انسان کی زندگی میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں
جو ہمیشہ کے لیے ان کے دل و دماغ میں نقش ہوجاتے ہیں۔ ان لمحات میں کچھ
ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو سوچ کر انسان لرز جاتا ہے اور دوسرے انسانوں کے
لیے بھی اس سے پناہ مانگتا ہے، جبکہ کچھ لمحات ایسے خوشگوار اثر چھوڑ جاتے
ہیں جن کے بار بار آنے کی انسان کو ہمیشہ کے لیے حسرت ہوتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ اپنے بعض بندوں پر خاص فضل کرتا ہے کہ ان کے زندگی میں
خوشگوارلمحات کثرت سے لاتا ہے اور وہ ان لمحات سے محفوظ ہوکر اپنے زندگی کے
چھوٹے موٹے تکالیف اور مصیبتوں کو بھول جاتا ہے۔ ایسے ہی بعض لمحات بندہ کے
حصہ میں بھی آئے۔ عصری تعلیم کے بعد اﷲ تعالیٰ نے علوم سماویہ حاصل کرنے کی
توفیق عنایت فرمائی۔ درس نظامی سے فراغت کے بعد اساتذہ کی شفقت اور اعتماد
کے بدولت ملک کے ایک ایسے دینی و عصری تعلیمی امتزاج کے ادارے میں سال بھر
کا کورس کرنے کا موقع ملا جہاں داخلہ لینا میرے لیے صرف ایک خواب سے بڑھ کر
نہ تھا۔ صرف اسی پر بس نہیں، اﷲ تعالیٰ نے اتنے انعامات کے بعد سو مرتبہ
نظر شفقت فرمائی۔
جی ہاں ! جس کو اﷲ تبارک و تعالیٰ سو مرتبہ نظر شفقت فرماتا ہے تو اسے اپنے
گھر کا دیدار نصیب کر لیتا ہے۔ 2015سے 2016 تک کا سفر ایسے حسین ، خوشگوار
اور مسحور کن لمحات پر مشتمل تھا جس کی ہر مسلمان کو تمنا ہوتی ہے۔ دسمبر
کے آخری ہفتے کے دن پشاور سے جہاز نے اڑان بھر لیا اور جدہ کی پاک سرزمین
پر پہنچا دیا۔ وہاں سے مکہ مکرمہ پہنچے تو فجر کا وقت قریب تھا۔ سامان ہوٹل
میں رکھ کر اﷲ رب العزت کے پاک گھر کی زیارت کے لیے نکل گئے۔ مسجد الحرام
میں قدم رکھ کر یقین نہ آیا ۔ کہا ہمارے ناپاک قدم اور کہا اﷲ کا گھر۔
گناہوں اور ندامت سے بھرا گردن جھکائے خانہ کعبہ کے سامنے پہنچے تو اپنے
انکھوں پر یقین نہ آیا کہ ہمارے سامنے وہی گھر ہے جس کو دیکھے بغیر اربوں
مسلمان اسی کی طرف منہ کر کے اﷲ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کا
طواف کیا ۔ جب سعی کے لیے صفا پر پہنچے تو پورا ذہن میں وہ منظر سامنے آیا
کہ کیسے یہاں پر حضرت ہاجرہ نے سات چکر لگائے تھے۔ کس طرح حضرت اسماعیل ؑ
پانی کی طلب میں تڑپے ہوں گے۔ اس وقت یہ وادی کیسے وحشت کا منظر پیش کر رہی
ہوں گی۔ جب سعی کی تو پتہ چلا کہ حضرت ہاجرہ نے کتنی تکلیف برداشت کی ہو گی۔
اس وقت پتھریلے پہاڑوں کے اوپر چڑھتے اترتے ان پر کیا گزری ہوگی۔
عمرے کے ارکان پورے کرکے چار دن مکہ مکرمہ میں گزارے اور نئے سال کا سورج
طلوع ہونے سے ایک دن پہلے مدینہ النبی ﷺ کے زیارت کے لئے نکل گئے۔ جیسے
جیسے مدینہ قریب آتا گیا ویسے ویسے ہوا معطر ہوتی گئی۔ فضا دلوں کو سکون
پہنچانے والے ہواؤں سے بھر تھی۔ مغرب کے وقت مدینہ منورہ پہنچے۔ نئے سال کی
پہلی رات امام الانبیاء، خاتم الرسل، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی
اﷲ علیہ وسلم کے شہر میں گزاری۔ نئے سال کے پہلی صبح فجر کے فورا بعد سرور
کائنات ﷺ کے روضہ مطہرہ پر حاضری دی۔ ندامت اور گناہوں کی وجہ سے سر جھکا
کر اس ہستی کے سامنے کھڑے ہو گئے جس نے پوری زندگی اپنی امت کے لیے دعا ئیں
مانگیں۔ جس نے زندگی بھر اپنی امت کے لیے رو رو کر راتیں گزاری۔ جو قیامت
کے دن اﷲ کے دربار میں کہے گا ’’یارب امتی امتی‘‘۔ اﷲ تعالیٰ تمام امت کو
حضور سرور کائنات کی شفاعت نصیب کریں اور ان کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر
کا پیالہ نصیب کریں۔ روضہ اقدس پر حاضری کے بعد جنت البقیع میں حاضری دی
جہاں ہزاروں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین مدفون ہیں۔
مدینہ منورہ میں 8 دن گزاری۔ اس دوران سبعہ مساجد، مسجد جمعہ، مسجد غمامہ،
مسجد اجابہ، مسجد قبا، مسجد قبلتین سمیت جنگ احد کے مقام کی زیارت کی اور
احد کی شہداء کے مقبرے پر حاضری دی۔ بدر کی مقام کی زیارت کی جہاں پر اسلام
کی پہلی غزوہ لڑی گئی اور اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے اپنے حبیب اور
مسلمانوں کی براہ راست مدد کرکے کفار کو عبرت کا نشانہ بنایا۔ شہدائے بدر
کے مقبرے پر حاضری دی۔
مدینہ منورہ سے واپس مکہ مکرمہ آکر 8 دن گزارے ۔ جن میں عرفات، منی، مزدلفہ،
جنت المعلی، مسجد جن اور مسجد شجرہ کی زیارت کی۔ جس مقام پر حضرت ابراہیم ؑ
نے حضرت اسماعیل ؑ ؑؑکوقربانی کے لیے پیش کر کے لٹا یا تھا وہ منی سے واضح
طور پر نظر آتا ہے۔ جس جگہ چھوٹے پرندوں کے ذریعے ہاتھیوں کے لشکر و نیست و
نابود کیا گیا تھا وہ اﷲ کی وحدت و عظمت پر دلالت کر تا ہے۔ نبی آخر الزمان
کا گھر جس جگہ پر موجود تھا، جہاں سے بڑھیا سرور کائنات پر کچرہ پھینکتی
تھی، اس زمانے کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ جس جگہ عرب اپنے بچیوں کو زندہ دفن
کرتے تھے آج بھی کوئی ہاتھ لگائے تو خون کی آنسوں روتی ہے۔ غار حرا میں
جاکر احساس ہوجاتا ہے کہ اس زمانے میں نبی آخر الزمان کس طرح مکہ سے نکل کر
یہاں تک آتے اور پھر اس پتھریلے پہاڑی پر چڑھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر
اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے۔ آج بھی اگر صحت مند نوجوان اس پہاڑی پر
چڑھنا چاہے تو سیڑھیاں بننے کے باوجود بھی وہ مسلسل چلتے ہوئے چوٹی تک نہیں
جا سکتا۔ اس وقت کی پر پیچ راستوں پر کس طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؒ 55برس کی
عمر میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے کھانا پہنچاتی۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اگرچہ عمارات بدل چکے ہیں۔ گلیاں اور کوچے
وہ نہیں رہیں۔ آرائش و آسائش کا تمام سامان میسر ہے۔ لیکن آج بھی وہ زمین
اور آسمان موجود ہے۔ آج بھی مکہ اور مدینہ سرور کونین حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یاد دلاتی ہے۔ انسان کے لیے وہ وقت انتہائی
تکلیف دہ ہوتا ہے جب وہاں پر رہنے کے دن پورے ہوجاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے
بھی ٹوٹے دل کے ساتھ وہاں سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ بلاخر اس امید کے ساتھ
وہاں سے رخصت ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ باربار اپنی گھر کی اور اپنے حبیب کی روضہ
کی زیارت نصیب کرے گا۔ اﷲ رب العزت تمام مسلمانوں کو یہ مبارک سفر نصیب
کریں- |