تنہائی کیسی؟

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
ایسی تنہائی کے کیا کہنے جس میں محبوب ﷺ کا ذکر ہو۔جس میں انسان کا اپنے محبوب سے رابطہ پیدا ہو ۔اور اُس کا دل اپنے محبوب کی یاد میں مشغول ہو۔اور اپنے رب سے لو لگ جائے ۔ویسے بھی حق کے راستے پر چلنے سے انسان کو جس تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تنہائی ہی ہے اور یہ تنہائی اُس کے لیے دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔اور تنہائی چھوڑی بھی نہیں جا سکتی۔بقول کسے باشد
میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چھوڑ دوں
اِس تنہائی نے تنہائی میں تنہا میرا ساتھ دیا ہے۔

بعض اوقات انسان کی زندگی میں ایسے لوگ بھی آ جاتے ہیں جو ہوا کے جھونکے،بارش کی بوند، دھنک کے رنگ ،صحرا میں پانی کے قطرے ریت کے ذرّے،درخت کے کسی سوکھے پتّے ،اور پھول کی آخری پتّی کی طرح ہوتے ہیں لیکن جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوا کا جھونکا گزر جائے ، بارش کی بوند برس جائے ،دھنک کا رنگ پھیکا پڑ جائے ،صحرا میں پانی کے بغیر ریت کا ذرّہ اُڑ جائے ،درخت کا آخری سوکھا پتّا موسم ِ خزاں میں گر جائے اور پھول کی آخری پتّی بھی گر جائے تو اُس وقت انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی کی ساتھی صرف تنہائی ہے جو پتّوں کے بغیر پھول کی طرح ہے۔
اس تنہائی کا ہم پر بڑا احسان ہے
نہ دیتی ساتھ یہ اپنا تو جانے ہم کدھر جاتے

بعض تنہائیاں ایسی ہوتی ہیں جس سے انسان کے گمراہ ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے اور شیطان بآسانی انسان کو اپنا شکار کر لیتا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ایسی تنہائی سے بچے اور آقا کریم ﷺ نے بھی ایسی تنہائی سے منع فرمایا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ
’’ ان الشیطان مع الواحد اقرب ومن الاثنین ابعد ‘‘ترجمہ: بے شک شیطان تنہا شخص کے زیادہ قریب ہے اور دو سے دور ہے۔

تنہائی کے علاوہ تنہا سفر کرنے سے بھی منع فرمایا ۔’’ الراکب شیطان والراکبان شیطانان والثلاثۃ رکب ‘‘ ترجمہ : اکیلا سوار شیطان ہے اور دو سوار شیطان ہیں اور تین سوار ہیں ‘‘۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ الشیطان یھم بالواحد والاثنین،فاذا کانوا ثلثۃ لم یھم بھم‘‘ترجمہ : شیطان تنہا اور دو آدمیوں میں وسوسہ ڈالتا ہے لیکن جب وہ تین ہو جاتے ہیں تو ان میں وسوسہ نہیں ڈال پاتا ۔

فقیہ ابو اللیث ثمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ منع فرمانا شفقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تحریم کے لیے۔کیونکہ اکیلے کو کبھی دشمن پیش آجائے تو بھاگ نہیں سکتا اگر یہ زیادہ ہوں تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور اگر آدمی کو دشمن کا خوف نہ ہو تو اکیلے سفر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ عنہ کو شاہِ روم قیصر کی طرف تنہا ہی بھیجا تھا ۔

فقیہ ابو اللیث ثمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ آدمیوں کے درمیان رہنے کو ناپسند کرتے ہیں اور گوشہ نشینی عزیز رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ تنہائی میں سلامتی اور عافیت ہے ‘‘۔اس سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ آدمی اگر تنہائی اختیار کرے اور اس کا دین سلامت رہے تو تنہائی افضل ہے اور اگر تنہائی میں وسوسوں کا شکار رہے تو پھر لوگوں میں رہنا افضل ہے۔مگر حقوق کی رعایت اور تعظیم پھر بھی ضروری ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا۔’’ اگر وسوسے پیدا نہ ہوتے تو لوگوں سے کبھی کلام ہی نہ کرتا ‘‘۔

کسی حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اے بیٹے !جس کی صحبت میں جی چاہے بیٹھ ۔ مگر پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرنا۔
1:جھوٹے کی صحبت میں کبھی نہ بیٹھنا کہ اس کا کلام سراب جیسا ہوتا ہے کہ قریب کو دور اور دور کو قریب کر دیتا ہے۔
2:احمق کی صحبت میں نہ بیٹھنا کہ وہ نفع پہنچانے کے ارادے سے نقصان پہنچا دیگا۔
3: لالچی کی صحبت نہ اختیار کرنا کہ وہ تم کو ایک گھونٹ پانی اور ایک لقمہ کے عوض فروخت کردے گا ۔
4:بخیل کی صحبت پسند نہ کرنا کہ وہ تم کو اس وقت ذلیل اور محروم کردے گا جب تم زیادہ محتاج ہو گے۔
5:اور بزدل کے پاس بھی نہ پھٹکنا کہ وہ تم کو ہلاک کروادے گا اور تمہارے والدین کو بھی بُرا بھلا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔

اگر ایسے لوگ میسّر آجائیں تو ایسوں کی صحبت میں بیٹھنے سے تنہائی بہتر ہے۔
نہ کچھ رہا پاس اپنے تو سنبھال کے رکھی اک تنہائی
یہ وہ سلطنت ہے جس کے بادشاہ بھی ہم فقیر بھی ہم

دل تو کرتا ہے تیری تنہائی خرید لوں
پر افسوس میرے پاس خود تنہائی کے سوا کچھ نہیں
Hafiz Muhammad Saeed
About the Author: Hafiz Muhammad Saeed Read More Articles by Hafiz Muhammad Saeed: 8 Articles with 13920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.