روس سے تعلق رکھنے والے شسلف
پولو سن اپنے معاشرتی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔
وہ عیسائیوں کے فرقے روسی آرتھوڈ کس سے متعلقہ چرچ کے پادری تھے ۔ ۱۹۹۱ﺀ
میں وہ آنجہانی سپریم سوویت کی پارلیمنٹ ڈوما کے رکن منتخب ہوئے اورڈوما
میں انہیں ’’ کمیٹی برائے آزادی ضمیر عقیدہ اور خیراتی کام ‘‘ کا چیئرمین
بنا دیا گیا ۰۰۰۲ ﺀ میں جب انہوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو
دنیائے عیسائیت میں ایک تہلکہ مچ گیا ۔ سیاسی سطح پر ان کے خلاف خوب
پروپیگنڈہ کیا گیا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا اسلام کے ساتھ والہانہ
تعلق بڑھتا چلا گیا اور ان کی جرأت و استقامت کی داستان عام ہوئی تو دنیا
بھر کے رسائل و جرائد ان سے انٹرویو لینے کیلئے ٹوٹ پڑے۔
اپنے ان انٹرویوز میں انہوں نے تفصیل سے اُن وجوہات کا ذکر کیا ‘ جن کے
نتیجے میں انہوں نے عیسائیت سے توبہ کرکے اسلام قبول کیا تھا ۔ ایک انٹرویو
میں انہوں نے کہا :
’’ بائبل اس کے سوا اور کیا ہے کہ اس میں سچ اور حق کو یعنی اللہ تعالیٰ کی
وحی کو انسانوں کی کہانیوں کے ساتھ اس طرح ملا دیا گیا ہے کہ افسانہ اور
داستان طرازی سچ کے اوپر غالب آگئی ہے اور کوئی بھی شخص کہانی کو حقیقت سے
الگ نہیں کر سکتا ۔ جب ’’ جرمیاس ‘‘ جیسا عیسائی عالم بھی بائبل کی اس کمی
کو تسلیم کرتا ہے تو ایک عام عیسائی کے پاس کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ اس دوران
میں نے آرتھر اور فریڈرک کا مطالعہ بھی کیا‘ ان میں سے کوئی بھی عیسائیت کے
بارے میں میری بے چینی کا علاج نہیں کر سکا ‘‘۔
بائبل کے بارے میں شسلف پولوسن کا تبصرہ حرف بحرف صحیح ہے جیسا کہ ابھی آگے
چل کر ہم عرض کریں گے لیکن پہلے ان کی چند مزید دلچسپ باتیں سنتے ہیں:
’’ اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک وقت وہ آیا کہ میں نے یونیورسٹی میں عربی
زبان سیکھنی شروع کردی ۔ صرف قواعد اور صرف و نحو پر عبور حاصل کرنے میں
مجھے ایک سال لگ گیا ۔ عربی پر پورا عبور حاصل کرنے کیلئے میں نے قاہرہ
جانے کا فیصلہ کیا تاکہ نجی طور پر یہ زبان سیکھ سکوں ۔ مصر میں مجھے ایسے
تجربات ہوئے جن کی وجہ سے اسلام پر میرا یقین پختہ ہو گیا ۔ مصر میں میری
اچھے اور برے ہر طرح کے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی لیکن میں نے ان پر قرآن کا
وہ گہرا اثر دیکھا جو مجھے پوری عیسائی دنیا میں عیسائیوں پر بائبل کا کہیں
نظر نہیں آتا ۔
دریائے نیل کے کنارے ’’ میتاس گارڈنز‘‘ میں چہل قدمی کرتے ہوئے میں نے ایک
شخص کو دیکھا جو پانی کی طرف رخ کر کے گتے کے ایک ٹکڑے پر نماز ادا کر رہا
تھا ۔ اس کی حالت سے اس کی غربت اور مفلوک الحالی ظاہر ہو رہی تھی ۔ میں اس
کے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا لیکن اس وجہ سے رک گیا کہ اس کی توجہ میں
مداخلت نہ ہو ۔ لیکن وہ نماز میں اس قدر گم تھا اور اپنے رب کے ساتھ اس کی
توجہ اتنی گہری تھی کہ وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر نظر آ رہا تھا ۔
ایسی توجہ اور ایسا ادراک میں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا ۔ میں
تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ انسان اپنے خالق و مالک سے ایسا گہرا تعلق
پیدا کر سکتا ہے۔ میں نے ایسی توجہ اور ایسا تعلق کبھی کسی پادری کا خدا سے
قائم ہوتے نہیں دیکھا تھا ‘‘۔
اگر ہم شسلف پولسن کے گزشتہ بیانات کو ایک مرتبہ پھر پڑھیں تو ہمیں عیسائی
دنیا کا کھوکھلا پن صاف نظر آئے گا اور وہ دوبڑی وجوہات بھی سامنے آئیں گی
جن کی بنا پر عیسائی عام طور پر اپنے مذہب سے بیگانہ ہو رہے ہیں ۔ ان میں
سے پہلی وجہ ’’ بائبل ‘‘ میں تحریف و تبدیلی ہے ‘ جس کے بعد اب اس کو کلام
الٰہی کہنا محض سینہ زوری ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عیسائی دنیا مادیت کی
ظاہری چکا چوند میں ایسی کھوئی ہے کہ اب مذہب سے اس کا تعلق محض رسمی اور
سرسری قسم کا ہے ‘ اس تعلق میں کوئی والہانہ پن یا روحانیت کی گہرائی شامل
نہیں ۔
یہ حقیقت واقعہ ہے کہ وہ ممالک جو مذہباً عیسائی کہلاتے ہیں ‘ وہاں عوام اس
مذہب کی بے جان رسوم کی وجہ سے تیزی سے اپنے مذہب سے برگشتہ ہو رہے ہیں ۔
گرجا گھر ویران ہو رہے ہیں اور کلیسا میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر
ہے ۔ دین عیسوی کو اس کے آغاز میں ہی عیسائیت کے بد ترین دشمن پولوس نے
منافقت کا لبادہ اوڑھ کر مسخ کر ڈالا اور وہ توحید کے بجائے حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ اور پاک دامنی کے بجائے کفارہ ‘
شراب ‘ مردار اور خنزیر کی حلّت کو عیسائیت میں شامل کرنے میں کامیاب ہو
گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج لوگ جس مذہب کو عیسائیت کہتے ہیں ‘ وہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے ۔
اب چونکہ اس مذہب کو اپنے ممالک میں تو توجہ اور پناہ نہیں مل رہی اس لیے
عیسائی مشنری رضا کار مختلف حیلوں بہانوں سے اسلامی ممالک میں اپنی ارتدادی
سرگرمیوں کو رواج دے رہے ہیں ۔ براعظم افریقہ میں تو عرصے سے انہوں نے پنجے
گاڑھ رکھے ہیں ‘ مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کر کے آزاد ملک بنانے میں
بھی انہی مشنریوں کا کردار ہے ۔ ان مشنری اداروں کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی
ہے کہ یہ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر کے عیسائی بنا لیں لیکن اگر انہیں
اس میں کامیابی نہ ہو تو وہ کم سے کم اس پر بھی راضی ہو جاتے ہیں کہ کوئی
مسلمان صحیح معنی ٰ میں مسلمان نہ رہے ۔ ظاہر ہے کہ شراب و شباب کا دلدادہ
‘ احکام اسلام سے بیزار اور کفار کے طور طریقوں کا عاشق مسلمان ان کیلئے
کوئی خطرہ پیدا نہیں کر سکتا۔
اسلامی ممالک میں عیسائیوں کے ارتدادی مشن مختلف لبادے اوڑھ کر کام کر تے
ہیں۔ وہ اپنے آپ کو انسانیت کا خیر خواہ اور مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرتے
ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ و برطانیہ جیسے ممالک مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے
ہیں ‘ ان کی بستیوں پر بمباریاں کر کے انہیں کھنڈرات میں تبدیل کرتے ہیں ‘
جیلوں میں ان کے مردوں اور عورتوں کے ساتھ وحشیانہ اور غیرا نسانی سلوک
کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے فنڈز پر پلنے والے لوگ مشن سکولوں، کالجوں،
مشن اسپتالوں اور بائبل خط و کتابت کو رسز جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں
کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔
ان باطل پرستوں کی محنتوں اور کاوشوں کی صرف ایک جھلک یہ ہے کہ اس وقت
پاکستان میں بہت سے بائبل خط و کتابت اسکول ہیں جو پوری تندہی سے کیپسول
میں زہر بند کر کے مسلمانوں کو کھلا رہے ہیں ۔ اخبارات میں دلکش اشتہارات
کے ذریعے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ کورس کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ہر کورس
مکمل کرنے پر ایک خوبصورت سند بھی جاری کی جاتی ہے۔
میں نے نمونے کے طور پر ایسے ہی ایک ادارے سے یہ کورس منگوایا تو انہوں نے
پہلی قسط جو بذریعہ ڈاک روانہ کی اُس میں ایک کتاب ’’ حضرت یوسف علیہ
السلام ‘ قید سے محل تک‘‘ ساتھ ایک سی ڈی جس پر عربی رسم الخط میں ’’
السمیع ‘‘ لکھا ہوا ہے اور اسباق کے سوال و جواب پر مشتمل چند مطبوعہ
کاغذات تھے ۔ مزید خط و کتابت کیلئے ڈاک کا بہترین لفافہ بھی ساتھ رکھا ہوا
تھا ۔ میں نے جب اس کورس کا مطالعہ کیا تو مجھے ان کی ہوشیاری اور طریقہ
واردات دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے آپ کو بالکل
غیر جانبدار اور انسانیت کا خیر خواہ ظاہر کیا جائے۔ کورس کی اس پہلی قسط
میں انہوں نے کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں لکھا جو بظاہر اسلام کے خلاف نظر
آتا ہو تاکہ بھولے بھالے مسلمان ان کے دامِ فریب میں آسانی سے پھنس جائیں۔
مزید کمال یہ ہے کہ کورس میں وہ ہی اصطلاحات اور الفاظ استعمال کئے گئے ہیں
جو مسلمانوں کیلئے پہلے سے مانوس ہیں ۔ مثال کے طور پر سی ڈی کے اوپر کور
پر جو فہرست دی ہے ‘ وہ یہ ہے ’السمیع ‘اللہ تو ہے کتنا پیارا ‘ وعدہ ‘
ابتدا کا کلام ‘ رہائی ‘ میں نہ خوف کھاؤں گا ‘ اللہ پاک ‘ گناہوں کی
معافی۔
اب ہوتا یہ ہے کہ وہ مسلمان جنہیں کچھ مطالعہ کا شوق ہوتا ہے وہ ایسی چیزوں
کو بے ضرر سمجھ کر پڑھتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی زبانوں پر یہ ہی الفاظ
جاری ہو جاتے ہیں اور دل و دماغ انہی خیالات کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ ایسے
لوگوں سے یہ ادارے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں اور مختلف ترغیبات و تحریصات کے
ذریعے ان کو مرتد بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ الحمد للہ عیسائیت کے
بارے میں علما کرام نے اردو زبان میں ہی اتنا لٹریچر فراہم کر دیا ہے کہ وہ
کبھی بھی میدان میں خم ٹھونک کر مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ شیخ
الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کتاب ’’ عیسائیت
کیا ہے ؟‘‘ اس موضوع پر خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔ مفکر اسلام حضرت مولانا
سید ابو الحسن علی ندوی (رح) نے ’’ ماہی النصرانیۃ ؟‘‘ کے نام سے اس کا
عربی میں ترجمہ کروایا تھا اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی دستیاب ہے ۔
ان ارتدادی سرگرمیوں کا نوٹس لینا ‘ ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہے ۔ مختلف
طبقات اور شخصیات کی طرف سے بارہا اُن سے اپیل بھی کی گئی لیکن وہ صدا
بصحرا ہی ثابت ہوئی۔ موجودہ حالات چونکہ پاکستان میں عمومی بے چینی اور بے
اطمینانی کے ہیں ‘ اس لیے یہ ادارے پورے ملک میں بالخصوص فوجی آپریشن سے
متاثرہونے والے علاقوں میں تیزی سے اپنی مہم چلا رہے ہیں ۔ اگر ہم نے بھی
کلمۂ طیبہ کا اقرار کیا ہے اور بحیثیت مسلمان ہونے کے ‘ اسلام کے دفاع کی
ذمہ داری میں ہم بھی شریک ہیں تو ہمیں بھی غفلت سے کام لینے کے بجائے پوری
تندہی کے ساتھ ایسی سرگرمیوں کاقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سدّباب کرنا
چاہیے ۔ کیونکہ یہ مشنری رضا کار نہیں ہماری نسلوں کے ایمان پر ڈاکہ مارنے
والے راہزن ہیں ۔ |