی میں بارود بھر کر اسے اس جہاز سے ٹکرا دیا اور طاقت کا یہ دیوتا
سمندر میں غرق ہو گیا۔ دنیا بھر میں اس کا جنازہ امریکی بحری بیڑے پر لے
جاتا دکھایا گیا۔ اسی طرح افغانستان میں امریکی حملے کے وقت جہازوں سے
پمفلٹ گرائے جاتے تھے جن میں امریکی فضائی قوت کے بارے میں محیر العقول
باتیں درج تھیں مقصد یہ تھا کہ مجاہدین اس سے خوف کھا کر بھاگ جائیں مگر
وقت نے خود ہی امریکہ کے ان دعوؤں کو جھوٹا ثابت کر دیا ۔ یہ پروپیگنڈہ جنگ
کا ایک لازمی حصہ ہے اور بعض اوقات صرف یہی پروپیگنڈہ بڑی بڑی فوجوں پر
بھاری پڑجاتا ہے اور جنگ کا نقشہ بدل دیتا ہے۔ ایسے میں آپ خود ایک فیصلہ
کریں۔ دجالیت، یہودیت، صہیونیت، صلیبیت وغیرہ کے خلاف اس بڑی جنگ میں
اسلامی لشکروں کا معاون کونسا قلم ہو گا؟ امریکی، یورپی یا ان کے وظیفہ
خوار کالم نگاروں، تجزیہ کاروں کی رپورٹوں کا ترجمہ امت کو سنانے والے یا
میدان جنگ میں مجاہدین پر اترتی اﷲ رب العزت کی نصرت، مجاہدین کی فاتحانہ
یلغار اور فداکاریوں کی داستانیں لکھنے والے؟ امریکی اور مغربی ٹیکنالوجی
کی پراسراریت سے امت کو آگاہ کرنے والے یا اس ٹیکنالوجی کی قدم برقدم ذلت و
ناکامی کی کہانی لکھنے،بتانے والے؟ فیصلہ آپ کیجئے ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔
اہل باطل کا ایک شیوہ یہ ہے کہ وہ ہر بڑے واقعہ کی جھوٹی نسبت اپنی طرف
کرتے ہیں تاکہ باور کراسکیں کہ جو ہوا ان کی مرضی کے مطابق ہوا مسلمان ان
کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور نہ ہی دنیا میں ان کی مرضی کے خلاف کچھ ہو سکتا
ہے۔ اس ضمن میں وہ بعض ایسے حادثات بھی اپنی جانب منسوب کر لیتے ہیں جن میں
ان کا عظیم نقصان ہو چکا ہوتا ہے مگر وہ اسے اس لئے گوارہ کر لیتے ہیں کہ
مال و جان کا نقصان تو برداشت مگر ناک نہ گرنے پائے۔ مسلمانوں نے ورلڈ ٹریڈ
سنٹر گرائے، پینٹاگون جو دنیا میں’’سمبل آف پاور‘‘ کہا جاتا ہے اسے آگ
لگادی، عراق و افغانستان میں امریکہ اور اس کے حواریین کو خاک چٹا دی، مغرب
نے جب دیکھا کہ اس طرح تو اس کی عزت و رعب ہی خطرے میں ہے کہ امریکہ جیسے
مضبوط و محفوظ ملک کے طیارے کس طرح آسانی سے اغوائ ہو گئے؟ کس طرح ان کے
روٹ تبدیل ہو گئے اور کنٹرول ٹاور لاعلم رہے؟ عالمی طاقتیں کیونکر
افغانستان و عراق میں ذلت آمیز حالات سے دوچار ہو گئیں تب انہوں نے ان سارے
کاموں کے پیچھے بھی دجّال کی آنکھ اور یہودیت کی تکون لگا دی اورہمارے
ان’’فری میسن‘‘ زدہ قلمکاروں نے فوراً وہ رپورٹیں ترجمہ کر کے امت تک پہنچا
دیں کہ یہ ساری ذلت آمیز شکستیں کفر خود کھا رہا ہے اپنی مرضی سے اپنے
منصوبے کے مطابق۔ تاکہ کوئی شخص اﷲ کی طاقت پر ایمان نہ لے آئے اور جہاد کی
حقانیت کا قائل نہ ہو جائے۔ اب اس ’’خدمت اسلام‘‘ کو کیا نام دیا جائے؟
اس حوالے سے جو کچھ لکھا جارہا ہے اگروہ ان محققین کا اپنا زور تحقیق ہوتا
تو اس کا حق تھا کہ اسے کسی حد تک سراہاجائے کہ بہرحال وہ ایک علمی خدمت
ہوتی مگر حال یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی تمام کتب پڑھ لیجئے وہ
تراجم پر مشتمل ہیں۔انگریزوں نے جو رپورٹیں لکھیں بعض اہل عرب قلمکاروں نے
جو اسی مزاج کے حامل تھے ان کا ترجمہ کر دیا اور ہمارے حضرات چونکہ اکثر
انگریزی سے نابلد ہیں انہوں نے موقع غنیمت دیکھ کر اسے اردو کا پیراہن پہنا
دیا۔ اب ان میں جو کچھ لکھا ہے اس کی صداقت جانچنے کا کوئی طریقہ آپ کے پاس
نہیں۔ دجال اب تک برمودا تکون میں جتنے جہاز اور افراد غائب کر چکا ہے اس
کے راوی بھی انگریز ہیں۔ فری میسن کی تمام کارستانیاں بھی اسی سند سے
مسلمانوں تک پہنچ رہی ہیں اور کبالہ اور دیگر بڑے خاندانوں کی یہودیت نوازی
اور اسلام دشمنی کی روایت بھی اسی سلسۃ الذہب سے مروی ہیں۔ امریکی کمپنیوں
اوربینکوں کی داستانیں بھی خود انگریزوں کی بیان فرمودہ ہیں اور آگے آنے
والی خوفناک سازشوں کی ساری کہانی بھی ان کی اپنی سنائی ہوئی ہے ہم فقط
وہ’’تنبورہ‘‘ ہیں جس میں سے آوازِ یار باہر آرہی ہے۔ ہماری اپنی تحقیق اس
باب میںاتنی ہے کہ لاہور کے بعض جوس کارنروں پر جو لڑکے لڑکیاں آپس میں بوس
وکنار اور بے حیائی کے مناظر پیش کرتے ہیں اس کے پیچھے بھی دجّال کی آنکھ
اورفری میسن کا ہاتھ موجود ہے۔ حالانکہ لاہور میں یہ سب کچھ اس وقت بھی
ہوتا تھا جب فری میسن دنیا میں موجودہی نہ تھی۔ بہرحال
اپنی اپنی وسعت فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالَم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
بعض اہل علم حضرات نے ان رپورٹوں کے ترجمے کرتے وقت اپنے مقام و منصب کا
بھی لحاظ نہ رکھا اور ہالی ووڈ کی فلموں اور کارٹونوں میں چھپی دجال کی
آنکھ بھی ڈھونڈ نکالی اور فلموں کے کرداروں کے نام بھی لکھ دیئے۔ اس جگہ
کئی سوالات ضرور ہر قاری کے ذہن میں ابھرے ہوں گے۔
حضرت اقدس نے یہ فلم دیکھی کہاں؟ دیکھ لی تو سمجھی کیسے؟ اگر نہیں دیکھی تو
کس ثقہ شخص کے بیان پر اس کا موضوع ڈھونڈ نکالا؟ اگر انہوں نے دیکھی تو
ہمیں بھی دیکھ لینی روا بلکہ ضروری ہے اور اگر نہیں بھی دیکھی تو ہم سنی
سنائی پرکس طرح یقین کرلیں جب تک کہ دیکھ کر تصدیق نہ کر لیں۔ تو اس طرح
صدقہ جاریہ کی یہ سبیل کھل گئی۔
یہودی ہمیشہ سے سازشی قوم ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی ان کا یہی
کردار تھا کہ اپنے دماغ اور مال کو استعمال کر کے دوسری اقوام کو اسلام کے
خلاف میدان میں رکھیں۔ بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے جب بھی چھینا گیا
اس کے پیچھے یہود کا دماغ، سازشیں اور شرارتیں کارفرما رہیں اور عیسائیوں
نے میدان میں آکر مسلمانوں پر جنگ مسلط کی۔ ان کا یہ کردار نیا نہیں ہے مگر
دیکھنا چاہئے کہ زمانۂ ماضی میں یہود جب اس طرح کی شرارتوں کے ساتھ
مسلمانوں کے مقابل آئے تو ان کا علاج کس طرح کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ
مبارک میں، خلفائ راشدین(رض)(رض) کے مقدس ازمنہ میں اور بعد میں سلطان صلاح
الدین ایوبی(رح) کے زمانے کی تاریخی صلیبی جنگوں کے ادوار میں یہود سے سخت
لڑائی رہی اور ان کی سازشوں کا مسلمانوں کو سامنار ہا مگر کیا کسی زمانے
میں ان سازشوں کو موضوع بنا کر تحقیق و تصنیف کا میدان سجایا گیا یا تلوار
کے ذریعے ان کا علاج کیا گیا؟ تاریخ آپ کے سامنے ہے فیصلہ کر لیں۔ صحابہ
کرام(رض) کے زمانے میں تو تحقیق و تصنیف کا اتنا ر واج نہ تھا مگر صلیبی
جنگوں کا دور تو اسلامی تصنیفات کے عروج کا دور تھا اور اس زمانے میں ہر
علمی، تحقیقی، اخلاقی موضوع پر خوب کتب لکھی گئیں۔ ہمیں تصنیف وتحقیق پر
قطعاً اعتراض نہیں یہ ہر شخص کا حق ہے محل اعتراض وہ بخارہے جو ان چند
نامانوس اصطلاحات کے حوالے سے محققین پر طاری ہے۔
یہود کی ان سازشوں کا ہر زمانے میں علاج صرف اور صرف جہاد فی سبیل اﷲ رہا
ہے۔ جہاد ہوا تو ان کی تمام سازشیں ناکامی سے دوچار ہوئیں خواہ ان کے بارے
میں مسلمانوں کو علم تھا یا نہ تھا مگر ان کے تمام جال ٹوٹتے رہے۔ آج کے
زمانے میں بھی ان کا یہی علاج ہے۔ اور الحمدﷲ علاج کے فوائد کھل کر سامنے
آرہے ہیں۔ امریکہ برباد ہو رہا ہے، یورپ ٹوٹ رہا ہے، نیٹو بکھر رہا ہے، بڑی
بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، شیطانی معیشت تنزلی کا شکار ہے، آج سے
10سال پہلے جن باتوں کا تصور بھی محال تھا آج کھلی آنکھوں ہر شخص انہیں
دیکھ رہا ہے۔ اوریہ سب ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو نہ دجال کے گھر کا پتا
جانتے ہیں نہ فری میسن کا حدود اربعہ۔ نہ کبالہ سے واقف ہیں۔ نہ خفیہ لاجز
کی پراسراریت سے۔ نہ انہیں پروٹوکولز کا علم ہے نہ سازشوں کی فکر۔ ہم نے نہ
ملا عمر مجاہد کو کبھی اس فکر میں مبتلا دیکھا نہ اسامہ بن لادن کو۔ نہ
مولانا محمد مسعود ازہر کو اس بارے میں فکر مند پایا نہ ابو مصعب زرقاوی کی
کوئی تقریر ایسی سنی اور ان تمام لوگوں نے مل کر آج کفر کوتباہی کے دھانے
پر لا کھڑا کیا ہے۔
عالمی سازشوں کے جو محققین ہیں ان کی معلومات کی درستگی اور انداز تحقیق کی
سلامتی کا اندازہ ایک چھوٹے سے بالکل سچے واقعہ سے لگائیے!
گزشتہ سال۷۲ رمضان المبارک کو کابل میں ایک فدائی حملہ ہوا، طالبان کے ایک
۷۱ سالہ فدائی نے اٹلی کی فوجی گاڑیوں کے ایک کانوائے کو نشانہ بنایا۔ اس
حملے میں اٹلی کا ایک بہت بڑا افسر مارا گیا جس کی لاش وصول کرنے اٹلی کا
صدر خود ائیر پورٹ پر آیا۔ 6لاکھ لوگوں پر مشتمل جنازہ ویٹی کن گیا جہاں
تین گھنٹے تک اس کی آخری مذہبی رسومات ادا کی گئیں۔ تین گھنٹے تک یہ رسومات
براہ راست اٹلی کے چینلز پردکھائی گئیں جن کی ویڈیو بعض مجاہدین کے پاس
موجود بھی ہے اس کارروائی کے کچھ عرصہ بعد ایک بڑے نامی گرامی محقق نے
تجزیاتی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی کہ طالبان کو کس طرح اس آفیسر کی کابل
موجودگی کا علم ہوا یہ کیسے پتا چلایا گیا کہ وہ آج کابل سے اٹلی واپس
جارہا ہے، کانوائے کی شناخت کس طرح کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ کئی کروڑ ڈالر کے
اخراجات بتائے اور ساتھ یہ بھی کہ اٹلی کے مخالف ایک پورپی ملک نے طالبان
کو یہ معلومات فراہم کیں تاکہ وہ اٹلی سے اپنا بدلہ اتار سکے۔ جبکہ طالبان
نے اپنے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ ان کا یہ فدائی کسی اور ٹارگٹ پر حملہ
کرنے گیا تھا۔ وقت پر نہ پہنچ پایا اور وہاں حملہ ممکن نہ ہوسکا اس نے یہ
کانوائے نکلتا دیکھا تو یہ موقع غنیمت جان کر اس سے جا ٹکرایا اور یہ واقعہ
رونما ہو گیا۔
اس بات کو بیان کر نے کا مقصد یورپی محققین کی فکر کا انداز عرض کرنا ہے کہ
وہ ہر کام میں اپنا حصہ اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ باور کراسکیں کہ مسلمان خود
انہیں ایسا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ مجاہدین کے خلاف
یہ پروپیگنڈہ بھی طاقت پا سکے کہ مجاہدین ان خفیہ ایجنسیوں کے تعاون کے
بغیر نہیں چل سکتے۔
اور وہ اپنی دونوں کوششوں میں کامیاب جارہے ہیں کیونکہ ہم میں کئی لوگ کار
ثواب یا وسیلہ ناموری سمجھ کر ان رپورٹوں کا گند اپنی زبان میں منتقل کر کے
امت کے ذہنوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
ان تمام معروضات کا مقصد اپنے جماعت سے وابستہ بھائیوں کو صحیح طرز عمل اور
طرز فکر کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ طلبہ کرام آج کل ان جدید تحقیقات سے بہت
مرعوب ہیںا ور جہاںبھی جانا ہوتا ہے ان کی طرف سے اس حوالے سے سوالات کی
بھرمار ہوتی ہے۔ ہماری عرض یہ ہے کہ دجال جہاںبھی ہے جو کچھ بھی کر رہاہے
اس کا علاج جہاد سے ہوناہے۔ یہودیت کی تمام سازشوں کا توڑ جہاد ہے۔ فری
میسن جو بھی ہیں ان کے تمام مکاید کی بربادی جہاد سے ہوگی۔ امریکہ، یورپ،
کبالہ، دنبالہ تمام شیاطین جہاد کے ذریعے ہی ختم ہوں گے۔ اس لئے آپ ان لفظی
چکروں میں پڑنے کی بجائے جہاد کی دعوت دیں، نظریۂ جہاد پھیلائیں، مجاہدین
کے دست و بازو بنیں اور ان کا پیغام امت تک پہنچائیں۔ ہر چیز کے پیچھے آنکھ
اور تکون ڈھونڈنے کی بجائے اﷲ کی نصرت،قرآن کی ہدایت اور آقا ﷺ کی سچی
پیشین گوئیاں ڈھونڈیں۔ امت اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اسے تصویر کا یہ رخ
دکھانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ مسلمان اپنے مرکز کو لوٹیں اور اﷲ تعالیٰ کی
طاقت کو مانیں۔
دجال، حضرت مہدی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا حق ہے، بڑی جنگوں کی سچی
خبریں احادیث میں وارد ہیں ان کا بیان ضرور کریں بلکہ زیادہ کریں مگر قرآن
و حدیث کی روشنی میں اور اتنا ہی جتنا کہ وارد ہوا ہے۔
اﷲ رب العزت ہم سب کو حق پر چلنے اور حق دکھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
والسلام |